میرا شہر محبتوں کا شہر ہے اس سے وابستہ کچھ یادیں اور بہت سے ادھورے خواب
حنا سہیل، جدہ، سعودی عرب
جب بھی کراچی کے بارے میں لکھتی ہوں ،تو کچھ جذباتی سی ہوجاتی ہوں کہ جہاں آپ پیدا ہوئے ہوں، پلے بڑھے ہوں،وہاں کی ایک ایک چیز ماضی کی خوب صورت یادیں بن کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ سال میں ایک بار تو کراچی آنا خود پر گویا لازم کر رکھا ہےاور کبھی یاد زیادہ ستاتی ہے تو ایک سے زاید چکر بھی لگ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں کراچی گئی ہوئی تھی، تو اطلاع ملی کہ ہماری پڑوسن حلیمہ بائی انتقال کر گئی ہیں، تو ہم دونوں بہنیں رکشا کروا کر بھاگم بھاگ ان کے گھر جا پہنچیں۔ایک زمانے میں ہماری اور حلیمہ بائی کے گھر کی دیواریں ملی ہوئی تھیں۔یوں کہہ لیجیے کہ دو الگ ثقافتوں کے لوگ محبتوں کے رشتوں میں بندھے ہوئے تھے۔ حلیمہ بائی ہمیں کہا کرتیں کہ" میں تمھاری خالا ہوں اور پھوپی بھی۔" کیا ہی اچھا زمانہ اور ماحول تھا۔ محلے کی خواتین،سب کی خالائیں اور پھوپھو ہوتی تھیں اور بچوں سے اسی طرح رہتی بھی تھیں ،دکھ سکھ کی ساتھی ، کبھی کوئی بیمار ہوتا، تو بھاگی چلی آتیں۔ کوئی سودا لانا ہے، دہی لانی ہے یا تندور سے روٹیاں، محلے کے بچے خوشی خوشی سب کام کردیتے۔ حلیمہ بائی کے انتقال پر یوں لگ رہا تھا،جیسے کسے سگے رشتے دار کی وفات ہوئی ہو۔
میرا کراچی، محبتوں کا شہر ہے۔ شعراء کا مسکن، طلبہ کا مستقبل اور مزدوروں کا"مائی باپ" ہے _ پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ آنکھوں میں طرح طرح کے سپنے بسائے یہاں آتے ہیں اور یہ شہر خوابوں کی تعبیر میں ذرا سی بھی بخیلی نہیں دکھاتا۔ سب کے لیے اپنی بانہیں پھیلائے رکھتا ہے۔یہ ایسا دل نواز میزبان ہے کہ جو ایک بار اس کی میزبانی سے لطف اندوز ہوجائے، تو پھر اسی کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے۔اس کا کہیں اور جانے کو دل ہی نہیں کرتا اور اگر کہیں چلا بھی جائے تب بھی دل یہیں اٹکا رہتا ہے۔ مختلف رہن سہن اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے اس کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں، شاید اسی لیے اسے" منی پاکستان" کہا جاتا ہے ۔اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر علاقے کے باسیوں کو اس نے اپنے دامن میں سمیٹا ہوا ہے۔ یہاں کے علماء، ادبا، شعرا، سماجی کارکنان، سیاست دانوں،سائنس دانوں، تعلیمی ماہریں، فن کاروں اور کھلاڑیوں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے نہ صرف ملک بلکہ دنیا میں نام کمایا۔ یہاں دارالعلوم کورنگی اور بنوری ٹاون سمیت کئی علاقوں میں ایسے مدارس تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، جنھیں عالمی سطح پر انتہائی قدرو منزلر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔نیز، جامعہ کراچی، این ای ڈی اور ڈاو میڈیکل یونی ورسٹی سمیت عصری و فنی تعلیم کے ادارے بھی فروغ علم کے لیے کوشاں ہیں۔ اسے" پڑھے لکھے لوگوں کا شہر "بھی کہا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے اس کا یہ تعارف کچھ دھندلا سا گیا ہے۔یہاں جے چند معروف افراد میں،جنھوں نے دنیا میں مقام حاصل کیا،حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر ادیب رضوی ، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ، عبدالستار ایدھی ،مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان،جاوید میاں داد، عمر شریف، جنید جمشید ، فاطمہ ثریا بجیا ، انور مقصود ، حسینہ معین ، معین اختر وغیرہ شامل ہیں _
انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں یہاں بہت سی تعمیرات کروائیں، جو اپنے دل کش فن تعمیر کے سبب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ کبھی صدر یا ایمپریس مارکیٹ کے علاقے سے گزریں ،تو ایسا لگے گا کہ جیسے انگلینڈ میں گھوم رہے ہوں۔ بس زرا عمارتوں کو صفائی کی ضرورت ہے۔ سندھ اسمبلی ، ہائی کورٹ کی بلڈنگ ، فیریئر ہال ، مہٹا پیلس ،جہانگیر کوٹہاری وغیرہ خوب صورتی میں کسی سے کم نہیں۔ جدید عمارتوں نے بھی، آواری ٹاور ، پرل کانٹیننٹل ہوٹل،ہالیڈے ان اور بے شمار شاپنگ مالز نے اسے دنیا کے جدید ترین شہروں کی فہرست میں شامل کردیابے۔صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں کاروبار کے لیے بھی علاقے مختص ہیں، جہاں روزانہ بلا مبالغہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج یہیں ہے۔گو کہ اب شاپنگ کے لیے مالز جانے کا فیشن ہوگیا ہے، لیکن پھر بھی طارق روڈ، زمزمہ روڈ ، بہادر آباد، زیب النساء اسٹریٹ، صدر ، حیدری، پاپوش یہاں کی اہم مارکیٹس ہیں جب کہ لکی ون مال یہاں کا ماڈرن اور سب سے بڑا مال ہے ۔یہاں کے کئی علاقے کارخانوں کے لیے مختص ہیں، جہاں قائم ہزاروں فیکٹریز روزگار کی فراہمی کے ساتھ ملکی معیشت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔بھلا اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس چیز کا ذکر نہ کیا جائے، جس نے مچھیروں کی اس بستی کو میٹرو پولیٹن کا روپ دیا ہے۔جی ہاں، یہاں کی بندرگاہ اور ساحل اس شہر کا سب سے اہم حوالہ ہیں۔یوں تو یہاں کئی جزیرے ہیں لیکن ان میں منوڑہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔یہ ایک پکنک پوائنٹ بھی ہے۔ کیماڑی کو یہاں کی قدیم ترین بندرگاہ قرار دیا جاتا ہے، جب کہ تجارتی نقطہ نظر سے پورٹ قاسم بھی بے حد اہم ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ " کراچی کسی دیو قامت کیکڑے کی طرح سمندر کے ساحل پر پاؤں پسارے پڑا ہے۔" اس ساحل کی وجہ سے کراچی کی شامیں خوشگوار ہوتی ہیں۔ جب سمندری ہوا چلتی ہے،تو پسینے میں نہائے شہری ٹھنڈک کے احساس سے نہال ہوجاتے ہیں۔ گرمی کی تپش ختم ہوجاتی ہےسمندر اپنے اندر ببہت کشش رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شہری سی ویو ، سینڈز پٹ، مرینا کلب، ہاکس بے اور بوٹ بیسن وغیرہ کا رخ کرتے ہیں تاکہ کام کے دباو اور شہری زندگی کی اکتاہٹ سے نجات پاسکیں۔ کراچی کا ذکر ہو اور یہاں کے کھانوں کی بات نہ ہو، ایسا کیسے ممکن ہے۔ جس طرح یہاں کی ثقافت میں ہر جگہ کا رنگ جھلکتا ہے، اسی طرح یہاں کے کھانے بھی مختلف ثقافتوں کے آئنہ دار ہیں ، مثلاً دھلی نہاری ، پائے ، کراچی حلیم ، حیدرآبادی اچار ، ربڑی اور فریسکو کی مٹھائی۔جو شیرمال اور تافتان یہاں ملتے ہیں، ویسے دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملتے ہوں۔بلکہ شیرمال تو صرف کراچی ہی میں ملتے ہیں۔ ساحل کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت، ماڈرن پر سکون فوڈ اسٹریٹ بنائی گئی ہے، جسے "پورٹ گرینڈ" کا نام دیا گیا ہے۔ اکثر چھٹیوں میں لوگ یہاں بچوں کے ساتھ کھانا کھانے آتے ہیں کہ صاف ستھرے ماحول میں کھانے کے ساتھ تفریح بھی ہوجاتی ہے۔ لیاری یہاں کی قدیم ترین بستی ہے اور یہاں کے باسی اپنے حلیے اور رہن سہن میں شہر کے باقی لوگوں سے مختلف ہیں۔ مکران کے ساحل پر رہنے والے مکرانی اور لیاری کے رہائشیوں میں خاصی مماثلت ہے کہ ان کی عادتیں اور شکلیں آپس میں بہت ملتی ہیں۔لیاری فٹ بال اور باکسنگ جیسے کھیلوں کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے حالاں کہ ملک کے باقی حصوں سے تو یہ کب کے رخصت ہوچکت۔ کامن ویلتھ گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتنے والے باکسر شاہ حسین شاہ کا تعلق لیاری ہی سے ہے۔ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مقابلے میں حصہ لیا اور ملک کے لیے تمغہ جیت کر آئے۔ اس سے پہلے ان کے والد حسین شاہ نے بھی اولمپکس میں تمغہ جیتا تھا ۔یہاں شمار ٹیلنٹ موجود ہے،جسے حکومت کی معمولی سی پرستی بھی نکھار سکتی ہے۔
کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے، اسی لیے اسے بڑھتی ہوئی آبادی ، ٹریفک ، آلودگی ، غربت اور جرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔یہ تمام مسائل صرف اسی صورت حل ہوسکتے ہیں، جب اس کا نظم و نسق ایسے افراد کے ہاتھ میں ہو، جو اس شہر کو اون کرتے ہوں۔جنھیں یہاں کے مسائل کا ادراک ہو ، جو کراچی کو اپنا گھر سمجھیں۔
یہاں ٹریفک کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ ایک زمانے میں مختلف روٹس پر بڑی بسیں چلا کرتی تھیں ،جس سے طلباء ،نوکری پیشہ خواتین اور متوسط طبقے کو سفر میں سہولت رہتی تھی، لیکن وہ بسیں ایک ایک کرکے ختم ہو گئیں جبکہ کوئی متبادل نظام بھی نہیں کیا گیا۔کسی شاعر نے اس بات کو اس طرح کہا ہے "
کتنا اچھا ہے کراچی میں ٹریفک کا نظام۔۔
۔نہ تو پبلک نہ پولیس والوں کے منہ میں ہے لگام۔"