سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ نوجوانی پھر کہاں
حنا سہیل ریاض
کبھی کبھار ایسا لگتا ہے، میری شادی موجودہ دور کے ابنِ بطوطہ سے ہوگئی ہے ،ویسے یہ تو ازراہِ مذاق لکھ دیا، لیکن یہ بھی حقیت ہے کہ جب سے شادی ہوئی ہے، الحمدللہ بہت سفر کیے ہیں، آج جس سفر کا ذکر کرنے جارہی ہوں، وہ بہت دل چسپ اور تاریخی ہے۔
یہ فروری 2018 کی بات ہے ،بجٹ ائیرلائن نے ایک اچھی اسکیم آفر کی اور میاں جی نے فوراً 5 ٹکٹ استنبول کے لیےبک کروا لیے ، سب سے پہلے موسم دیکھا گیا کہ استنبول کا موسم کیسا ہے، پھر ا س کے مطابق کپڑے، دستانے گرم موزے،اور جوتے لیے۔ بارش کی وجہ سے برساتیاں بھی لے لیں ، میاں ہوٹل اور گاڑی کی بکنگ کے کاموں میں لگ گئے۔ بچے سب بہت خوش اور پر جوش تھے ، سب نے اپنی اپنی پیکنگ کرلی، کسی نے سفر میں پڑھنے کے لیےکتاب رکھی تو کسی نے لکھنے کے لیے ڈائری ۔ ریاض سے استنبول کے لیے ہماری چھ گھنٹے کی فلائٹ دوپہر کو تھی ۔ بچوں کا اسکول تھا، اس لیے یہ ہی طے پایا کہ بچوں کو اسکول سے لے کر ائیرپورٹ جائیں گے، میں نے بچوں کے کپڑے رکھ لیے، تاکہ وہ سفر سے پہلے تبدیل کر سکیں۔ اسکول ایر پورٹ کے راستے میں ہی ہے تو گویا آدھا راستہ ائیرپورٹ کا ہوچکا تھا۔
رات کو 1بجے استنبول کے صبیحہ گوگن (SAW) ائیرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا ، سامان میں صرف 2 سوٹ کیس تھے کیوں کہ ہم صرف چار دن کے لیے گئے تھے ۔ ائیرپورٹ سے ہی کرائے کی کار (rent a car)لی کیونکہ میاں جی کو چاروں طرف نظارے دیکھنے کے ساتھ ساتھ خود ڈرائیونگ کا شوق بھی ہے ۔ سامان رکھا ، کچھ کرنسی تبدیل کروائی اور اپنے ہوٹل کی طرف نکل کھڑے ہوئے، جی پی ایس نے ڈیجیٹل رہ نمائی کی ۔ اس ٹیکنا لوجی سےراستے بہت آسان ہوگئے ہیں ۔ لیکن لیکن کبھی کبھی اس مشینی رہ نمائی سے دھوکا بھی ہو جاتا ہے ، اس روز بھی یہ ہی ہوا ۔ جب ہم باسفورس پل کے پاس پہنچے تو ہمارا جی پی ایس ہمیں الٹا گھما نا چاہ رہا تھا ۔ اب اس کے کہے میں آکر کار سمندر میں تو ڈال نہیں سکتے تھے۔ اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، سامنے جو پل باسفورس پر تھا وہ بند تھا اور ہمیں دوسری طرف جانا تھا ۔خیر ایک اللہ کا بندہ ملا مگر اسے انگریزی نہیں آتی تھی اور ہمیں ترکی نہیں آتی تھی یعنی وہی ہوا
"زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم"
پھر قدیم زبان کام آئی یعنی ہم نے اس سے اشاروں کی زبان میں پوچھا، اس نے بھی اشاروں کی زبان میں سمجھایا کہ آگے والا پل کھلا ہوا ہے وہاں سے جائیں ، آخر یہ مسئلہ حل ہوا جان میں جان آئی۔ رات تین بجے ہم اپنے ہوٹل پہنچے ۔ بھوک سے برا حال تھا لیکن خوشی کی انتہا یہ تھی کہ ہمارا ہوٹل مسجد سلطان یعنی Blue mousqeکے سامنے تھا ۔ہم کھڑکی سے بہت خوبصورت منظر دیکھ سکتے تھے، یہ سب دیکھنے کے بعد سب اپنی تھکن بھول گئے، سامان رکھ کر نیچے آئے ، اچھی رونق تھی، روایتی ترک اسٹائل کا ہوٹل تھا، جس میں کرسیاں ،قالین بچھے تھے اور انگیٹھیاں روشن تھیں، کھانا بھی مزے دار ترکی اسٹائل کا تھا، دانا کباب اور پھر بغیر دودھ کی چائے۔ بہت مزا آیا ۔ واپس ہوٹل پہنچے اور سکون سے سو گئے۔ مسجد سلطان سے فجر کی اذان کی آواز بلند ہوئی تو ہم بھی جاگے۔ فجر پڑھی ،چوں کہ سفر کی تھکن خوب تھی ، اس لیے پھر سو گئے۔ 9بجےناشتا کیا ۔اور گھومنے کی پلاننگ کرنے لگے ۔یہ ہوٹل چھوٹا سا تھا مگر خوبصورت اور صاف ستھرا۔ ہوٹل کے مینجر اور مالک اچھے با اخلاق تھے۔
ناشتا کرتے ہوئے سامنے نظر پڑی تو استنبول کا تاریخی اراستا بازار Arasta Bazar نظر آیا ، ترکی زبان میں بھی بازار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، ہم نے سوچا، اپنا پروگرام یہیں سے شروع کرتے ہیں مگر میاں جی کے اعلان نے ایک دھماکا کردیا کہ صرف گھومنا ہے خریداری ہماری لسٹ میں نہیں ہے ۔ خیر جب ہم بازار میں داخل ہوئے تو ترکی کی روایتی سجاوٹ اور چیزوں سے آراستہ "اراستا بازار " بہت خوبصورت اور سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ خاص کر اون سے بنے ٹوپیاں ، موزے دستانے اور خاص قسم کی نیلے نگوں والی جیولری۔ اس کے علاوہ زعفران اور ترکی کی خاص مٹھائیاں ، ان چیزوں سے بازار بھرا ہوا تھا۔ خاص طور پر منقش چاقو ، دکاندار لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مٹھائیاں سینیوں میں پیش کررہے تھے کہ پہلے چکھ لیں، پھر خریدیں ، ہم نے بھی کچھ خاص ترک مٹھائیاں خریدیں ، تاکہ دوستوں اور رشتےداروں کو کھلا سکیں ۔ بازار سے نکلے تو تھوڑی دور ہی "مسجد سلطان " تھی اس کو blue mosque بھی کہتے ہیں ۔کیا شاندار تاریخی عمارت ہے، مسلمان مجاہدین کی بہادری کی نشانی ، ہم نے ظہر کی نماز یہیں پڑھی ۔ مسجد کے اندر لالٹین طرز کے فانوس لگے دیکھ کر بچے بھی حیران تھے۔ یعنی قدیم اور جدید کا امتزاج تھا ، باہر صحن کے چاروں طرف کچھ کمروں میں تالے لگے ہوئے تھے ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مدرسے تھے اب بند کرکے نئے مدرسے کھول دیے گئے ہیں ، اتنا گھومنے کے بعد بھوک نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا تھا ۔ ہم نے باسفورس کے کنارے ایک ہوٹل سے سینڈوچ کی طرح کا کھانا کھایا۔ اس میں چیز کا استعمال بہت زیادہ کیا گیا تھا ، وہیں بیٹھ کر آیا صوفیہ ( hagia Sophia) دیکھنے کا پروگرام بنایا جو مسجد سلطان کے بالکل سامنے واقع ہے۔
دونوں تاریخی عمارتیں آمنے سامنے کھڑی ہمارے شاند ار ماضی کی داستان سنا رہی ہیں ، میں نے بھی بچوں کو وہاں لے جانے سے پہلے تاریخی اہمیت بتانا مناسب سمجھا ، یہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے کہ سلطان محمد فاتح نے استنبول (قسطنطنیہ)کیسے فتح کیا ، اور استنبول کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ یہ ایشیا اور یورپ دونوں میں ہے ان کو ملانے والا چینل باسفورس ہے ، جب سلطان محمد نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا، اس وقت کی بازنطینی سلطنت بہت مضبوط تھی اور کلیساؤں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی، اسی وجہ سے آیا صوفیہ جو عیسائیوں کی مقدس عبادت گاہ تھی، اس کی حفاظت کے لئے دریا میں زنجیریں ڈال دی گئیں تھیں کہ مسلمان یہاں نہ پہنچ پائیں لیکن سلطان نے خشکی پر پانی کے جہاز چڑھائے۔ راتوں رات جانور کاٹے گئے۔ انکی چربی لکڑی کے بڑے بڑے تختوں پر ڈالی گئی اور اس پر پانی کے جہاز کو پھسلا کر دریا کے دوسری طرف لے گئے اور جہاں سے دشمن نے سوچا بھی نہیں تھا ،وہاں سے مسلمانوں نے اپنی فوجیں اتار دیں ، آیا صوفیہ میں پادری عبادتوں میں مصروف تھے اور سوچ رہے تھے کہ ان کی مدد کو کوئی فرشتے اتریں گے۔ مگر جب انھوں نے مسلمانوں کو دیکھا تو کہنے لگے :" یہ جنات آگئے ہیں "۔
میاں صاحب بار بار بیچ میں ٹوک رہے تھے کہ جلدی کرو ورنہ دیر ہو جائے گی ، سب آیا صوفیہ کو دیکھنے کے مشتاق تھے، یہ بھی قریب ہی تھا جیسا کہ پہلے لکھا کہ ہمارا ہوٹل مسجد اور" اراستا بازار" سے لگا ہوا ہی تھا اور مسجد کے سامنے آیا صوفیہ تھا ، آیا صوفیہ کو سلطان نے فتح کرنے کے بعد مسجد بنا دیا تھا، جس کے آثار اندر سب جگہ نظر آرہے تھے۔ جگہ جگہ گرجا کے آثار بھی تھے اور چاروں خلفاء راشدین کے نام کیلی گرافی سے خوبصورت رنگوں سے لکھے ہوئے بھی تھے ۔ اس کے اندر زنداں کی طرح کے چھوٹے چھوٹے کمرے بھی ہیں۔ پتھر سے بنی یہ عمارت اپنے اندر بہت سی تاریخی واقعات رکھتی ہے، پہلے عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی، پھر مسلمانوں کی مسجد بنی اور پھر اتا ترک نے اسے عجائب گھر بنادیا ، اب پھر پچھلے سال طیب اردگان نے اسے دوبارہ مسجد بنادیا ہے ۔
آیا صوفیہ کے قریب ہی مشہور توپ کاپی میوزیم بھی ہے، آیا صوفیہ دیکھتے ہوئے ہمیں شام ہو چلی تھی، اس لیے اگلے دن کے لئے میوزیم کا پروگرام رکھا ، رات کا کھانا اسپیشل ترکش چلو کباب اور خاص طرح کے چاول ،سلاد اور پنیر میں بیگن ڈلے ہوئے تھے ۔ کھانا مزے دار تھا، ایک تو سردی زبردست تھی ،پھر اس پر گرما گرم کھانا ، ترکی کھانوں میں پنیر کا استعمال بہت کرتے ہیں ۔۔ عشاء پڑھتے ہی سوگئے ، اس لیے کہ اگلی صبح بہت مصروف ہونے والی تھی۔
دوسرے دن صبح جلدی اٹھ کر کچھ شاپنگ اور کچھ گھومنے کے پروگرام کو ترتیب دیا، سامان اگلے سفر کے لئے باندھ لیا - سب سے پہلے آج ہمیں باسفورس دریا کی فیری (چھوٹی کشتی )میں سیر کرنی تھی ، بچوں نے اس کو بھر پور انجوائے کیا ، پانی پر اڑتے ہوئے پرندے بار بار قریب آجاتے تو بچے انھیں روٹی کے ٹکڑے اور فرائس کے ٹکڑے دیتیں ، گائیڈ کی کمنٹری چل رہی تھی کہ اب آپ یہ دیکھ رہےہیں، ساتھ میں اس کے آثار ہیں یا کوئی قلعہ تھا ، اس کشتی میں بیٹھ کر صحیح اندازہ ہوا کہ ترک کیسے آئے ہوں گے کیونکہ جس جگہ سے قسطنطنیہ میں داخل ہوئے تھے وہاں ایک یادگار مینار "گیلاٹا ٹاور" کر نام سے بنایا ہے ، وہ بھی نظر آرہا تھا اور استنبول آدھا یورپ اور آدھا ایشیا میں ہے، وہ بھی سمجھ آرہی تھی ، فیری کی انتظامیہ نے کچھ لوگوں کو ایکٹنگ کے لیےرکھا تھا، کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں جیسا لباس پہن کر ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کررہے تھے، عام لوگ یا سیاح بھی اسی طرح کا لباس پہن کر ایک خاص اسٹیج پر کھڑے ہوکر تصویر بنو اسکتے تھے۔ کچھ پیسے اس کے الگ سے دینے تھے ، بہت سے لوگوں نے یہ شوق بھی پورا کیا، فیری کے بعد ہم "توپ کاپی میوزیم"دیکھنے گئے ۔وہاں مسلمانوں کی متبرک اور تاریخی چیزیں رکھی ہیں ، ٹکٹ لے کر لائین سے دیکھتے چلے جائیں، سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا مبارک دیکھا، آگے خانہ کعبہ کا دروازہ اس کی چابی ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منسوب استعمال کی چیزیں ، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ،چاروں خلفاء راشدین کی تلواریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک اور بہت سی چیزیں میرا دل ہوا کہ فوٹو لے لوں اور سب کو دکھاؤں۔ وہیں سیکیورٹی والے نے آکر اتنی زور سے ڈانٹا کہ فوٹو لینا منع ہے ، سب بچے بھی ڈر گئے ۔ ان چیزوں کو دیکھنے کے لیے صرف مسلمان نہیں، بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی تھے ۔
ہمیں یہیں ظہر ہوگئی تھی ،اسکول کے بچے اور بچیوں کا گروپ بھی آیا ہوا تھا ، ان کے ساتھ بھی ہم نے کچھ فوٹو لیے ،
یہاں سے ہماری منزل حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار تھا، آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک صحابی رسول کا مزار یہاں کیسے؟ اصل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی تھی کہ جو قسطنطنیہ فتح کرے گا، وہ جنتی ہوگا ، اور اللہ اس سے راضی ہوں گے ۔ مسلمانوں نے کئی حملےقسطنطنیہ پر کیے ، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جماعت کے ساتھ آئے اور بحری جہاز میں ہی آپ کا انتقال ہوگیا، آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی وہیں تدفین کردی گئی۔
بچوں کے دل میں پہلے ہی بہت عقیدت اور احترام تھا اور یہ باتیں سننے کے بعد انھیں بہت قریب محسوس ہوا ، ہم نے فاتحہ پڑھی اور دیگر شہداء کی قبروں کی زیارت کی اور فاتحہ پڑھی ۔
اس کے بعد سامنے سے ایک چھوٹا سا بازار تھا ،خوبصورت شال لی، خاندان کے بزرگوں کے لیے چمڑے والی ٹوپیاں ور جرابیں لیں ، ترکی کا مشہور ڈونر برگر کھایا اور پھر ہوٹل واپس آگئے۔ اگلی صبح بورسہ سے ہوتے ہوئے الوداخ جانا تھا جو ایک پہاڑی مقام ہے ۔ (جاری ہے )