کچھ تاریخی پس منظر اور غار کا مقام و محققین کا اختلاف
مومنہ حنیف۔گجرات
دنیا میں قدرت کے ایسے ایسے معجزے و کرامات رونما ہوئے ہیں جن کو سننے اور پڑھنے کے بعد ہر انسان کا ایمان تازہ اور باری تعالیٰ پر یقین مزید پختہ ہوجاتا ہے۔قدرت کی ان کرامات میں سے ایک کرامت ایسی ہے جسے قرآن پاک کی سورہ کہف میں مفصل بیان کیا گیا۔

اصحاب کہف‘ لغوی معنی اور وجہ تسمیہ’کہف‘ عربی زبان میں غار کو کہا جاتا ہے۔ اصحاب ساتھیوں کو اور یوں ’اصحاب کہف‘ یعنی یار غار مختلف ناموں سے معروف ہیں۔ عیسائیوں کے یہاں یہ ’Seven Sleepers‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ قرآن کریم میں ان کو ’اصحاب الرقیم ‘ ذکر کیا گیا ہے۔ رقیم اُس وادی کا نام تھا جس کے پہاڑ میں غار واقع تھا، یا رقیم پہاڑ کا نام تھا، یا اُس شہر کا نام رقیم تھا اور رقیم سے مراد وہ کتبہ بھی لیا جاتا ہے جو اُس غار پر اصحابِ کہف کی یادگار کے طور پر لگایا گیا تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ نے’معارف القرآن‘ میں ایک روایت کی بنیاد پر اُن کے یہ نام تحریر کیے ہیں: مکسلمینا، تملیخا (جو کھانا لینے گئے تھے)، مرطونس، سنونس، سارینونس، ذونواس اور کعسططکیونس۔ ‘ غار کا مقام و سن‘ اور مورخین کے اختلافات
واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟چوں کہ تاریخ میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں، جب نیک و صالح افراد، بادشاہوں کے خوف یا عبادات کے لیے غاروں میں جابسے تھے، اِسی لیے مورخین کے درمیان اصحابِ کہف کے زمانے اور اُن کے غار کے تعیّن میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ترکی، اُردن، شام، یمن، اسپین، آذربائیجان، اندلس، تیونس اور الجیریا سمیت کئی مقامات پر اصحابِ کہف سے منسوب غار موجود ہیں، تاہم اِن میں سے تین مقام زیادہ معروف ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ’ایلہ‘ یعنی عقبہ کے قریب واقع، رقیم نامی شہر میں پیش آیا، جہاں بت پرست نبطی حکمران تھے۔ رومیوں کے قبضے کے بعد اُس شہر کا نام بدل گیا اور اب اُسے رقیم کی بجائے پیٹرا (بطرا) کہا جاتا ہے۔ یہ اُردن کا ایک معروف تاریخی مقام ہے۔ سیّد سلیمان ندوی نے بھی اپنے سفرنامہ ارض القرآن میں پیٹرا ہی کو رقیم لکھا ہے۔
تاہم بیشتر قدیم اور جدید مفسّرین کا خیال ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ترکی کے قدیم شہر، افسس(Ephesus) میں پیش آیا تھا، جو، ازمیر سے 20، 25 میل کی مسافت پر ہے۔ عیسائی لٹریچر میں بھی یہ واقعہ’Seven Sleepers‘ یعنی ’سات سونے والوں‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ اس واقعے کا پہلی بار ایک شامی پادری یعقوب (جیمس) سروجی نے 521ءمیں ذکر کیا تھا، جبکہ معروف مورخ، ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب’The decline and fall of Roman Empire‘ میں اِس واقعے کی جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ اسلامی مورخین کی روایات کے قریب تر ہیں۔ عیسائیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ واقعہ ترک شہر، افسس میں پیش آیا۔تاہم 1953ءمیں اُردن کے دارالحکومت، عمان سے آٹھ میل کی دوری پر ’رجیب‘ نامی بستی کے پہاڑوں میں ایک غار دریافت ہوا، جہاں سے 1961ءمیں کھدائی کے دوران قبریں، مسجد کی عمارت، کتّے کی ہڈیاں اور قدیم دور کے سکّے برآمد ہوئے۔
اس غار کا دہانہ جنوب کی جانب ہے، جس کی وجہ سے اس میں دھوپ داخل نہیں ہوپاتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ’ رجیب‘ دراصل ’رقیم‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ کتابوں میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہدِ خلافت میں ایک قافلے اور صلاح الدّین ایوبی کے ایک کمانڈر کے یہاں آنے کا تذکرہ ملتا ہے، مگر پھر یہ غار ایک عرصے تک نظروں سے اوجھل رہا اور تقریباً ساٹھ سال قبل دوبارہ دنیا کے سامنے آیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے سفرنامے’ جہانِ دیدہ‘ میں عمان میں واقع اِس غار سے متعلق تفصیلی تحقیقی معلومات فراہم کی ہیں۔ جدید تحقیقات کے بعد اب عمان کے اِس غار ہی کو اصحابِ کہف کا اصل غار قرار دیا جاتا ہے۔ایک تو یہ کہ یہ غار قرآنِ پاک میں بیان کردہ علامات کے قریب تر ہے، پھر کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی اشیاءبھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ نیز حضرت ابنِ عبّاسؓ کی بیشتر روایات اِسی علاقے میں اصحابِ کہف کے غار سے متعلق ہیں۔
اسلامی اور عیسائی مورخین کا اِس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ ڈیسس (Decivs) یا ’دقیانوس‘ کے دور میں پیش آیا، جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے پیروکاروںپر بے حد مظالم ڈھاتا تھا، جبکہ اصحاب کہف تھیوڈوسیس (Theodosious) یا ’ تیدوسیس‘ کے عہد میں بیدار ہوئے، تاہم جدید تحقیق کے مطابق یہ واقعہ دقیانوس کے دورِ حکومت 251ءکی بجائے ٹروجان (Trajan) کے دور میں پیش آیا، جس نے 98ءسے 117ءتک حکومت کی تھی، البتہ بیداری کا واقعہ تھیوڈوسیس کے عہد ہی میں ہوا، جس کی حکومت 408ءسے 450ءتک قائم رہی۔ اصحاب کہف کا مختصر تذکرہ
قرآن حکیم میں ان حضرات کے واقعے پر کچھ یوں خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ مشرک بادشاہ کے دور حکومت میں کچھ نوجوان توحید کے قائل تھے، جب بادشاہ کی جانب سے ان پر دوباؤاور پریشانی کا سماں بڑھنے لگا تو یہ حضرات شہر سے نکل ایک غار میں چھپ گئے تھے۔ غار میں داخل ہونے کے بعد یہ لوگ غار کے اندر ایک کشادہ جگہ پہنچ کر لیٹ گئے۔ اس غار کی جائے وقوع اس طرح سے تھی کہ روزانہ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں چھپ جاتا تھا، لیکن اس کی دھوپ ان پر نہیں پڑتی تھی۔ جب سورج نکل کر چڑھتا تھا اور دھوپ پھیلتی تھی تو غار کی داہنی جانب سے اس طرح ہٹی ہوئی رہ جاتی تھی کہ اس کے دروازے تک نہ پہنچتی تھی اور جب سورج چھپنے لگتا تھا تو اس وقت جو تھوڑی بہت دھوپ ہوتی وہ غار کی بائیں جانب رہ جاتی تھی، یعنی اس وقت بھی دروازے پر دھوپ نہ پڑتی تھی۔
یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا، اپنی قوم سے جدا ہونے میں انہوں نے ہمت اور جرات سے کام لیا، پھر اللہ کے توکل پر غار میں داخل ہوگئے اور اللہ سے رحمت کی اُمید باندھ لی اور اللہ کی طرف سے آسانی حاصل ہونے کی آرزو کرتے ہوئے غار میں چلے گئے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اُس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اس ذات باری تعالیٰ نے دل بھی پکا کیا ہمت بھی دی، مخلوق سے کٹنے کا حوصلہ بھی دیا۔ انہوں نے اسبابِ ظاہرہ پر نظر نہ کی، اپنے مولائے حقیقی پر توکل کرکے غار میں داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غار بھی وہ نصیب فرمایا جس میں دھوپ کا گزر ہی نہ تھا۔ اگر دھوپ پڑتی تو اس سے تکلیف پہنچنے اور گرمی سے پریشان ہونے کا اندیشہ تھا۔
قدرت نے ان پر گہری نیند طاری فرما دی اور یوں اصحاب کہف تین سو نو سال اس غار میں سوتے رہے۔ خالق کائنات نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کے جسم کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھا اور یوں تین سو نوسال بعد یہ بیدار ہوئے۔ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا وہ اتنی طویل مدت سوتے رہے، لہٰذا جب ان کو بھوک محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو شہر بھیجا اور ہدایت کی کہ وہ احتیاط سے شہر جائے تاکہ ظالم بادشاہ کو علم نہ ہوسکے۔ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اتنے طویل مدت میں وہ بادشاہ مر کھپ گیا تھا اور اس کی جگہ ایک نیک بادشاہ مقیم تھا۔ یہ ساتھی جب شہر پہنچا تو کھانے خریدنے کے لیے پرانا سکہ پیش کیا، جو تین سو سال پہلے ملک میں چلا کرتا تھا، دکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھا تو وہ سمجھا شاید کوئی پرانا خزانہ اس نوجوان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ بات لمحوں میں پھیل گئی، یہاں تک کہ اُس نوجوان کو بادشاہ تک پہنچا دیا گیا۔ بادشاہ کو اس واقعے کا علم تھا کہ ایک زمانے میں چند نوجوان اپنا دین بچانے اور بادشاہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے کہیں روپوش ہوگئے تھے، کیوں کہ سرکاری ریکارڈ میں موجود ایک تختی پر یہ سب کچھ لکھا ہوا تھا۔
جب تحقیق کی گئی، تو سب کچھ سامنے آگیا۔ اب کیا بادشاہ اور کیا عوام، سب ہی اُن نوجوانوں کے گرویدہ ہوگئے اور ان کی خوب آؤبھگت کی گئی۔لوگ جوق در جوق اُن کی زیارت اور ملاقات کے لیے غار پہنچ گئے۔ وہ نوجوان ،بادشاہ اور عوام کی جانب سے درخواست کے باوجود شہر میں رہنے کی بجائے دوبارہ غار میں چلے گئے اور وہیں اُن کا انتقال ہوا۔ جب شہر تک خبر پہنچی، تو لوگ جمع ہوگئے اور اُن کی تدفین وغیرہ کے حوالے سے مختلف منصوبے بنانے لگے۔” (پھر وہ وقت بھی آیا) جب لوگ اُن کے بارے میں آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان پر ایک عمارت بنادو اُن کا ربّ ہی اُن کے معاملے کو بہتر جانتا ہے۔‘ (آخرکار) جن لوگوں کو اُن کے معاملات پر غلبہ حاصل تھا، انھوں نے کہا ’ہم تو اُن کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔‘ یوں غار کا دہانہ بند کرکے اُس کے اوپر ایک عبادت گاہ بنادی گئی۔ اِس واقعے میں کتّے کا بھی کئی بار ذکر آیا ہے، جو اُن نوجوانوں کے ساتھ تھا اور اُن کی حفاظت کے لیے غار کے دہانے پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ اپنی جان دے دی، مگر وہاں سے نہیں ہلا۔ اس کی ہڈیاں دورانِ کھدائی عمان کے غار کے دہانے سے ملی ہیں۔ عوام میں اس کتّے کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں، مگر صحیح احادیث میں اُن کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ، بزرگ فرماتے ہیں کہ جو شخص نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے اور اُن کی صحبت میں رہتا ہے، تو اسے بھی ان کی نیکی میں حصّہ ملتا ہے۔ کتّے نے اصحابِ کہف سے محبت کی اور اُن کے ساتھ لگ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس کا بھی اُن کے ساتھ ذکر کیا۔