فوزیہ خلیل
ہماری دنیا کا ایک حصہ قطب شمالی (Arctic) ہے اور ایک اس کا بالکل زیریں حصہ قطب جنوبی(Antarctic) ہے۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے علاوہ خطِ استوا (Equator) کی ایک خیالی لکیر ہے جو زمین کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
شمالی نصف گول میں ایشیا، یورپ، کینیڈا، شمالی امریکا اور افریقا کے بالائی حصے شامل ہیں۔ یہاں جب نومبر، دسمبر، جنوری، فروری جیسے مہینوں میں سردی پڑتی ہے تو جنوبی نصف گول کے ممالک
جیسے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی امریکا میں انہی دنوں میں گرمی پڑتی ہے۔
خطِ استوا (یعنی زمین کے وسطی علاقے) جس میں ملائیشیا، انڈونیشیا، کینیا، برازیل وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں ہر وقت ایک سا موسم رہتا ہے۔ دن اور رات کا دورانیہ یکساں یعنی بارہ گھنٹے کا ہوتا ہے یہاں سال بھر نمازوں کے اوقات بھی تبدیل نہیں ہوتے ،روزے کا بھی روزانہ اور ہر سال ایک ہی وقت رہتا ہے۔ رمضان المبارک خواہ کسی بھی ماہ میں آجائے، روزہ وہی 12 گھنٹے کا ہی ہوتا ہے۔ مگر جیسے ہی ہم شمال کی جانب آئیں گے۔ سردیوں میں مختصر دن اور راتیں طویل ہوتی جائیں گی ان میں ہمارا وطن پاکستان بھی ہے۔
مزید بالائی شمال میں چلے جائیں ان میں سوئیڈن، کینیڈا اور روس وغیرہ شامل ہیں۔ سوئیڈن میں موسم سرما میں سورج صبح ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ طلوع ہوتا ہے اور سہ پہر تین بجے غروب ہوجاتا ہے۔ ساڑھے چار بجے عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے دن مختصر ہونے کی وجہ سے روزہ بھی بہ مشکل 6 گھنٹے کا ہوتا ہے۔
البتہ یہاں پر موسم گرما میں سورج صبح 3 بجے طلوع ہوتا ہے اور رات 11 بجے کے لگ بھگ غروب ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد پہلے مغرب پھر عشا اور پھر ڈھائی بجے ہی سے فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
مزید قطب شمالی میں چلے جائیں تو دن بڑا ہوتا چلا جائے گا تقریباً 24 گھنٹوں کا دن۔ مزید آگے کی طرف بڑھیں تو وہاں مسلسل روشنی کئی ماہ تک رہتی ہے پھر رفتہ رفتہ تاریکی کا دورانیہ بڑھنے لگتا ہے اس طرح طویل ترین رات رہتی ہے۔ اس علاقے میں بہت کم لوگ رہتے ہیں چاروں طرف آرکٹک سمندر ہے جو مستقل برف کی صورت اختیار کیے رہتا ہے۔ ان کے ہاں موسم گرما میں مہینوں تک سورج غروب نہیں ہوتا اور سردیوں میں طلوع نہیں ہوتا۔
مسلسل 6 ماہ کے دن اور 6 ماہ کی رات قطب جنوبی میں بھی اسی طرح ہوتی ہے۔ یہ علاقہ انٹارکٹیکا کہلاتا ہے۔ اس جنوبی علاقے میں انتہا درجے کی سردی پڑتی ہے یہاں چند سائنس دانوں کے علاوہ کوئی نہیں رہتا۔
ڈنمارک، سوئیڈن، ناروے، فن لینڈ، آئس لینڈ وغیرہ اسکنڈے نیوین ممالک کہلاتے ہیں ان ممالک میں مسلمانوں کو زندگی کے معمولات میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں افطار کے محض 2 گھنٹے بعد ہی سحری کرنا پڑتی ہے جس کے سبب وہ نمازِ تراویح سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تمام اسکنڈی نیوین ممالک میں سورج تقریباً 22 گھنٹے چمکتا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں تو چند منٹ کے لیے بھی غروب نہیں ہوتا۔
سوئیڈن میں رہنے والوں کے لیے علماء کرام نے کہا ہے کہ وہ رمضان المبارک میں سحر و افطار میں جنوبی سوئیڈن کے اوقات کی پیروی کریں گے۔ جنوبی سوئیڈن میں روزے کا دورانیہ 15 گھنٹے کا ہوتا ہے۔
الاسکا بھی قطب شمالی میں واقع ہے۔ یہاں بھی دوسرے چند خطوں کی طرح سورج اُفق کے نیچے چلاجاتا ہے۔ 19 نومبر سے 28 جنوری تک بالکل اُفق کے نیچے ہی رہتا ہے اور سورج 65 دن تک بالکل نظر نہیں آتا اور 65 دن تک یہاں رات ہی کی حکمرانی ہوتی ہے۔
قطب شمالی کے قریب واقع شمالی ناروے کرۂ ارض کا آخری مک ہے۔ یہ یورپ کے شمال میں واقع ہے۔ یہاں ایک قصبہ رجوکان (Rjukan) ہے۔ یہاں کے لوگ 6 ماہ تک سورج کی روشنی کو ترستے تھے۔ یہاں ستمبر سے مارچ تک سورج نظر نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی اور سردی کی شدت میں بھی بہت اضافہ ہوجاتا تھا، یہاں پر لوگ سردیوں میں سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جاتے ۔ یہ قصبہ بہت نشیب میں اور پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان لوگوں کو سورج کو دیکھنے کے لیے کیبل کار میں سوار ہونا پڑتا۔
تقریبا سو سال قبل سائنس دانوں نے یہ حل نکالا تھا کہ قصبے کے اطراف میں واقع پہاڑوں پر بڑے بڑے دیوہیکل آئینے لگادیے جائیں اور ان کو اُس زاویے سے رکھا جائے کہ وہ سورج کی روشنی کو قصبے کی طرف منعکس کرسکیں مگر ایک صدی گزرجانے کے باوجود اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔
مگر اب سائنس کے اس جدید دور میں رجوکان کے لوگ ستمبر گزرنے کے بعد بھی دھوپ کا لطف اٹھارہے ہیں اور دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں 2 گھنٹے سے بھی کم وقت کے لیے ان کو سورج کی روشنی مل رہی ہے۔
ماہرین نے قصبے کی سطح سے 400 میٹر بلند پہاڑوں پر دیوہیکل آئینے نصب کردیے ہیں۔ ان آئینوں کو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے پہاڑوں پر لے جایا گیا اور سائن بورڈ کی طرح وہاں نصب کردیا گیا اس منصوبے پر 6 لاکھ یورو کی لاگت آئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بے شمار ایسی چیزوں کو ممکن بنادیا ہے جس کا ماضی میں سوچنا بھی ناممکن تھا۔
الغرض اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں سورج کی روشنی بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ کرۂ ارض کے انتہائی شمال میں صرف گرمیوں کے موسم میں آدھی رات کے وقت سورج کا نظر آتے رہنا اور سردیوں میں کئی ماہ تک سورج کا نظر نہ آنا عجائباتِ قدرت کا ایک مظہر ہے۔ اللہ اکبر!