میں نے کال کر کے ابو کو کہا کہ لڑائی ہو گئی ہے آکر لے جائیں اس وقت طلاق کا نہیں بتایا تھا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ ابو کے لیے یہ بہٹ بڑا صدمہ ہوگا۔۔۔ ابو گھر میں آتے ہی میرے میاں سے کہنے لگے کہ اس کی طرف سے مجھے معافی مانگنے دو بیٹا مجھے پتا ہے میری بیٹی کی غلطی ہے کیوں کہ ایسی لڑائیاں میں اکثر کرتی رہتی تھی۔۔۔۔۔
فیض عالم
میری ایک کلائنٹ کی آپ بیتی ہے۔ ان کی اجازت سے اس لیے لکھی ہے کہ شاید کوئی لڑکی سنبھل جائے۔ والدین کی اکلوتی ذرا نازوں سے پلی، ابو شروع سے ہی کہتے تھے کہ ایسے لاڈ نہ کیا کرو اس سے کہ جو کل کو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنیں لیکن امی اپنی ناک کے نیچے ساری ضدیں پوری کیا کرتیں اور ابو کو خبر نہ ہوتی۔۔۔ جس کام کو ابو منع کرتے امی خاموشی سے اجازت دے دیتیں اور میں کر لیتی۔
انٹر کے بعد شادی ہوگئی، بیس سال کی عمر میں۔ اچھا پڑھا لکھا رشتہ تھا کھاتا کماتا۔ ابو نے چھان بین کر کے بیاہ دیا۔ امی راضی نہیں تھیں کہ ابھی اور اچھے رشتے آئیں گے ذرا انتظار کریں خیر ابو نے خاندان کے بڑوں کو شامل کر کے امی کو منوا لیا اور پھر میری بھی رضا تھی کہ چلو لڑکا پیسے والا بھی ہے اور ہینڈسم بھی ہے۔
میں چونکہ بہت نازوں میں پلی تھی تو برداشت بہت کم تھی۔ تربیت کسی قسم کی کچھ تھی نہیں۔ میں نے اپنے شوہر کی باتیں امی کو بتانی شروع کر دیں۔ ذرا ذرا سی باتیں شکایت کی صورت میں بتانے لگی امی چونکہ خود یہ کام کرتی رہی تھیں اس لیے مزے لے لے کر سنتیں اور پھر الٹے سیدھے مشورے دیتیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوگیا لیکن میرا یہی حال رہا۔ ایک دو بار میاں نے سختی کرنے کی کوشش کی تو میں بیماری کا ڈھونگ رچا کر میکے چلی گئی۔ ابو نے بہت سمجھایا سختی کی تو واپس آگئی لیکن عادت سے مجبور تھی سو وہ ہی سب کیا کہ غلطیاں کر کے سینہ چوڑا کر کے بدتمیزی کرنا اور اپنی غلطی نہ ماننا۔۔۔۔ میاں نے بھی پیار سے سمجھا کر ہر طرح کوشش کی کہ میں سدھر جاؤں لیکن اس وقت مجھے یہ شخص دنیا کا سب سے برا آدمی لگتا تھا۔
ابو نے ڈانٹ کر پیار سے ، ہاتھ جوڑ کر ہر طرح سمجھایا کہ بیٹا اپنا گھر آباد رکھو ایسا نہ کرو۔۔۔۔ لیکن میری والدہ کی طرف سے ملنے والی ٹیوشن نے آخر کار وہ سیاہ دن دیکھا ہی دیا۔۔۔ کچھ دن سے شوہر سے ان بن چل رہی تھی۔ امی سے روز سبق لے رہی تھی میں بس صبح ہی صبح ذرا سی بات کا میں نے پتنگڑ بنایا جیسا کہ میں اکثر کیا کرتی تھی اور دس سال کی بھڑاس میرے میاں کے منہ سے طلاق کے تین لفظوں کی صورت میں نکل گئی۔۔۔
میں نے کال کر کے ابو کو کہا کہ لڑائی ہو گئی ہے آکر لے جائیں اس وقت طلاق کا نہیں بتایا تھا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ ابو کے لیے یہ بہٹ بڑا صدمہ ہوگا۔۔۔ ابو گھر میں آتے ہی میرے میاں سے کہنے لگے کہ اس کی طرف سے مجھے معافی مانگنے دو بیٹا مجھے پتا ہے میری بیٹی کی غلطی ہے کیوں کہ ایسی لڑائیاں میں اکثر کرتی رہتی تھی۔۔۔۔۔ میرے میاں نے بہت تحمل سے ابو کو طلاق کا بتا دیا۔
ابو نے کہا کہ مجھے رکشہ کروا دو میں اسے گھر لے جاؤں میرے شوہر نے کہا کہ نہیں آپ گاڑی میں جائیں۔ اصرار کر کے ابو سے معافی مانگ کر گاڑی ڈرائیور کے ساتھ ہمیں چھوڑنے کے لیے بھیج دی۔۔۔۔۔ ابو گاڑی میں بالکل خاموش رہے گھر میں آتے ہی امی سے کہا لو تمھاری بیٹی کو صلہ مل گیا ہے اس کے کیے کا، اب تمھیں بھی یہ انعام ملنا چاہیے اور امی کو اسی وقت طلاق دے دی۔۔۔۔
مجھے نہیں پتا کہ ابو نے غلط کیا یا صحیح لیکن ابو کی حالت ایسی تھی کہ مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ تم دونوں ماں بیٹی کو طلاق مبارک، اب ساتھ بیٹھ کر عدت کرنا( ابو نے اس وقت باقاعدہ تالیاں بجا کر کہا۔۔۔ شاید وہ اس وقت شدید ذہنی دباو میں تھے) ابو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔۔۔۔ پھر چار دن ہوگئے ابو واپس نہیں آئے۔۔۔ ہم ڈھونڈتے رہے کہاں کی عدت اور کیسی عدت بس ابو کو ہر جگہ ڈھونڈا۔۔۔۔ کہیں نہیں ملے۔۔۔۔۔۔ خاندان والوں کی باتیں الگ اور ابو کی گمشدگی الگ۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
پانچویں دن جمعے کی نماز کے وقت میرے موبائل پر تایا زااد کی کال آئی کہ چچا مل گئے ہیں میں گھر لا رہا ہوں ان کو۔۔۔۔ میری کچھ سانس میں سانس آئی۔ ابو آئے تو۔۔۔۔۔ مگر ایدھی کی ایمبولینس میں کفن میں لپٹے ہوئے۔۔۔ پانچ دن ابو کہاں رہے نہیں معلوم بس ایدھی والوں کا کہنا تھا کہ یہ صاحب فٹھ پاتھ پر پڑے ملے تھے۔۔۔ نہ کوئی زخم نہ چوٹ کا نشان ابو کا دل بند ہونے سے ان کی موت ہوئی تھی۔۔۔۔
اور آپ کو پتا ہے کہ ان کا دل میں نے اور امی نے مل کر بند کیا ہے۔۔۔
اس چھتیس سالہ لڑکی کا یہ جملہ میرے دل پر گھونسے کی طرح لگا۔۔۔۔۔
پھر کہتی ہے کہ ابو نے ہمارے لیے گھر چھوڑا جو کہ وہ پہلے ہی امی کے نام کر چکے تھے۔۔۔ اوپر والا پورشن ہم نے کرائے پر اٹھا دیا، ابو کی پینشن بھی آتی ہے، کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، سفید پوشی میں اچھے سے گزارا ہو رہا ہے۔ ددھیال والے ہم سے ملتے نہیں ہیں کہتے کہ تم دونوں ہمارے بھائی کی موت کا سبب ہو۔۔۔۔ میرے تین میں سے دو بڑے بچے اپنی مرضی سے اپنے باپ کے پاس جا چکے ہیں۔ باقاعدہ لڑ کر گئے ہیں۔ ملنے بھی نہیں آتے۔ چھوٹے والا ابھی تین سال کا ہے تو وہ میرے پاس ہے مگر مجھے پتا ہے کہ وہ بھی چلا جائے گا۔۔۔
امی ابھی تک ویسی ہی ہیں۔ ابو کو بہت کوستی ہیں۔۔۔ اب میری اور امی کے گھمسان کے معرکے ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں کہتی ہوں کے اگر ابو نے آپ کو پہلے ہی طلاق دے دی ہوتی تو آج مجھے طلاق نہ ہوتی۔
کھانے پینے کو سب ملتا ہے، رہنے کو سر پر چھت ہے مگر اب سکون نہیں ہے۔۔۔ ابو کا چہرہ دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ اپنا شوہر بھی یاد آتا ہے۔ وہ برا نہیں تھا میری تربیت بری تھی۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہوں گی کہ میں ساری غلطی امی کی کیوں بتا رہی ہوں۔ میں تو بالغ تھی سب دیکھ اور سمجھ رہی تھی آخر کیوں امی کی باتوں میں آگئی۔۔۔ آپ بتائیں جس لڑکی کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو۔۔۔ میں نے ساری زندگی امی کو نانی سے یہی باتیں کرتے دیکھا تھا۔ بس نانی یہ کہتی تھیں دیکھو کچھ بھی ہو طلاق مت لینا تو امی طلاق کی نوبت نہیں آنے دیتی تھیں کچھ ابو بھی چپ ہو جاتے تھے۔ ہر کسی کے صبر کا پیمانہ ایک نہیں ہوتا۔ میرے شوہر نیک فطرت کے تھے لیکن بس اس دن ان کا پیمانہ چھلک گیا۔ میں نے ان کو اس حد تک پریشان کیا۔۔۔ کہ آخر نوبت یہاں تک آگئی۔۔۔
امی یہی کہتی تھیں کہ تمھاری شادی ہی غلط شخص سے ہوئی ہے۔۔۔ بس یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی۔ ان کی اچھائی بھی برائی ہی لگتی تھی۔ میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ اب مجھے نیند نہیں آتی میں چوبیس میں سے بمشکل دو گھنٹے سو پاتی ہوں۔۔۔
آپ بتائیں کیا ابو کی جان لے کر اور اپنا گھر تباہ کر کے مجھے نیند آنی چاہیے؟ ٭٭٭
اپنی کلائنٹ کی اس آب بیتی کو آپ سب کے سامنے رکھنے کا بس ایک مقصد ہے کہ تربیت پر کام کریں۔۔۔۔۔ اور بہت ذیادہ کریں۔ عورت بطور ماں گیم چینجر بن سکتی ہے۔
کون غلط ہے کون صحیح اس بحث میں جانے کی بجائے تربیت اولاد اور خود اپنا احتساب کریں۔ اولاد کے سامنے ہر وقت رونے مت روئیں۔ مظلوم بننے کی سوچ سے باہر آجائیں اور شادی شدہ بیٹیوں پر رحم کریں۔ ان کے کچن میں بیڈروم میں ان کے ذہن میں گھسنے کی کوشش نہ کریں۔۔۔۔۔ بیٹیوں کو بھڑکانے کی پالیسی ختم کر دیں۔
ماں کی بہت زیادہ مداخلت بیٹیوں کے گھر اجاڑنے کا ایک اہم سبب ہے۔ آپ نہایت سلجھی ہوئی باشعور خواتین ہیں اسی لیے مجھے امید ہے کہ کسی بھی قسم کے فیمنزم کا چشمہ لگائے بغیر اس تحریر کو پڑھ کر سبق حاصل کریں گی۔