لڑکیوں کا سگھڑاپا صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ سجنا سنورنا جانتی ہوں ، بلکہ لڑکیوں کا سگھڑاپا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف ستھرا اور سنوار کر رکھیں

عمارہ فہیم

پہلی کلاس کے بعد ایک طرف بچیاں اور ان کی مائیں مطمئن ہوکر واپس ہوئیں تو دوسری طرف مومنہ اور اریبہ بھی خوشی سے نہال ہورہی تھیں کہ ان کی رنگوں کی دنیا کی پہلی کلاس بہت اچھی رہی ، اب دونوں بیٹھی ہوئی اگلی کلاس کے لیے منصوبہ بندی کررہی تھیں ۔

کیونکہ جب تک کام منصوبہ بندی ، پوری ترتیب، اور دائمی توجہ کے ساتھ نہ کیا جائے تب تک وہ کامیاب اور ترقی پذیر نہیں ہوتا ۔

”لڑکیو! کیا اب یہیں بیٹھی رہو گی یا کچھ کام بھی کرو گی ۔“

اریبہ کی امی نے مومنہ اور اریبہ کو چیزیں پھلائے کسی سنجیدہ گفتگو میں محو دیکھ کر آواز لگائی۔

”جی امی ! بس ہم یہ سب سمیٹ ہی رہے تھے۔“

اریبہ نے جھٹ خود کو بچانے کی کوشش کی ۔

”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں ، کیسے باتوں سے چیزیں سمٹ رہی ہیں ۔“

ماں نے ارد گرد کی چیزوں کی طرف اشارہ کیا ۔

”تائی جان! اریبہ کا مطلب تھا ، ہم بس سمیٹنے ہی والے تھے ، ہیں نا اریبہ !“

مومنہ نے اریبہ کی شامت آتے دیکھی تو جھٹ پٹ اس کے دفاع کے لئے کھڑی ہوگئی ، بھئی اپنی شامت آنے میں کون سی دیر لگتی ہے ، اس لیے کہ کبھی کبھی دوسرے فریق کو بچا لینے میں عافیت ہوتی ہے ۔

”بی بی ! سمیٹنے والی تھیں تو ذرا جلدی سے سمیٹ کر دکھاؤ تو مانو میں ۔“

تائی جان بھی تو ماں ہی تھیں ، دونوں بچیوں میں ان کی نظر میں کوئی فرق نہیں تھا، یہ نہیں اپنی کو لاڈ اور دوسری سے ڈانٹ !

آج کل تو یہی کیا جاتا ہے ، اپنی اولاد میں سو کیڑے ہوں تب بھی وہ پیاری اور دوسرے کی اولاد کی چھینک بھی فسانہ لگنے لگتی ہے ، اسی طرح اپنی اولاد کا مستقبل عزیز ہوتا ہے جبکہ دوسرے کی اولاد کی بے راہ روی اور تباہی و ناکامی کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔

لیکن نگینہ اور سکینہ بیگم نے لوگوں کے اس رواج کو اپنے گھر اور اپنی زندگیوں میں آنے کی قطعا اجازت نہ دی تھی ، ان کے لئے دونوں بیٹیاں ایک جیسی تھیں، دونوں کی تربیت اور مستقبل کی ماؤں کو فکر رہتی تھی، اور سب ماؤں کو ایسا ہی ہونا چاہئے، ان کے لئے ہر بچے کی تربیت اور مستقبل اہم ہونا چاہئے، کیونکہ آج کے بچے کل کے روشن مستقبل کے معمار ہوں گے۔

خاندان ہو یا معاشرہ وہاں توڑ اسی وقت ہوتا ہے ،جب نفسا نفسی کا عالم شروع ہوجائے، جب تک ہم دوسرے کی خوشی میں خوش اور تکلیف کو تکلیف محسوس نہیں کریں گے اس وقت ہم ترقی کی راہوں پر سفر نہیں کرسکتے۔

”جی امی ! جی تائی جان! “

مومنہ اور اریبہ فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے کھڑی ہوئیں اور جلدی جلدی سب چیزیں سمیٹنے لگیں ۔

والدین وہ نعمت ہیں، جن کا کوئی نعم البدل نہیں ، ان کی کہی باتیں اور نصیحتیں ہر بچے کے لئے( وہ لڑکا ہو یا لڑکی) بہت اہم ہیں ، مگر ہم یہ سمجھ جائیں تب بات ہے ۔

 اریبہ و مومنہ نے جلدی جلدی چادر تہہ کی ، پلنگ کو کونے میں کھڑا کیا اور کام کی ساری چیزیں جو طالبات کو دکھانے اور سمجھانے کے لیے رکھی گئی تھیں ، سمیٹ کر مومنہ کے کمرے میں بنے باکس میں رکھ دیں، جس پر واضح الفاظ میں مومنہ نے رنگوں کی دنیا لکھ کر چسپاں کر رکھا تھا اور پھر دونوں اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹانے لگیں ۔

لڑکیوں کا سگھڑاپا صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ سجنا سنورنا جانتی ہیں ، بلکہ لڑکیوں کا سگھڑاپا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ارد گرد کے ماحول کو بھی صاف ستھرا اور سنوار کر رکھیں ۔

اگلی کلاس سے پہلے دونوں نے آپس میں مشورہ کرکے کچھ نوٹس بنا لئے تھے ، اگلے دن پھر وقت سے پہلے ہی صحن کلاس کا منظر پیش کرنے لگا اور بچیاں ذوق و شوق سے سلام کرتی ہوئی آرہی تھیں اور اپنی نشستوں پر براجمان ہو رہی تھیں ۔

کلاس سے پہلے پچھلے دن پڑھی جانے والی چیزوں کے بارے میں اریبہ نے باری باری سب سے سوال کئے تو سب بچیوں نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے اعتبار سے سوالات کے جواب دیئے ، تو دونوں نے بچیوں کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں بہت ساری داد دی ۔

یہ داد بہت کام کی چیز ہوتی ہے، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک کو اس داد کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے ، لیکن یہی داد بہت خطرناک بھی ہوتی ہے ۔

”خطرناک!“

”ہاں خطرناک !“

”مگر وہ کیسے؟“

”وہ اس طرح کہ اگر کوئی بچہ غلطی کررہا ہے اور ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں (کیونکہ خاموشی بھی تو نیم رضامندی ہوتی ہے نا !) یا وقتی طور پر غصہ کرکے پھر چھوڑ دیتے ہیں یا پھر یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ ابھی بچہ یا بچی ہے وقت آنے پر سمجھ جائیں گے تو بس اب خطرہ شروع ، کیونکہ اسے صحیح و غلط کی تمیز نہ سکھانا یہ ایک طرح سے اس کے کارنامے کو سراہنا اور داد دینا ہوا  ، اس وقت یہ سانپ کے زہر سے بھی ذیادہ خطرناک ثابت ہوگا ، کیونکہ بچہ یہ محسوس کرے گا کہ میں نے جو کیا وہ اچھا کام ہے اس کو کرتے رہنا چاہئے اس طرح اس کی عادت پختہ ہو جائے گی اور برائی کے دلدل میں گرتا چلا جائے گا ، اس لئے داد دیتے ہوئے بھی احتیاط کا پہلو نہیں چھوڑنا چاہئے ۔“

اریبہ اور مومنہ جس وقت اپنی اگلی کلاس کے لئے تیاری و مشورے کررہی تھیں، اس وقت ان کی باتیں دادا ابو نے سنیں تو پہلے تو خوش ہوئے اور ان دونوں کو شاباشی دی پھر شاباشی ملنے پر جو ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑی تھی اسے دیکھ کر دادا ابو نے کہا:” کہ آپ دونوں اپنی طالبات کو بھی اچھے کام پر شاباشی دیا کرو اس طرح ان میں اچھا اچھا کام کرنے کی لگن بڑھے گی ۔“

اس کے ساتھ ہی دادا ابو نے حوصلہ افزائی کہاں کی جائے ، داد کن موقعوں پر دی جائے اس حوالے سے مزید بات کی تو دونوں حیران ہوکر توجہ سے سننے لگیں ، اور یہی ساری باتیں بچیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دونوں کے ہی ذہنوں میں گردش کررہی تھیں  تو مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں ۔

دہرائی کے بعد اب نئی کلاس کا مرحلہ تھا تو مومنہ نے گلا کھنکھارا اور اریبہ سمیت سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے ۔

” جی تو طالبات! کل ہم اپنے سامان سے ملاقات کرکے آپس میں ایک دوسرے کو تعارف بھی کروایا تاکہ اجنبیت باقی نہ رہے ، آج سے ہم رنگوں سے بات چیت کریں گے اور جانیں گے کہ آخر کون سے رنگ میں کیا خصوصیات پوشیدہ ہیں اور ہم کس رنگ کو کس جگہ استعمال کرسکتے ہیں ؟“

” ٹیچر ! کیا رنگ بھی بولتے ہیں؟ “

مومنہ اپنی بات کرتے ہوئے درمیان میں رکی تو ایک بچی نے سوال کیا ۔

” جی ! جس طرح کل ہم نے جانا کہ کلر ٹرے ہم سے کیا کہتی ہے ، رنگ ہمیں کیا سکھاتے ہیں ، برش ہمیں کیا بتاتا ہے ، اسی طرح ہر رنگ بولتا ہے ، بس اس کی زبان کو سننے والے کان چاہئیں جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتے ، یہ کان صرف اور صرف ایک آرٹسٹ کے پاس ہوتے ہیں جو اپنے فن پارے ، اپنی کارگری ،اپنے ہنر اور اپنے سامان تک کی زبان کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

مومنہ کی بات سن کر سب خود کو مایا ناز آرٹسٹ محسوس کرنے لگیں ۔

”جی تو میں یہ کہہ رہی تھی، کہ آج سے ہم رنگوں سے گفتگو کا سلسلہ شروع کریں گے ، تو چلیں ! ہم آج سفید رنگ سے ملاقات کرتے ہیں ۔“

مومنہ نے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو اریبہ جو دبے قدموں پروجیکٹ کے منصوبے کے مطابق اندر چلی گئی تھی اور وہاں سے اپنا حلیہ بدل کر باہر آرہی تھی ۔

اور اپنے گرد سفید چادر لپیٹ کر اور سفید میں ایک پلے کارڈ پکڑی ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا ”میں ہوں سفید رنگ“

”جی ! آج ہماری کلاس میں مہمان ہیں مس سفید ! ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔“

”شکریہ شکریہ ! “

اریبہ نے آگے کو جھکتے ہوئے ایک ہاتھ سر کی طرف لے جا کر آداب والے انداز میں شکریہ ادا کیا ۔

”جی تو مس سفید آپ کو سفید کیوں کہتے ہیں؟ “

”کیونکہ میں سفید ہوتی ہوں ، بالکل صاف ستھری سی ، نکھری نکھری بے داغ ، اگر مجھے ذرا سی کسی اور رنگ کی آمیزش ہوجائے تو میں دھندلا جاتی ہوں ۔“

اریبہ مس سفید بنتے ہوئے بہت نزاکت کے ساتھ اپنا تعارف کروایا ۔

”تو ایسی کون کون سی چیزیں ہیں جو آپ کے رنگ سے مشابہت رکھتی ہیں ۔؟“

”آسمان پر تیرتے بادل، جھیل کی سطح پر تیرتے راج ہنس، چاند کی چاندنی، پہاڑوں پر جمی برف وغیرہ ۔“

”اچھا یہ بتائیں! کیا سفید رنگ کے انسان کی ذات پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں .؟“

”جی کیوں نہیں ! میں ہوں ہی اتنی پیاری ! میرے اثرات تو لازمی مرتب ہوتے ہیں ۔

اگر کوئی سفید رنگ پہنے تو اسے صفائی پسند کہا جاتا ہے کیونکہ اجلا اجلا چمکتا دمکتا جو نظر آتا ہے ۔

اور سفید لباس کو پسند کرنے والے مخلص، نرم گو اور پرفیکشن کے قائل ہوتے ہیں ۔

میری سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ سفید رنگ کو امن کی علامت کہا جاتا ہے اور ہمارے ملک پاکستان کے جھنڈے میں بھی ایک حصہ سفید ہے اور درمیان میں بھی سفید چاند ستارہ بنا ہوتا ہے جو اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھاتا ہے ۔“

مس سفید اک نرالی شان سے اپنا تعارف کروارہی تھیں ، ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کو بھی دیکھتی جارہی تھیں کہیں سے کچھ داغ دھبہ ان کے لگ نہ جائے ۔

دوسری طرف بچیاں بہت غور سے مس سفید اور مومنہ کی باتیں سن رہی تھیں ۔

”شکریہ مس سفید ! آپ نے ہمیں اپنا بہت اچھا تعارف کروایا ۔“

مومنہ مس سفید کو الوادع کرکے طالبات کی طرف متوجہ ہوئی ۔

”طالبات! سفید رنگ خوبصورتی کی علامت کہلاتا ہے، سفید رنگ ایسا رنگ ہے جو کسی رنگ سے مل کر نہیں بنتا ، باقی سارے رنگ کسی نہ کسی رنگ سے ضرور مل کر بنتے ہیں ، اس کے علاؤہ سفید رنگ تیز رنگ کو ہلکا کرنے کے لئے بھی ملایا جاتا ہے ۔

سفید رنگ جب اتنا خاص ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم سفید رنگ کی طرح اجلے ، چمکدار بنیں ، خصوصا لڑکیوں کو سفید رنگ کی طرح خود پر ایک دھبہ لگنے نہیں دینا چاہئے ، ہمیشہ اپنی حفاظت کرنی چاہئے ، کیونکہ سفید رنگ پر پڑنے والا کسی بھی رنگ کا دھبہ سفید رنگ کی شناخت اور اس کی اصل پہچان کو دھندلا کردیتا ہے ۔

مومنہ نے آج کی کلاس میں سفید رنگ کی خصوصیات بتاتے ہوئے ، لڑکیوں کو کس طرح زندگی گزارنی چاہئے ہلکے پھلکے انداز میں طالبات کے ذہنوں میں یہ ساری باتیں بھی منتقل کردیں اور سب خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہوئے اور مومنہ اریبہ بھی اپنے کاموں میں مشغول ہوگئیں ۔

قارئین !آپ کو رنگوں کا کھیل کی دونوں سیریز کیسی لگیں ، ہمیں اس سے آگاہ ضرور کیجئے گا ، آپ کی رائے اور تبصرہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔

اپنی رائے وٹس ایپ کیجیے :03000630587