سود ی نظام درحقیقت  اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت ہے لیکن   اللہ و رسوال کے نام لیوا حکمران بار بار اسی نظام کو برقرار رکھنے پر مصر ہیں ۔ سودی نظام سے پیچھا چھڑانا بھی لازمی ہے اور بدعنوانی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ جس نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے

 ارم آصف کراچی

لفظ معاش عربی زبان سے اردو میں وارد ہوا ہے جس کے معنی ہیں روزی کمانا، کھانے پینے اور زندگی کا ضروری سامان۔ اس کی بنیاد لفظ عاش ہے، جس کا مطلب ہے زندہ رہنا یا زندگی گزارنا۔۔۔ گویا معاش کے معنی ہوئے وہ کام یا فعل جو زندگی کو گزارنے کے لیے یا روزی کمانے کے لیے کیا جائے۔ حضرت انسان جب سے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں معاش کے لیے انہوں نے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کیا ہے۔ مثلاً کھیتی باڑی، مویشی پالنا، اگر دریا یا سمندر کے کنارے آباد ہیں تو ماہی گیری۔

جیسے جیسے انسان آبادی میں اضافہ ہوتا گیا ہے، انسان بھی نت نئے وسائل کے ساتھ اپنے ذریعہ معاش کو ترقی دیتا گیا۔ آج کے جدید دور کی اس دنیا میں ہزاروں قسم کے شعبہ جات نظر آتے ہیں۔ جہاں انسان اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھارہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ ہر آنے والا بچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے بھوک اور افلاس بڑھتا جارہا ہے۔ بیماریوں اور پریشانیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی ہے۔ آج 2022 کے اختتام پر دنیا کی کل آبادی تقریباً آٹھ ارب (79,75,105,156 )ہوچکی ہے اور اعشاریہ نو فیصد سالانہ کی رفتار سے اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی براعظم ایشیا اور افریقا میں پائی جاتی ہے اور ان ہی خطوں میں لوگوں کو معاشی مسائل کا زیادہ سامناکرنا پڑتا ہے حالانکہ وسائل کے اعتبار سے یہ خطے بھی دوسرے ممالک سے کم نہیں ہیں۔ لیکن بار بار کی مسلط کردہ جنگیں، خطے کے ممالک کی آپس میں خانہ جنگیاں، تعلیم کی کمی، معاشی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، قدرتی آفات (جیسے کہ سیلاب، زلزلہ وغیرہ) اور غیر مخلص حکمران۔ ان تمام وجوہ کی بنا پر آج ایشیا اور افریقا کے اکثر ممالک کے باشندے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ نہ تو انہیں صحت اور تعلیم کی مکمل سہولتیں حاصل ہیں نہ ہی ان کے پاس پینے کا صاف پانی اور کافی مقدار میں کھانا ہے۔ ہزاروں لوگ اچھی روزی کمانے کے لیے یورپ، امریکا اور کینیڈا چلے جاتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوشش معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی مستقل حل نہیں ہے ۔۔۔ جب تک ان ممالک میں کرپشن اور بری حکمرانی کا خاتمہ نہیں ہوگا یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔

ہمارے اپنے ملک پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ آزادی کے وقت ہمارا وطن کمزور حالت میں تھا بھارت کی طرف سے پورے اثاثے بھی نہیں دیے گئے لیکن پھر بھی مخلص قیادت اور عوام نے ایثار و قربانی اور دن رات کی محنت کے ذریعے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن پھر ہمارا سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہوگیا اور ہمیں حکمران اور بیوروکریٹ بھی ایسے ملے جنہوں نے ملکی خزانے کو شیر مادر سمجھ لیا ۔ وہ وطن جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہاں بجائے قرآن اور سنت کے قوانین اور دین کی بالادستی کے سود کو فروغ دیا گیا۔ ملکی ترقی کے نام پر حکمرانوں نے  بڑے بڑے قرضے لیے  ایک طرف سود کی وجہ سے  قرضوں کی رقم  بڑھتی چلی گئی اور دوسری لوٹ مار کا بازار گرم رہا یہی وجہ ہے آج ہمارے وطن کا بچہ بچہ ان قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ ادارے جو نفع بخش تھے، ان پر اقربا پروری کے لیے ایسا بوجھ ڈالا گیا جس سے وہ بیٹھ گئے ۔  پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) جس نے ایمیریٹس ایئرلائن اور سعودی ایئر لائن جیسی فضائی کمپنیوں کو سہارا دے کر کھڑا کیا وہ اپنے ہی لوگوں کی ہوس کا شکار ہوگئی۔ پاکستان اسٹیل مل جیسا عظیم الشان ادارہ من  پسند نااہل لوگوں کی بھرتیوں کے ذریعہ برباد ہوا۔ پاکستان ریلوے کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

حفیظ جالندھری

پاکستان کا معاشی بحران آج اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ خدانخواستہ سری لنکا کی طرح ہم بھی معاشی دیوالیہ ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔ غیر ملکی امداد اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر ملکی معیشت کو استوار کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ یہی نکلے گا۔

معیشت کی بہتری کیسے ممکن ہے؟؟

پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے مخلص اور اہل افراد کلیدی عہدوں پر فائز ہوں جن کے ذاتی مفادات ملک کے مفاد سے بڑھ کر نہ ہوں پھر سود کے نظام سے پیچھا چھڑایا جائے۔ ہم نام لیوا تو ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیکن جب اس نے سود کے نظام کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا تو ہمارے نااہل حکمران بار بار اسی نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ سودی نظام سے پیچھا چھڑانے کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ اس بدعنوانی کی لعنت نے ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لہٰذا یہاں زراعت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

اگرہمارے وطن کو  ان خون چوسنے والی جونکوں سے  نجات مل جائے تو پیداوار میں بہت حد تک اضافہ ممکن ہے۔ کسانوں کو اچھے اور معیاری بیج فراہم کیے جائیں وقت پر کھاد اور کیڑے مار دوائیں مناسب نرخوں پر مہیا کیے جائیں جہاں بارش کم ہوتی ہے وہاں آب پاشی کے نظام کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنایا جائے تو ان شاءاللہ تعالیٰ ہماری زرخیز زمینیں پھر سے سونا اگلنے لگیں گی اور ہمیں ضروری اجناس کے لیے دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑیں گے۔

زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں جو پاکستان کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں بننا چاہئیں وہ درآمد کی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے کثیر زرِ مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرکے اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کی بیڈ شیٹس، تولیے مردانہ و زنانہ لباس، بچوں کے کپڑے بیرون ملک بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان شعبہ جات میں صنعتکاروں سےتعاون کرے اور انہیں نئی فیکٹریاں لگانے کے لیے قرضے فراہم کرے ۔۔۔ بڑے صنعتکاروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے تاجروں کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔

کپڑے کی صنعت کے علاوہ پاکستان کا چاول بھی عالمی مارکیٹ میں پسند کیا جاتا ہے اور چاول کی برآمد کے ذریعے پاکستان اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو ممکن بناسکتا ہے۔ پاکستان سے خام حالت میں چمڑا جیکٹوں، پرس اور ہینڈ بیگ کی شکل میں عالمی منڈیوں میں ہزاروں ڈالر میں بکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک پاکستان کو بے شمار نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ اگر نیک نیتی سے ان وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک کے بہت سے معاشی مسائل حل ہوجائیں۔ بجلی کا بحران، معاشی تنزلی کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ فیصل آباد میں قائم بہت سی کپڑے کی ملیں بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے خسارے کا شکار ہوگئیں۔ اسی طرح کسی بھی صنعتی یونٹ میں بجلی کی توانائی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج 75 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے ملک میں دو بڑے ڈیم کے سوا کوئی قابل ذکر ڈیم تعمیر نہیں کرسکے۔ الحمد للہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے دریاؤں سے نوازا ہے اگر بہتر منصوبہ بندی کے تحت کام کیا جاتا تو آج چھوٹے چھوٹے کئی ڈیموں کی مدد سے بجلی حاصل کی جارہی ہوتی۔ اسی طرح سستی بجلی حاصل کرنے کا ایک اور ذریعہ شمسی توانائی ہے ۔۔۔ کاش کوئی یہ سوچتاتو پاکستان میں جگہ جگہ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کی جارہی ہوتی جو سستی بھی ہے اور ماحول دوست بھی۔

لیکن اب بھی وقت ہے توانائی کے بحران کو دور کرنے کےلیے پانی سے، سورج کی روشنی سے (سولر انرجی) استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک کے عوام اور حکمران دونوں اللہ تعالیٰ سے عہد کریں کہ رب کریم کے عطا کردہ اس انعام ’’پاکستان‘‘ کی قدر کریں گے اور اس وطن کی ترقی اور خوشحالی کی خاطر اپنے عیش و آرام کی کسی حد تک قربانی دیں گے۔ جب تک ہم اپنے وطن سے محبت کا ثبوت نہیں دیں گے ہمارا ملک معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہیں ہوسکے گا۔