ہمارے سیاست دان جلسوں وغیرہ میں جو دعوے  کرتے ہیں ان سے لگتا ہے کہ معاشی بحران کو کم کرنا بہت آسان ہے حالاں کہ حقیقت میں یہ بہت ہی مشکل ہے

طیبہ الیاس

حالیہ دور اور پچھلی دہاٸیوں سے پاکستان میں ”معاشی مساٸل“ چیلینج بن کر منظر عام پر آ رہے ہیں۔ مہنگاٸی کی شرح اس قدر بڑھ گٸی ہے کہ  سفید پوش طبقہ فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پاکستان میں جہاں سیاسی مساٸل، اقتصادی مساٸل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، وہاں معاشی مساٸل سے نمٹنے کے لیے بھی حل تجویز کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ دور میں پاکستان کو سنگین معاشی بحران کا سامنا شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی کرنسی جو کبھی ایشا کی مضبوط ترین کرنسی ہوا کرتی تھی، حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کا غیر ممکنہ اضافہ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستان کی کرنسی کو مزید کمزور کر گیا یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان شدید معاشی مساٸل کا سامنا کر رہا ہے۔

اس وقت معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں اشیاٸے ضرور اور اشیاٸے زر کی قیمت میں کافی حد تک اضافہ ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ غریب طبقے کو غربت اور بےروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کی گراوٹ دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے   کہ پاکستان معیشت کو  دیوالیہ پن کا خطرہ لاحق ہے۔بہت سے اہل نظر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو کمزور کر کے اسے دیوالیہ پن کی طرف موڑنے میں ہمارے سیاست دانوں کا ہی ہاتھ ہے۔ گزشتہ دہاٸیوں سے پاکستانی سیاست دان اپنی بقا کے لیے پاکستان کو معاشی بحران کا شکار بنا رہے ہیں۔

پچھلے کچھ  سالوں سے پاکستان کو مسلسل معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا اس کی سب سے بڑی وجہ معیشت کی منصوبہ بندی کے بغیر ملک کو چلانا۔2019  میں جب پاکستان کو آٸی ایم ایف کی طرف سے قرضہ ملا تو پاکستان کی معیشت میں کچھ حد تک بہتری آٸی۔ مگر جب عالمی سطح پر مختلف ممالک کو کرونا نے اپنی لپیٹ میں لیا تو معاشی بحران مزید بڑھ گیا۔ ان ممالک میں پاکستان کو مختلف معاشی مساٸل کا سامنا کرنا پڑا۔

کاروبار، تعلیمی نظام، ملازمت اور کٸی پراٸیویٹ ادارے کرونا کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گٸے۔ کرونا کے دوران پاکستان کو دو بحرانوں سے گزرنا پڑا۔ ایک تعلیمی نظام اور دوسرا معاشی نظام۔ لیکن پاکستان عالمی سطح پر وہ واحد ملک تھا جس نے معاشی بحران پر بہت حد تک قابو پا لیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام کا ذریعہ معاش کسی حد تک جا کر بحال ہوا۔ حال ہی میں 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے مزید پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا ہے۔

 پاکستان کے معاشی  حالات کو سری لنکا سے تشبیہ دینا کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔ سری لنکا نے اپنی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے قرض لیے مگر جب معاشی صورت حال بہتر نہ ہو سکی تو دیوالیہ کی طرف آ گیا۔ سری لنکا کی اسی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوٸے کچھ لوگ پاکستان کو معاشی لحاظ سے سری لنکا سے تشبیہ دینے لگتے ہیں۔  پاکستان اب آٸی ایم ایف سے باٸیسویں بار قرضہ لے چکا ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان کی معاشی صورت حال کسی طور پر بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مہنگاٸی ہے مگر اس وقت کچھ مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جس قدر مہنگاٸی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی قدر غربت بڑھ رہی ہے۔

حال ہی میں جو پاکستان کو معاشی مساٸل کا سامنا درپیش ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل حل تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت اگر اپنی توجہ معیشت کی طرف مرکوز رکھے ، غیر ضروری تنازعات سے بچا کے رکھے   معاشی چارٹر اور مبصرین کی طرف سے دی گٸی تجاویز کو مدنظر رکھے تومعاشی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

1سیاسی اختلاف کو پس پشت ڈال دیں:

پاکستان کے معاشی بحران کو ختم کرنے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں  کو چاہیے کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کی معیشت پر توجہ مرکوز رکھیں  کیوں کہ بار بار آٸی ایم ایف سے قرضہ لینا ایک تو ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کے ساتھ کروڑوں کی آبادی پر قرضہ پورا نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان پر قرض بڑھ رہے ہیں مگر معاشی بحران کسی صورت ختم نہیں ہو رہا ہے۔ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی بہتری اور بھلاٸی کے بارے میں سوچنا چاہیے کیوں کہ جلسوں وغیرہ میں باتوں سے معاشی بحران کو کم کرنا بہت آسان ہے جب کہ حقیقت میں یہ سب سے مشکل ہے۔

2زرعی شعبے کو اہمیت دینا/ زراعت سے زرمبادلہ کمانا:

پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دوسری اہم تجویز زرعی شعبے کو اہمیت دینا ہے۔ اس وقت زراعت سے کاشت کی جانے والی فصلیں حکومت کو اچھا خاصا زر مبادلہ دے سکتی ہیں۔ اور ماضی میں معیشت کا کافی بوجھ زراعت نے سنبھال رکھا تھا ، گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتوں  کی توجہ بھی اس طرف نہیں رہی اور زرعی زمین رکھنے والے عوام و خواص بھی لاپروا ہوگئے ہیں  ،اگر   زراعت کی طرف توجہ مبذول رکھی جاٸے تو کاشت ہونے والی فصلیں  مثلا گندم، چاول، جوار، باجرہ اور دالیں وغیرہ دوسرے ممالک میں بھجوا سکتے ہیں اس طرح خاطر خواہ  زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے ۔ اس طرح صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ کسانوں کو بھی زراعت سے ہونے والی فصلوں سے اچھا خاصا منافع ہوگا۔ پاکستان کی معاشی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زراعت ایک اہم مہرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

 

3 خیراتی اداروں کے ذریعے غریبوں کو سبسڈی دیں

پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے تیسری اہم تجویز پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ حکومت کوٸی بھی ہو اسے چاہیے کہ بیرونی ممالک سے ملنے والے فنڈز کو بہتر طریقے سے استعمال کرے ۔ پاکستان میں ایسے لا تعداد خیراتی ادارے موجود ہیں،  جن کو اندرون و بیرون ملک سے بڑی مقدار میں فنڈز ملتے ہیں ان کا استعمال اگر توازن اور منصوبہ بندی سے کیا جائے تو غریب عوام کے لیے زر تلافی یعنی سبسڈی کا اہتمام و انتظام ہو سکتا ہے ۔ چھوٹا کاروباری طبقہ اس  رقم سے اپنا کاروبار بھی شروع کر سکتا ہے ۔ یوں غربت کا خاتمہ ہونے کے ساتھ پاکستان کی معیشت بھی بہتری کی طرچ گامزن ہو گی۔ 

4احساس پروگرام/ بے نظیر انکم سپورٹ

حکومت  کو پاکستان کی گرتی ہوٸی معیشت کو سنجیدہ لینا چاہیے کیوں کہ روپے کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگاٸی عروج پر جا رہی ہے۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چوتھی اہم تجویز جس پر  حکومت کو غور کرنا چاہیے وہ ہے غریبوں کو سپورٹ کرنے کا پروگرام جیسے احساس اسکالر شپ پروگرام اور بینظیر انکم سپورٹ کا اجراء بھی بہتری کی طرف ہے مگر اس میں غریب طبقہ اپنا حق نہیں لے رہا۔  حکومت کو  خاص طور پر یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ایسے پروگرام اور سلسلے سیاسی وابستگی سے قطع نظر چلائے اور ضرورت مند غریب عوام ہی اس طرح کے پروگراموں کے مستحق ہوتے ہیں  ۔ حکومت کو چاہیے کہ ان سپورٹ پروگرامز کے ایمبیسڈرز کو ہدایات جاری کریں کہ یہ فنڈز صرف مخصوص غریب طبقے کو دیے جاٸیں تاکہ وہ ان پیسوں سے اپنا اچھا گزر بسر کریں تاکہ مہنگاٸی کی شرح کم ہو اور ملک معاشی بحران سے نکل سکے۔

5 راشن کارڈ/ صحت کارڈ

اس وقت پاکستان جن معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے اس کا مستقل حل ہی معیشت کو گرنے سے بچا سکتا ہے۔ یہاں پانچویں اہم تجویز جو چھوٹے طبقے کے لیے ہے وہ ہے راشن کارڈ/ صحت کارڈ۔ چھوٹے طبقے کے پاس وساٸل نہ ہونے کی وجہ سے غربت کا شکار ہو جاتے ہیں جب غربت میں اضافہ ہوتا ہے تو مہنگاٸی کی شرح بتدریج بڑھنے لگتی ہے۔اس مہنگاٸی کے دور میں چھوٹا طبقہ پس رہا ہے حکومت کو چاہیے اس چھوٹے طبقے کو امداد دینے کے ساتھ بچت کا شعور پیدا کرے  ماہرین سے ان کی  ترقی کے لیے تجاویز لی جائیں اور غریب طبقے کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے میں مد دی جائے   نیز  بیرون ملک سے آنے والی امداد سے چھوٹے طبقے کو راشن کارڈ/صحت کارڈ جیسی سہولیات دینی  چاہیے کیوں کہ اسی  چھوٹے طبقے کی محنت ملک کی معیشت کو بہتری کی طرف لا سکتی ہے۔

ان تمام تجاویز کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں جس سے ملک کی گرتی معیشت سنبھل سکتی ہے۔  بے روز گاری پچھلی کٸی دہاٸیوں کا مسٸلہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور اب ڈر ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان دیوالیہ کی طرف نہ چلا جاٸےاس لیے حکومت کو معاشی مساٸل پر قابو پانا ہوگا۔ بے روز گاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو روز گار کے موقع فراہم کرے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروٸے کار لا کر ملک کی معیشت کو بحران سے نکال لیں۔