عمارہ فہیم
بچیوں کو گفٹ باکس و باسکٹ سے متعارف کرواکر مومنہ و اریبہ نے اس میں اپنے پاس سے کچھ چیزیں بھی رکھ دیں ، جب بچیوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے سامان کا جائزہ لینا شروع کیا کہ آیا ان کے پاس کیا کوئی چیز اس وقت ایسی ہے جو وہ گفٹ کرسکیں اور گفٹ کرنے میں پہل کرلیں ، کیونکہ مومنہ نے انہیں بتایا تھا ۔
”نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے کو دگنا اجر( ڈبل گفٹ) ملتا ہے ۔“
مومنہ نے اریبہ کو اشارہ کیا ،جسے سمجھتے ہوئے اریبہ نے سامان میں سے چائنہ کا ایک اخبار نکال کر اسے فرش پر بچھایا ، پھر پلاسٹک شیٹ اور کپڑا نکالا، اخبار پر اس کو بچھا کر مومنہ کی طرف دیکھنے لگی ۔
”رنگوں کی دنیا میں آنے والی رنگ برنگی تتلیو! آپ سب کو پہلے دن سامان سے تعارف کروایا گیا تھا ، اب اس سامان کو استعمال میں لانے کا وقت ہوچکا ہے ۔
اس لیے جس طرح مس اریبہ نے اخبار اور پلاسٹک میٹ بچھایا ہے ،آپ سب بھی تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہوکر اپنا اخبار ، میٹ اور کپڑا بچھائیں ۔“
مومنہ کے کہتے ہی تمام طالبات نے عمل کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فاصلے فاصلے سے نئی استانیاں اپنی شیٹ بچھا کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔
”شاباش ! ہر کام کو کرنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے اگر وہ اس کے مطابق کیا جائے تو اس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں ، ابھی اس کلر ورک کو ہی دیکھ لیں !
ہم نے یہ اخبار ،شیٹ اور کپڑا کیوں بچھایا ؟“
مومنہ سوال کرکے سب کو دیکھنے لگی تو ایک ایک کرکے بچیاں جواب دینے لگیں ۔
”تاکہ جگہ خراب نہ ہو ۔
سب کچھ اچھا اچھا لگے ۔
گندگی نہ ہو ۔“
ایسے کئی جواب دیےگئے ۔
”ویری گڈ !
آپ سب نے بالکل ٹھیک کہا : کہ ہم نے کام شروع کرنے سے پہلے یہ سارا اہتمام اس لیے کیا ہے تاکہ ہماری جگہ، کپڑے وغیرہ گندے نہ ہوں، کیونکہ اچھی اور صفائی پسند عادت کے حامل لوگ گندگی کو پسند نہیں کرتے وہ ہر کام سلیقے و طریقے سے کرتے ہیں ۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے :
الطھور شطر الایمان
صفائی نصف ایمان ہے
مطلب صفائی نے ہمارے ایمان کے آدھے حصے و آدھی جگہ کو گہرا ہوا ہے، ظاہر ہے اگر ہماری جگہ یا ہم خود گندے ہوں گے تو عبادت بھی ٹھیک سے نہیں ہوگی اور دوسرا اپنی طبیعت بھی بوجھل رہے گی ، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی صاف ستھرے رہیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول و جگہ کو بھی صاف ستھرا رکھیں ۔
مومنہ ابھی یہ کہہ کر پانی پینے کے لیے خاموش ہوئی تھی کہ ایک طالبہ کی آواز آئی ۔
”ٹیچر ! ہم تو روز نہاتے ہیں اور اپنی ساری چیزیں بھی صاف رکھتے ہیں، پھر میں اچھی بچی ہوں نا ؟“
مومنہ و اریبہ دونوں ہی چھوٹی سی سات سالہ اس بچی کو دیکھ کر مسکرائیں ، جسے ان لوگوں نے اس کی چھوٹی عمر کی وجہ سے اس کورس کے لیے منع کیا تھا کہ ” ابھی بہت چھوٹی ہو“مگر فارعہ( چھوٹی بچی) بضد تھی کہ اسے بھی رنگوں والے کھیل کھلنے ہیں اس لیے اپنی بڑی بہن کے ساتھ وہ بھی کلاس میں آنے لگی تھی ۔
”چلیں طالبات ! اب ہم نے اپنی جگہ یعنی ورک پیلس کی ترتیب کرلی ہے تو اب دوسرا کام جو ہم نے کرنا ہے دیکھتے ہیں وہ کیا ہے ؟“
مومنہ نے اتنا کہہ کر اریبہ کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی تو طالبات بھی اس طرف متوجہ ہوگئیں ۔
مومنہ کو اپنی طرف متوجہ پاکر الرٹ کھڑی اریبہ حرکت میں آئی اور ایک باکس سے کلر ٹرے، برش ، دو رنگ (سفید ،ہرا) بائینڈر کی بوتل ،ا سپرے بوتل ، سپنج ، رف کپڑا نکال کر پلاسٹک شیٹ کے ایک طرف رکھتے ہوئے خود قریب ہی بیٹھ گئی ۔
طالبات نے جیسے جیسے جو جو چیزیں اریبہ کو نکال کر رکھتے دیکھا، انہوں نے بھی وہی سب چیزیں خود بھی نکالیں اور ویسے ہی رکھنے لگیں جیسے اریبہ نے رکھی تھیں ۔
کہتے ہیں بچے ماں باپ کو اور شاگرد استاد کو کاپی کرتے ہیں ، ہر کام ہر چیز ویسے ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ماں باپ یا اساتذہ کو کرتے ہوئے وہ دیکھتے ہیں، والدین و اساتذہ رول ماڈل ہوتے ہیں ، اس لیے انہیں سب سے پہلے اپنا آپ بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ، ہم اکثر بچوں کو قصور وار کہتے ہیں جبکہ اگر ہم غور کریں تو ہمیں اپنی غلطی و کمی واضح نظر آسکتی ہے ۔
اریبہ نے سب چیزیں اچھے سے مرتب کیں تو مومنہ آگے بڑھی اور نشست سنبھالی ، کلر ٹرے کو آگے کیا اور بچیوں کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ” بتائیں یہ کیا ہے اور اس کا رنگوں کی دنیا کے علاوہ ہماری زندگی میں کیا کردار ہے ۔؟“
مومنہ کے خاموش ہوتے ہی بچیاں کلر ٹرے کو الٹ پلٹ کر پہلے تو دیکھنے لگیں، پھر ایک کے بعد ایک کے جواب آنا شروع ہوئے ۔
”ٹیچر! یہ رنگوں کو جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔
رنگ ملانے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔“
اس سے ملتے جلتے جواب دیےگئے ۔
مومنہ مسکرائی اور پھر اس نے بولنا شروع کیا ۔
”کلر ٹرے: یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مختلف رنگوں اور لوگوں کو ۔“
درمیان میں مومنہ کے جملے کو ایک چشمہ والی پیاری سی چھوٹی سی گڑیا نے پورا کیا تو مومنہ و اریبہ نے اسے شاباشی دی ۔
”کلر ٹرے: یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مختلف رنگوں اور لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے، ہر کوئی اپنے دائرے میں کیسے جی سکتا ہے ۔“
”جی طالبات! حمنہ نے بالکل ٹھیک جواب دیا کہ اس کلر ٹرے کا کام رنگوں کی دنیا میں رنگوں کو ملانا اور اکٹھا کرنے میں مدد دینا ہے اس سے ہم اپنی زندگیوں پر بھی غور کرسکتے ہیں کہ آیا ہم ایسی کلر ٹرے کی طرح ہیں جو رنگوں کی طرح رشتوں کو جوڑ کر ملا کر رکھتی ہے یا پھر سب کچھ خراب کرنے والیاں ہیں ۔“
اب کی بار اریبہ نے کلر ٹرے کی اہمیت رنگوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ اصل زندگی میں کیا ہے وہ بھی بتائی تو مومنہ اریبہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر سامان کی طرف متوجہ ہوئی اور اس میں سے ہرا اور سفید رنگ نکال کر سامنے رکھا اور گویا ہوئی ۔
”رنگوں کی دنیا کی پریو ! مس سفیدی سے تو ہم مل ہی چکے ہیں اور ہمیں مس سفیدی کے بارے میں بہت ساری معلومات بھی مل گئی تھیں اب آج ہم رنگوں کی دنیا کی نئی مہمان سے ملاقات کریں گے ، اس لیے میں دعوت دیتی ہوں مس سبزہ زار کو کہ تشریف لائیں اور ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتائیں !“
مومنہ نے سفید رنگ کی بوتل کو سب کے سامنے کرتے ہوئے مس سفیدی یاد دلاکر نئے رنگ کی بوتل کو چپکے سے ہاتھ میں پکڑا اور دوسری طرف اپنا رخ کرلیا جہاں سے اریبہ ہرے دوپٹے کو لپیٹ کر آرہی تھی اور اس نے تو اپنے بازو میں کچھ چھپایا ہوا بھی تھا مگر کیا ۔( چلیں جب تک آپ سوچیں کہ وہ کیا ہوسکتا ہے جو اریبہ نے چھپایا ہوا ہے ،دیکھیں تو آپ میں سے کون پرفیکٹ اندازہ لگاتا ہے ،؟ تب تک ہم ذرا مس سبزہ زار سے گفتگو کرلیں ! )
”السلام علیکم مس! آپ ہماری پریو کو اپنا تعارف تو کروائیں !“
”میرا نام مس سبزہ زار ہے ، میں ہوں ہرا ہرا ٹھنڈا ٹھنڈا رنگ “
”ماشاءاللہ ! آپ کا نام تو بڑا پیارا ہے ، اچھا یہ تو بتائیں کہ ہرے بھرے رنگ کے کچھ فوائد بھی ہیں ؟“
”جی جی ! میرا رنگ بھی باقی رنگوں سے کچھ کم نہیں ہے ، میرا رنگ زندگی ،تازگی ، فطرت اور ماحول کی نمائندگی کرتا ہے ، میرے رنگ کو دیکھنے سے دل میں سکون اور آنکھوں میں ٹھنڈک آتی ہے اور یہ دونوں چیزیں صحت کے لیے بہت مفید ہوتی ہیں ۔“
مس سبزہ زار نے اک ادا سے اپنا تعارف اور اپنی خوبصورت تعریف سب کے سامنے پیش کی ،( ان کے انداز میں نرالا پن تھا ، جس سے واضح ہورہا تھا کہ جیسے ان کے رنگ اور بہت کچھ خاص ہو جو ابھی معلوم نہ ہوا ہو )تو سب حیران ہوکر انہیں دیکھنے لگے اتنے میں فارعہ کھڑی ہوئی اور اریبہ کے پاس جاکر اس کا ہاتھ ہلاکر کہنے لگی ۔
”مس سبزہ زار ! آپ نے ہاتھ میں کیا چھپایا ہے ؟“
فارعہ کے کہتے ہی سب بچے اریبہ کے ہاتھ کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
”یہ بہت خاص چیز ہے ، ہم سب کی جان، ہماری پہچان ہے ، بوجھو تو جانیں کہ آخر کیا ہے وہ جو ہم سب کی ہے پہچان ؟“
اریبہ نے پوشیدہ شئے کو مزید چھپاتے ہوئے چند مصرعے گنگنائے ،تو سب بچیاں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں اور سوچنے لگیں کہ ایسا کیا ہے جو ہم سب کی پہچان ہے ، اتنے میں ایک گولو مولو سا بچہ جو اپنی امی کے ساتھ بہن کی چھٹی لینے آیا تھا، سب کو اس کی آواز سنائی دی ۔
”ہم سب کی جان !
ہم سب کی پہچان !
پاکستان پاکستان!“
اریبہ و مومنہ بہت خوش ہوئیں اور اریبہ نے اپنے بازو میں چھپایا ہوا پاکستان کا پرچم باہر نکالا ۔
”جی !
یہ ہے !
ہم سب کی جان !
ہم سب کی پہچان!
ہماری آن ، بان، شان!
ہم سب کا پیارا پاکستان!
یہ پرچم پاکستان!
پاکستان پاکستان!“
”واہ مس سبزہ زار آپ اور ہمارا پرچم تو ایک ہی رنگ کے ہیں ، یہ تو بتائیں کہ ہمارے پرچم میں سبزہ سبزہ کیوں ہے ۔؟“
مومنہ نے سوال کیا ۔
”یہ جو پیارا سا پرچم ہے یہ دو رنگ یعنی گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے، جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں ( یعنی غیر مسلمین ) کو ظاہر کرتا ہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے، یہ دونوں رنگ سکون، امن ، اطمینان ، دوستی کو ظاہر کرتے ہیں ۔“
”ارے وااہ ! مطلب ہمارا پرچم کوئی معمولی پرچم نہیں بلکہ بہت ہی خاص ہے ، یہ امن ، سکون بھی دیتا ہے اور اس کا رنگ اتنا پیارا ہے کہ آنکھوں اور دل کو ٹھنڈک بھی پہنچاتا ہے ۔“
مومنہ نے پرچم کو اریبہ سے لے کر سینے سے لگاتے ہوئے کہا ۔
”جی آپ کا یہ پرچم بہت خوبصورت اور قیمتی ہے ، مگر اکثر لوگ اپنے پرچم کا احترام نہیں کرتے بلکہ اس کی بے ادبی کرتے ہیں اور زمین پر گرا دیتے ہیں ، اور یہ بات ہم رنگوں کو بھی بری لگتی ہے کیونکہ جو اپنے پرچم کو یعنی اپنی پہچان کو عزت نہیں دیتا اس کی اپنی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔“
مس سبزہ زار نے بڑی ہی پیارے اورگہرے راز رنگوں کی دنیا کی پیاری پریوں کو بتائے ۔
”شکریہ مس سبزہ زار! اتنی اچھی باتیں بتانے کے لیے ! آپ جاتے جاتے ہماری پریوں کو کیا کہنا چاہیں گی ۔؟“
”میں بس یہی کہوں گی کہ رنگوں کی دنیا میں قدم رکھ کر رنگوں کی اہمیت کو جاننے کے ساتھ ساتھ اس میں چھپے فوائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پرچم کو فراموش مت کیجیے گا اس کی ہمیشہ عزت کیجیے گا اور سرخرو و سربلند کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے گا ۔“
مس سبزہ زار پیاری سی نصیحت کرتی ہوئی رخصت ہوگئیں اور بچیاں پیارے پرچم کو باری باری آکر پیار کرتیں اور کہتیں ”ہم اب اپنے پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھیں گی ، اور ہمیشہ اچھے اچھے کام کریں گی ۔“
پیاری قارئین رنگوں کی دنیا کی پریوں نے تو عزم کرلیا آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟!“
ارے ہاں ! یاد آیا ہمیں تو آج ہرے اور سفید رنگ سے کچھ منفرد بنانا تھا تو کوئی بات نہیں آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتا ہے ، خوش رہیں سلامت رہیں اور اپنے تاثرات ہمیں بتانا نہ بھولیں ۔