یہ کیا امی جی اور کیا تائی جان کی رٹ لگائی ہوئی ہے، آرام سے بتاؤ بات کیا ہے ؟ گھر میں باپ بھائی ، تایا چچا موجود ہیں اور لڑکیوں کا حلیہ دیکھو ذرا ! کیا کہیں گے سب کہ ماؤں نے انہیں صفائی ستھرائی نہیں سکھائی ، سر جھاڑ منہ پھاڑ گھر میں گھوم رہی ہیں

عمارہ فہیم

9نومبر (یعنی اقبال ڈے)کا دن تھا ، حکومت کی طرف سے ایک بار پھر اس دن کی چھٹی کا اعلان کردیا گیا تھا،مومنہ اور اریبہ دونوں اس فکر میں ہلکان ہوتی پھر رہی تھیں کہ ان کی کلاس کی طالبات آئیں گی ، وہ انہیں کہاں اور کیسے بٹھائیں گی، گھر میں بھائی، ابو ،چچا ، تایا مطلب گھر کے سب مرد موجود ہیں ، تو ایسے میں کلاس کیسے ترتیب دی جائے ، ابھی وہ اسی فکر کے سمندر میں غوطہ زن تھیں کہ تائی امی کی آواز ان کے کانوں میں پڑی ۔

” لڑکیو! سب ناشتے کے انتظار میں ہیں، تم دونوں کی کھسر پھسر ختم ہوگئی ہو تو ذرا ہاتھ تیزی سے ہلاؤ اور سب چیزیں لے جا کر دسترخوان کی زینت بنادو ۔“

تائی جان نے ناشتے سے  پہلے ہی دونوں کو مزے دار ناشتا کروادیا ۔

”جی تائی جان “

”جی امی جی!“

اریبہ و مومنہ کو ڈانٹ پڑتے وقت کچھ سمجھ نہیں آتا تھا بس جی جی کی رٹ لگایا کرتی تھیں، کیونکہ اچھی لڑکیاں چست، سمجھدار اور سلیقہ شعار و فرماں بردار ہوا کرتی ہیں نہ کہ پھوہڑ ،ضدی اور بد لحاظ ۔

اُن کے منہ مسلسل لٹکے ہوئے تھے، ناشتے سے فارغ ہوکر دسترخوان سمیٹ کر کچن صاف کرنے تک گہری سوچوں میں گم تھیں ، دوسری طرف دونوں مائیں اپنی بیٹیوں کی زبانوں پر پڑے قفل سے پریشان تھیں کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟

”ادھر آؤ دونوں !“

ماؤں کی نظریں عقابوں جیسی ہونی چاہئیں ، کہ اپنی اولاد کے ہر رنگ ڈھنگ، بول چال اور انداز سے وہ اس کا بغور جائزہ لے کر اس کی تربیت پر توجہ دے سکیں، ورنہ جس طرح کے حالات ہیں ان میں اولاد ماں باپ کی طرف سے ذرا سی بے توجہی پر باہر کی بری فضا کا شکار بن سکتی ہے ۔

مومنہ اور اریبہ کی ماؤں نے بچیوں کو نہ کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ وہ جو چاہیں کرتی پھریں اور نہ ہی اتنی سختی کی ہوئی تھی کہ وہ ان سے کوئی بات شیئر ہی نہ کرسکیں ۔

تائی جان نے کچن میں رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے سب کام سمیٹ کر جاتی ہوئی مومنہ و اریبہ کو بلایا ، دونوں خراماں خراماں چلتی ہوئی میز تک آئیں اور ماؤں کے سامنے رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئیں ۔

”کیا مسئلہ ہوا ہے؟ دونوں اس قدر اجڑی حالت میں کیوں ہو ؟ اور منہ بھی لٹکا ہوا ہے۔

ماں کے سوال پر اریبہ نے مومنہ کو اور مومنہ نے اریبہ کو دیکھا ۔

”وہ امی جی !

”وہ تائی جان!

”یہ کیا امی جی اور کیا تائی جان کی رٹ لگائی ہوئی ہے، آرام سے بتاؤ بات کیا ہے ؟ گھر میں باپ بھائی ، تایا چچا موجود ہیں اور لڑکیوں کا حلیہ دیکھو ذرا ! کیا کہیں گے سب کہ ماؤں نے انہیں صفائی ستھرائی نہیں سکھائی ، سر جھاڑ منہ پھاڑ گھر میں گھوم رہی ہیں ۔“

اب کی بار مومنہ کی امی نے دونوں کو گھوری سے نوازا ۔

”وہ ہماری بچیوں کی کلاس ہوگی ، ہم نے تو کوئی چھٹی نہیں دی ، گھر کے سب ہی مرد موجود ہیں ایسے میں طالبات کو کہاں اور کیسے بٹھائیں ؟ بس ہم دونوں یہی سوچ رہے ہیں اور تو کوئی بات نہیں ۔“

ماں کی گھوری ملنے پر مومنہ کی زبان رٹے رٹائے طوطے کی طرح چلنے لگی اور اندر جو باتیں گھوم گھوم کر پریشان کررہی تھیں ،انہیں باہر نکال کر اب گہرا سانس خارج کرتے ہوئے ماں کو دیکھنے لگی ۔

کچھ دیر خاموشی کے بعد تائی جان کی آواز سنائی دی ۔

”یہ تم دونوں کے کمرے، چھت بھائیوں کے اپنے کمرے اور ہمارے کمرے کس لئے ہیں ؟ “

”امی جی! کیا ہم ان میں سے کہیں پر کلاس لگائیں ۔؟“

مومنہ و اریبہ نے حیران ہوتے ہوئے آہستہ آواز میں پوچھا ، تو دونوں ماؤں نے انہیں تیز نظروں سے دیکھا ۔

مرد مہمانوں کے لئے بیرونی صحن کی طرف بنی بیٹھک بنائی گئی تھی تاکہ کسی قسم کی بے پردگی نہ ہو ، اور خواتین کے لئے گھر کے اندر صحن کے ساتھ ہی چھوٹی سی بیٹھک بنائی گئی تھی ۔

 ان کے گھر کا اصول تھا کہ بیٹیاں سہیلیوں کے ساتھ بھی کمروں میں اکیلے نہیں بیٹھتی تھیں بلکہ ماؤں کے ساتھ ماؤں کی نگرانی میں بیٹھک میں بیٹھا کرتی تھیں ، اس کے علاوہ باہر کے کسی بھی فرد کو کمروں میں لے جانے اور وہاں بٹھانے کی بھی گھر کے کسی فرد کو قطعا اجازت نہ تھی ، اسی لیےماؤں کے کمرے گنوانے پر دونوں لڑکیاں حیران ہوکر پوچھ رہی تھیں تو دوسری طرف مائیں بھی آنکھیں دکھانے لگی تھیں ۔

”اس سے پہلے تو جیسے باہر سے آنے والوں کو کمروں کی زیارت کروائی جاتی رہی ہے نا ! جو اب آپ دونوں کی کلاس وہاں لگے گی ۔“

”نہیں امی جی! وہ تو ہم ایسا سمجھیں تو اس لئے پوچھ لیا ۔“

اریبہ نے صفائی دینے کی کوشش کی ۔

”کمرے گنوانے کا مقصد آپ کی کلاس وہاں لگانے کا مشورہ دینا نہیں تھا بلکہ آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ کلاس کرنی ہے تو پکا بتاؤ تاکہ ہم مردوں کو کہہ دیں کہ اگر باہر جارہے ہیں تو اس وقت تک صحن کی طرف نہ آئیں بیٹھک میں بیٹھ جائیں یا پھر وقت سے پہلے آکر اپنے کمروں یا چھت پر چلے جائیں تاکہ بچیاں آرام سے کلاس لے سکیں ۔“

تائی جان کی بات سن کر دونوں کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی کیونکہ وہ اپنی کلاس کا ناغہ برداشت نہیں کرسکتی تھیں، ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے کلاس شروع ہوئے جو ابھی سے چھٹیاں ہوتیں ، اس طرح تو بچے سب بھول جاتے ۔

”تھینک یو امی جی ! تھینک یو تائی جان !

نہیں بلکہ جزاکم اللہ خیرا!

بہت شکریہ !

دونوں دیوانوں کی طرح جوش میں بس شکریہ کی رٹ لگائی ہوئی تھیں ۔

”بس بس ! یہ اپنا دھمال بند کرو اور جاکر کام ختم کرکے اپنا حلیہ درست کرو ۔

اتنی سی بات ہوتی ہے اور دونوں اسے فسانہ بنا کر پھرتی رہتی ہو ۔“

٭٭٭٭

دونوں خوشی خوشی اپنی کلاس ترتیب دے کر اپنا بکھرا حلیہ درست کرکے آ چکی تھیں اور ماؤں کی کہی بات کے مطابق مرد اپنے حلقوں میں محدود ہوچکے تھے ۔

رفتہ رفتہ کلاس کی سب طالبات آنا شروع ہوگئیں ، سلام کرتے ہوئے سب اپنی نشست پر بیٹھتی رہیں ۔

مومنہ نے پچھلی دونوں کلاسوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے نئی کلاس شروع کی اور نئے رنگوں سے طالبات کو متعارف کروایا ۔

کچھ ہی دیر میں اریبہ امی جی کا اورنج رنگ کا دوپٹہ لپیٹے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ پکڑے ہوئے چلی آرہی تھی، اسے دیکھ کر سب طالبات ہنسنے لگ گئیں ۔

”یہ آپ کے ہاں مہمان پر ہنسا جاتا ہے کیا ۔؟“

اریبہ نے منہ پھلا کر لیموں کی طرح  ترش انداز میں مومنہ سے سوال کیا ، تو مومنہ کو  شرمندگی محسوس ہونے لگی اور بچیوں کو ایک دم سانپ سونگھ گیا ۔

”میں معافی چاہتی ہوں اورنج گروپ کی لیڈر  صاحبہ! بچیاں ہیں نادان ہیں انہیں معاف کردیں ، میں ان سے ان شاءاللہ اس بارے میں ضرور بات کروں گی اور یقینا بچیاں بہت اچھی طرح میری بات کو سمجھ جائیں گی ، اور آئندہ کسی مہمان کو شکایت نہیں ہوگی ۔“

مومنہ نے معذرت خواہ انداز میں کہا اور بچیوں کی طرف بھی ایسے دیکھا کہ کہہ رہی ہو کہ معافی مانگیں ۔

”ایم سوری مس مہمان ! “

سب بچیوں نے جھجھکتے ہوئے معذرت کی تو مس مہمان اپنی کرسی پر براجمان ہوگئیں تو سوال جواب کا سیشن شروع ہوا ۔

آپ کا نام کیا ہے اور آپ کو اورنج گروپ کی لیڈر کیوں کہا جاتا ہے ؟ “

”میرا نام اورنج ہے، اور مجھے اورنج گروپ کی لیڈر اس لیے کہتے ہیں کہ اورنج سے ملتے جلتے ہلکے تیز سارے رنگ اور پیلے کی مشاہبت بھی مجھ میں آتی ہے ، اور میں سب رنگوں کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی ہوں ، کیونکہ مل کر رہنا اچھی عادت ہوتی ہے ،اس لیے مجھے اس پورے گروپ کی ہیڈ کہا جاتا ہے ۔“

”اچھا تو مس یہ بتائیں کہ آپ کے یا آپ کے گروپ کے رنگوں میں سے کسی رنگ کے کیا فوائد ہیں ؟ “

ایک بچی نے سوال کیا تو مس اورنج نے اس کی طرف رخ کرلیا ۔

”میرا زرد و پیلا رنگ قدرتی رنگوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے، سورج کے طلوع و غروب کے وقت تو زیادہ واضح ہوتا ہے، اس کے علاوہ خوشیوں کے موقع پر بھی اس رنگ کو استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ، اس کے علاوہ بچوں کی اسکول بسوں اور ٹریفک لائٹ میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔“

مس مہمان نے اپنے تعارف میں تعریفوں کے پل باندھنے شروع کیے تو مومنہ نے گلا کھنکھارا ۔

”مس اورنج آپ کا بہت شکریہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی اب ہم اپنی دوسری مہمان کو بلانا چاہیں گے ۔“

مومنہ کی بات ختم ہونے تک اریبہ وہاں سے جاچکی تھی اور ایک نئے کارڈ اور کلر میں لپٹی باہر آرہی تھی ۔

مس نیلی سے گفتگو کا آغاز ہوا اور ان سے ان تعارف لیا گیا ۔

”مجھے مس نیلی کہا جاتا ہے ، میرا تعلق آسمان پر چھائے ہوئے نیلے قدرتی رنگ سے ہے ،سمندر کا رنگ بھی مجھ سے مشابہت رکھتا ہے ، میرے رنگ کو دیکھ کر امن و سکون کا احساس ہوتا ہے ۔“

رنگوں کی دنیا سے آئے ان دو مہمانوں سے بات چیت کرنے کے بعد مومنہ طالبات کی طرف متوجہ ہوئی ۔

”جی تو پیاری رنگ برنگی دنیا میں قدم رکھنے والی تتلیو! مجھے آپ سب بتائیں کہ کیسا لگا آج کے مہمانوں سے مل کر ۔؟“

”مس بہت اچھا !

”ہمیں رنگوں کے حوالے سے بہت کچھ نیا جاننے کو ملا ۔“

ایسے کئی جواب بچیوں نے دیئے تو مومنہ مسکرائی اور سب کو شاباشی دیتے ہوئے گویا ہوئی ۔

”شہزادیو! آج جب ہمارے مہمان آئے تو آپ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگی تھیں، آپ کو بتاؤں یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں ہوتی کہ ہمارے گھر کوئی آئے یا ہم کسی سے ملاقات کریں اور آپس میں کانوں کانوں میں بات کریں یا اشارے کریں یا پھر ہنسنا شروع کردیں ، اس سے مہمان کو تکلیف ہوتی ہے ، اور کسی کی دل آزاری کرنا اچھی بات نہیں ، اس لئے ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔“

”جی مس ہم اب سے ہمیشہ اس کا خیال رکھیں گے کہ کسی کا دل نہ دکھائیں ۔“

ایک بچی نے کھڑے ہوکر سب کی طرف سے کہا تو مومنہ و اریبہ دونوں نے شاباشی دی ۔

”اچھا آپ سب بتائیں آج کے مہمانوں کی باتوں سے ہم نے کیا سیکھا ۔“

٭گروپ میں کام کرنا ۔

٭مل کر رہنا ۔

٭پرسکون رہنا ۔

ایک ایک کرکے بچیوں نے جواب دیئے ۔

”شاباش ! آپ سب نے صحیح کہا کہ ہمیں مل جل کر رہنا چاہیے جیسے مس اورنج اپنے گروپ کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتی ہیں ، ہمیں تازہ دم رہنا چاہیے تاکہ ہمارے ارد گرد موجود رشتے ہمیں دیکھ کر تازہ دم اور خوش رہیں۔“

مومنہ نے بچیوں کو رنگوں سے سیکھے سبق میں سے خاص راز بتاتے ہوئے خود خوش رہنے  اور دوسروں خوش رکھنے کے گر بتائے اور یہیں دعا پڑھ کر کلاس کا اختتام کیا گیا ۔