بات تو سوچنے والی ہے ، اور معاملہ بھی گھمبیر ہے، تو پھر یہ بتاؤ ! اس ڈسکشن کے بعد کس نتیجے پر پہنچے، آیا وقت ضائع کیا یا کوئی حل بھی نکالا ہے
عمارہ فہیم کراچی
کلاس کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوا، مومنہ و اریبہ صحن سے کلاس کا نقشہ سمیٹ کر اسے واپس اپنی اصلی حالت میں لاتے ہوئے ساتھ ساتھ گفتگو بھی کررہی تھیں ۔
” کتنا مزہ آرہا ہے نا مومنہ ! یہ کلاس کرواتے ہوئے ۔“
اریبہ نے چادر تہ کرتے ہوئے کہا ۔
”ہاں سچ کہہ رہی ہو ، اگر تم وہ آئیڈیا نہ دیتیں تو ہم تو کبھی یہ سب نہ کر پاتے، تمہارا بہت شکریہ ! “
مومنہ نے دل سے اریبہ کا شکریہ ادا کیا ۔
”اچھا ! یہ شکریہ وکریہ بعد میں ادا کرلینا ، یہ بتاؤ اب کل کی کلاس میں کیا کرواؤ گی ؟ کیا ایسے ہی بس رنگوں کا بچیوں کو تعارف ہی دیتی رہو گی یا کچھ نیا ہوگا ۔؟ ایسا نہ ہو مائیں کہنے لگیں لو یہ تو بس رنگوں کے نام ہی بتائے جارہی ہیں ، کوئی کام تو کروا نہیں رہیں ۔“
اریبہ نے چادر تہ کرکے ایک طرف رکھتے ہوئے مومنہ کو دیکھ کر آبرو اچکا کر پوچھا ۔
”نہیں نہیں! اب کل سے ہم پریکٹس ورک شروع کریں گے ، باقی رنگوں سے ملاقات بھی ساتھ ساتھ چلتی رہے گی ، یہ تو ابتدا میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے میں نے یہ ترتیب رکھی تھی ، تاکہ بچیاں بور نہ ہو جائیں بلکہ کلاس کے ساتھ دل سے جڑ جائیں ، اب میں گارنٹی سے کہہ سکتی ہوں اگر انہیں کوئی جانے کا بھی کہے تو وہ نہیں جائیں گی کیونکہ اس طرح انہوں نے رنگوں سے بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں کی ہوگی ، اور اب جب رنگ ان سے خود ملنے آرہے ہیں اور اپنا تعارف دے رہے ہیں تو وہ اس انجوائے منٹ کو چھوڑ کر جا ہی نہیں سکتیں ۔“
مومنہ نے اگلی کلاس کی ترتیب کے ساتھ اپنے دل کی بات ،اپنا عزم و یقین اپنی عزیز دوست و کزن سے شیئر کی ۔
”ہمم ! بچیوں کے تاثرات سے تو مجھے یہی لگتا ہے ، لیکن کسی کے دل کا حال کون جانے ! بس اللہ کرے جیسا ہم سوچ رہے ہیں اس سے بھی اچھا رسپانس ہو ۔“
”آمین !
آمین ! “
دونوں کی زبان سے بیک وقت آمین نکلا اور پیچھے ان دونوں کی باتیں سنتی ماؤں نے بھی دل سے آمین کہا۔
”مومنہ اریبہ! اگر صحن سے سب سمیٹ لیا تو ذرا آکر چائے بنالو سب آتے ہی ہوں گے ۔“
تائی جان نے آواز دی ۔
”جی جی ! بس ہوگیا ، ہم آرہے ہیں ۔“
مومنہ و اریبہ نے جلدی جلدی تیزی دکھاتے ہوئے اور ساری چیزیں ان کی متعلقہ جگہ پر پہنچا کر کچن کی طرف دوڑ لگائی۔
رات کھانے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دونوں پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور اپنے کالج کا اسائمنٹ مکمل کرکے اگلی کلاس کے حوالے سے پلاننگ کرنے لگیں ۔
”اریبہ ! میں سوچ رہی ہوں کہ بچیوں کے لئے یہ ساری چیزیں بوجھ نہ بن جائیں۔“
مومنہ نے اگلی کلاس میں جو کام کروانے کا سوچا تھا اس حساب سے چیزیں نکالتے ہوئے پرسوچ لہجہ میں کہا ۔
”کیا مطلب ؟“
اریبہ نے ناسمجھی سے آبرو اچکائیں۔
”مطلب یہ کہ ! آج کل پہلے ہی مہنگائی عروج پر جارہی ہے ، ہر چیز آسمان سے باتیں کررہی ہے ، اب ایسے میں یہ سب سامان سستا تو نہیں آتا نا ! ہر چیز اتنی مہنگی ہے ، ایک کلر کی بوتل ہی ستر ، اسی کی آرہی ہے پھر باقی سارا سامان ، کپڑا ، مجھے تو فکر ہورہی ہے کہ ہمارے علاقے کے لوگ ہمارے ہی جیسے ہیں کوئی امیر ترین لوگ تو ہیں نہیں، جن کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ! کہیں بچیاں گھر والوں سے ہر ہر چیز کے لیے ضد نہ کرنے لگیں ، ایسے میں تو صورتحال ٹھیک ہونے کے بجائے خراب ہو جائے گی ، لوگ کہیں گے کہ یہ بچیوں کو ضدی بنا رہی ہیں یا پھر ان کے اخراجات میں ان کی وجہ سے اضافہ ہوگیا ہے وغیرہ ! “
”بھئی ! ہم انہیں زبردستی تو لائے نہیں ، ہم نے تشہیر کی وہ خود آئیں ، اب ہر کام میں خرچہ تو ہوتا ہے ، ایسا تو کہیں نہیں ہوتا کہ کچھ لگے بھی نہ اور حاصل بھی سب ہوجائے ۔“
اریبہ نے مومنہ کی بات سن کر سر جھٹکتے ہوئے کہا ۔
”تمہاری بات درست ہے مگر تم یہ بھی تو سوچو کہ ہم نے کورس کی ترتیب صرف اس لیے تھوڑی شروع کی کہ ہم پیسے کمائیں اور مشہور ہوجائیں بلکہ ہم تو یہ بھی چاہ رہی تھیں نا کہ ہماری وجہ سے کسی کا بھلا ہو ، اب اگر بھلا ہونے کے بجائے کسی کا برا ہوا اور کسی کے گھر میں اس خرچے کو لے کر لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا تو کیا ہوگا ؟ ہمیں دعا ملنے کے بجائے بد دعا نہ ملنے لگے ۔“
مومنہ کی فکر عروج پر تھی ۔
”ہائے اللہ ! ڈراؤ تو نہیں ! مجھے بد دعاؤں سے ویسے ہی بہت ڈر لگتا ہے ، ہاں اگر دیکھا جائے تو تمہاری بات غلط بھی نہیں ، مگر ہم اس حوالے سے کیا کرسکتے ہیں ؟ کیا کوئی آئیڈیا یا کوئی بات ہے تمہارے ذہن میں !“
اریبہ نے مومنہ کے چہرے کو بغور دیکھا ، جیسے اس کے سوالوں کا جواب چہرے پر مل جائے گا ۔
”ہاں ! ایک بات ذہن میں آئی ہے ، سنو !“
مومنہ نے رازدارانہ انداز میں اریبہ کو اپنی سوچ اور آئیڈیا بتایا تو اریبہ نے واہ کے انداز میں ہونٹ بھی گول کیے اور ہاتھ بھی شاباشی دیتے ہوئے لہرا کر مومنہ کے کندھے پر تھپکی دی ۔
رات کافی ہوچکی تھی اور کمرے کی بتیاں جل رہی تھیں ، ہر طرف سناٹا تھا ، پلاننگ کرتے کرتے دونوں کی آواز کب اونچی ہوئی انہیں خبر تک نہ ہوئی ، آواز سن کر اپنے کمروں میں جاتی مائیں حیران و پریشاں ہوئیں اور مومنہ کے کمرے کی طرف آئیں ۔
”آپ دونوں محترمات اب تک جاگ کیوں رہی ہیں ؟ “
مومنہ کی امی نے پوچھا ۔
”وہ ہم دونوں کل کی کلاس کے حوالے سے ڈسکشن کررہی تھیں ۔“
مومنہ نے کھڑے ہوکر ادب سے جواب دیا ۔
”یہ سونے کا وقت ہے یا ڈسکشن کرنے کا ۔؟“
”ہوم ورک ختم کرکے ایک بات پریشان کررہی تھی تو اس پر بات کرنے لگے اس لیے وقت کا پتا نہیں لگا ۔“
”اچھا ! کیا بات پریشان کررہی تھی جو اس وقت اس پر گفتگو کرتے ہوئے وقت کا بھی احساس نہیں ہوا ۔“
اریبہ کی امی کو مومنہ کی والدہ نے بھیج دیا تھا کہ” میں دیکھ لیتی ہوں بچیوں کو آپ آرام کریں“اس لیے اب وہ مومنہ کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے دونوں سے پریشانی پوچھ رہی تھیں ۔
اب دونوں لڑکیوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے بات شروع کریں مگر بات تو کرنی تھی اور جواب بھی دینا ضروری تھا ۔
”بات یہ ہے کہ جب سے کلاسز شروع ہوئی ہیں مومنہ طالبات کو رنگوں سے متعارف کروارہی ہے اور بچیاں بھی خوش ہیں ،سیکھنے کی طلب نظر آرہی ہے ، اسے بس ایک بات پریشان کررہی تھی وہ مومنہ نے ڈسکس کی کہ جو کورس ہم نے شروع کروایا ہے اس کا سامان بہت مہنگا ہے ، اور مہنگائی بھی عروج پر ہے ، ایسا نہ ہو بچیاں گھروں میں زور دیں سامان لینے کے لیے اور اس وجہ سے کہیں کسی کے گھر بدمزگی پیدا نہ ہو جائے کہ بچیوں کو ہم ضدی بنارہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔“
اریبہ نے اطمینان سے صورتحال بیان کی ۔
”بات تو سوچنے والی ہے ، اور معاملہ بھی گھمبیر ہے، تو پھر یہ بتاؤ ! اس ڈسکشن کے بعد کس نتیجے پر پہنچے، آیا وقت ضائع کیا یا کوئی حل بھی نکالا ہے ۔“
چچی جان نے اریبہ کی بات اطمینان سے سننے کے بعد سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا، جہاں سکون پایا جارہا تھا ، اس کا مطلب تھا دونوں نے وقت کا ضیاع نہیں کیا بلکہ حل تلاش کرکے وقت کو خاص بنادیا ۔
”جی چچی جان ! ہم نے حل تلاش کیا ہے ، بس صبح امی اور آپ سے اس بارے میں مشورہ کرنا چاہتے تھے ،کہ آیا ہم نے جو حل نکالا ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔؟“
”ذرا جلدی بتانے کی کوشش کرو، پہلے ہی بہت وقت نکال دیا ہے ، رات اللہ نے آرام کے لیے دی ہے نہ کہ مسئلوں کے حل تلاش کرنے یا گپے مارنے کے لیے ۔“
کائنات کا سارا نظام ایک مقصد لیے ہوئے ہے ، ایک محور پر کام کررہا ہے ، رات اور دن کی بھی یہ تقسیم بغیر کسی مقصد کے تحت نہیں کی گئی ، کہ رات آتی ہے تو سورج اپنی روشنی اور تپش کو سمیٹ کر اپنے مدار کی طرف روازنہ ہوجاتا ہے اور دن نکلتا ہے تو چاند اپنی چاندنی کو سمیٹ لیتا ہے بلکہ اس میں بہت گہرے راز پوشیدہ ہیں ، جیسے دن میں قدرتی روشنی ہے، اس روشنی کی وجہ سے اپنی آنکھوں پر بوجھ نہیں ڈالنا پڑتا ، مصنوعی روشنی کا سہارا لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی ، کام آسانی سے کیے جاسکتے ہیں، راستوں کو ، منزلوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے، جبکہ رات کی سیاہی اس طرف متوجہ کرتی ہے جس پر اگر انسان غور کرلے اور نہ صرف غور کرے بلکہ اس کے مطابق اپنے امور کو مرتب کرے تو وہ بہت سی پریشانیوں، بیماریوں سے محفوظ ہوسکتا ہے ، لیکن بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ایک صندوق میں بند کرکے چابی کہیں دریا میں ڈال دی ہے ، اور مجنونوں کی طرح وقت کو کاٹ رہے ہیں ، ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی طرح اس تالے کو کھولا جائے اور ادر گرد لگے زنگ کو صاف کرکے سہی معنوں میں غور وفکر کی جائے ، تب ہی تو کامیابی ممکن ہے ۔
”ہم نے سوچا ہے کہ ہم ایک گفٹ باکس و باسکٹ بنائیں گے جس پر ہم یہ لکھیں گے کہ ضرورت سے زائد سامان(کلر، پینسل، ربڑ وغیرہ) اس میں ڈالیں اور باکس پر ہم لکھیں گے کہ پاکٹ منی سے پیاروں کو گفٹ کریں اور ساتھ ہی ہم اس پر بچیوں سے کچھ بات کرلیں گے تاکہ انہیں یہ سب طریقہ سمجھ آ جائے ۔“
مومنہ نے جلدی جلدی ساری ترتیب بتانا شروع کی تو ماں کے دل میں سکون کی لہر دوڑ گئی ، کہ بچیاں ہیں مگر کتنا اچھا سوچ رہی ہیں ، مگر ابھی دل کا حال ٹٹولنا باقی تھا ۔
”تو اس باکس اور باسکٹ سے ہوگا کیا ۔؟“
”چچی جان ! اس سے یہ ہوگا کہ جو ضرورت سے زائد سامان اس میں جمع کیا جائے گا اور جمع شدہ رقم ہوگی اس میں ہم اپنی پاکٹ منی سے کچھ رقم ملا کر مزید سامان لا کر اس باسکٹ میں رکھ دیا جائے گا تو جس کے پاس جو سامان نہیں ہوگا ، وہ ٹیچر سے بات کرکے بغیر کسی کے سامنے شرمندہ ہوئے اور ضد کیے اس میں سے لے لے گا۔“
اریبہ نے مزید وضاحت پیش کی ، تو ماں کا اندر تک سرشار ہوگیا اور وہ بچیوں کو شاباشی دیتے ہوئے جلدی سونے کی تنبیہ کرکے کمرے سے جاچکی تھیں اور پیچھے مومنہ و اریبہ خوش تھیں کہ ان کی مائیں ان سے خوش ہیں ، کیونکہ والدین راضی ہوں تو رب بھی راضی ہوتا ہے اور منزلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔
اگلے دن مومنہ و اریبہ نے کالج سے آکر نماز و کھانے سے فارغ ہوکر ایک باکس اور باسکٹ کو خوبصورت سے کور اور فلاورز سے سجایا اور کلاس میں بچیوں کو ان دونوں چیزوں سے متعارف کروایا ، جس سے بچیاں بہت خوش ہوئیں اور اس مزیدار سی ایکٹیویٹی کا حصہ بننے کے لیے پرجوش تھیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تحفہ دینے سے دل جڑتے ہیں، اور جب کسی اچھی نیت کے ساتھ کام کیا جائے تو اس میں برکت و خوشی بھی ہوتی ہے ۔
تو قارئین کرام! آج کی تحریر آپ کو کیسی لگی ؟ اپنی رائے دینا نہ بھولیے گا ۔