مومنہ نے سب سے پہلے فریم میں کپڑے کو ایسے لگایا کہ ایک طرف کا ڈیزائن اس میں آگیا اور پھر کلر ٹرے میں تھوڑا سا لال رنگ ، بائینڈر نکال کر برش سے اچھی طرح مکس کیا اور فریم کو الٹے ہاتھ میں احتیاط سے پکڑ کر برش کی مدد سے ٹریس کیے گئے پھول کو لال رنگ سے بھرنا شروع کیا اور آرام آرام سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمارہ فہیم کراچی
نئے دن، نئی کلاس اور نئے سبق کے ساتھ مومنہ و اریبہ تیار تھیں ، بچیاں بھی اپنا ہوم ورک اچھی طرح کرکے لائی ہوئی تھیں ۔
”ٹیچر! میرا کام دیکھیں ، مجھے لگ رہا ہے مجھ سے غلط ہوگیا ہے ۔“ سب بچیاں باری باری اپنا کام مومنہ کو چیک کروارہی تھیں، عارفہ اپنی باری پر مومنہ کے پاس آکر بیٹھی اور کام دکھانے لگی ۔
”غلط نہیں ہوا بس آپ سے ٹریس پیپر ہل گیا، جس کی وجہ سے ڈبل ڈیزائن ٹریس ہوگیا ہے ۔“ ” تو ٹیچر ! اب کیا کروں ؟ یہ کیسے ٹھیک ہوگا؟ “
عارفہ اپنی شرٹ کو دیکھ کر افسردہ لہجے میں پوچھ رہی تھی ۔
”ہمم تین طریقے ہیں کوئی بھی ایک استعمال کر لو ۔
پہلا : فرسٹ ڈیزائن کو جو شروع سے چلے آرہا ہے، بغور دیکھتے ہوئے کلر پینسل سے ٹھیک کرلو ۔ دوسرا : شرٹ پیس کو دھو لو، سارا ڈیزائن صاف ہو جائے گا اور پھر سوکھنے کے بعد دوبارہ ٹریس کرلیا جائے ۔ تیسرا : آپ نے گلے کا ڈیزائن ابھی نہیں بنایا صرف دامن کو ٹریس کیا ہے اور ہمارا کپڑا بھی کٹن کا سادہ سا ہے تو ہم اسے پلٹ لیں گے یعنی اس کے پیچھے والے حصے کو دوبارہ سے ٹریس پیپر رکھ کر احتیاط سے ٹریس کرلیں گے ۔“ مومنہ نے غلط ڈیزائن ٹریس ہوجانے اور اسے ٹھیک کرنے کے سارے طریقے بچیوں کو بتائے ۔ ”شکریہ ٹیچر ! “
عارفہ نے شکریہ ادا کیا اور تیسرے آپشن کو منتخب کرکے اپنا ڈیزائن دوبارہ سے ٹریس کرنے لگی ۔ ”ٹیچر ایک بات پوچھوں ؟“
ملیحہ نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا ۔
”جی پوچھیں !“
”ٹیچر ! جتنا بھی احتیاط سے کام کریں، مگر کام غلط ہو ہی جاتا ہے ، ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ہمارا کام ٹھیک بھی تو ہوسکتا ہے ۔“
ملیحہ کے سوال کرتے ہی سب بچیوں کی نظریں مومنہ پر جمی تھیں کہ آخر وہ کیا جواب دے گی۔ ”سوال تو بہت تلاش کے بعد اپنی دماغی ڈائری سے نکال کر لائی ہو تو جواب بھی سوال کے مقابلے کا ہونا چاہیے ۔“ اریبہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور مومنہ کی طرف دیکھا ۔
”بات تو ٹھیک کہی کہ کام ٹھیک بھی تو ہوسکتا ہے غلط ہی کیوں ہوتا ہے ۔
مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کام ٹھیک ہی ہو کبھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے لیکن ہر غلطی ہمیں ایک سبق دیتی ہے اور اہم غلطی ہونا نہیں ،اہم غلطی سے سیکھنا ہے کہ وہ غلطی ہمیں کیا سکھا رہی ہے اور جب ہم یہ جان لیں گے تو بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے ۔
لیکن اگر ہم غلطی سے سیکھنے اور اس غلطی کو سدھارنے کے بجائے خود کو صحیح اور سب کو غلط کہتے رہیں گے تو پھر وہ غلطی کپڑے پر موجود اس ڈیزائن کی طرح زندگی کے سارے ڈیزائن کو برباد کردے گی ، اس لیے ہنر ہو یا زندگی ہمیں اول تو اس احتیاط سے کام کرنا یا زندگی کو بسر کرنا ہے کہ غلطی نہ ہو لیکن ظاہر ہے انسان ہیں اور غلطی بھی ہو سکتی ہے تو پھر کم از کم اس غلطی کو سدھار کر اس سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا فن بھی آنا چاہیے ۔“ مومنہ نے بڑے آرام سے زندگی کا ایک بہت قیمتی فلسفہ اپنے سامنے بیٹھی نئی نسل میں منتقل کردیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ فلسفہ بچیوں کو کس حد تک سمجھ آیا ہے ۔
”ٹیچر! اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اس کپڑے پر غلط ڈیزائن کو ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ ہے ،اسی طرح اگر ہم سے لائیو میں کوئی غلطی ہوجائے تو اسے بھی ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ ہوگا بس اسے تلاش کرنا ہے ۔“ عبیرہ جو کلاس میں سب سے بڑی تھی آگے آئی اور مومنہ کے قریب سرگوشی کرنے لگی ۔ ”جی عبیرہ ! آپ بالکل ٹھیک سمجھی ہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے مگر بہت سی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ٹھیک کرنے کا طریقہ ہوتے ہوئے بھی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ آگے کیا کیا جائے تو ایسے وقت ہمیں دو کام کرنے چاہیں۔ “
”اور وہ کیا ؟“
اریبہ سمیت سب بچیوں نے ایک ساتھ سوال کیا تو مومنہ مسکرائی اور گہری سانس لے کر دوبارہ گویا ہوئی۔ ”اور وہ یہ کہ سب سے پہلے تو غلطی کو تسلیم کیا جائے اور پھر اپنی غلطی پر نادم یعنی شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی جائے ۔“
”ٹیچر! جیسے میں ابھی اپیا کو تنگ کرکے آئی ہوں اور ان کا سارا کام خراب کردیا تو اب مجھے معافی مانگنی چاہئے تاکہ میں اچھی بچی کہلاؤں ؟“
فارعہ نے دبی دبی آواز میں کہا ۔
”جی فارعہ ! ہم سے کوئی غلطی ہو تو ہمیں اسے ٹھیک کرنے کی فکر بھی کرنی چاہیے اور مجھے خوشی ہے کہ آپ سب بہت اچھی بچیاں ہیں ہر بات کو جلدی سیکھ لیتی ہیں ، بہت باتیں ہوگئی ہیں اب آج کے کام کی طرف آجاتے ہیں ۔“ سب کی توجہ آج کے کام کی طرف کرواتے ہوئے مومنہ بھی رنگوں کی باسکٹ اور میٹ کی طرف متوجہ ہوئی ۔ ”چلیں بھئی ! کل کی کلاس میں ہم نے یہ ڈیزائن تیار کیا تھا اور اسے کپڑے پر ٹریس کیا اب آج ہم رنگوں سے احتیاط کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس بے رنگ سے پھیکے سے ڈیزائن کو خوبصورت بنائیں گے ۔“ مومنہ کو چیزوں کی طرف یکسوئی سے متوجہ دیکھ کر ساری بچیاں بھی چست ہوکر پوری توجہ کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔ دوسری طرف مومنہ نے سب سے پہلے فریم میں کپڑے کو ایسے لگایا کہ ایک طرف کا ڈیزائن اس میں آگیا اور پھر کلر ٹرے میں تھوڑا سا لال رنگ ، بائینڈر نکال کر برش سے اچھی طرح مکس کیا اور فریم کو الٹے ہاتھ میں احتیاط سے پکڑ کر برش کی مدد سے ٹریس کیے گئے پھول کو لال رنگ سے بھرنا شروع کیا اور آرام آرام سے پورے پھول میں لال رنگ کرنے کے بعد برش کو تھنر (یا مٹی کا تیل) سے دھوکر رف کپڑے سے صاف کیا اور پیلا رنگ بالکل معمولی سا برش پر نکال کر کلر ٹرے پر رکھا اور برش کے اردگرد جو رنگ اضافی لگا ہوا تھا اسے صاف کیا تاکہ شرٹ پر ایکسٹرا رنگ نہ لگے اب برش پر ہلکے ہاتھ سے پیلا رنگ لگا کر لال پھول کی کسی کسی پتی میں ہلکے ہلکے شیڈز دیئے اور کسی کسی پتی میں سفید رنگ کے ہلکے ہلکے شیڈز دیئے اس طرح ایک خوبصورت پھول تیار تھا ۔
براؤن رنگ اور بائینڈر مکس کیا اور درمیان کی ڈنڈی کو احتیاط سے بناکر برش کو ایک بار پھر صاف کیا ، ہرا رنگ ،بائینڈر اور معمولی سا سفید رنگ لے کر آپس میں مکس کیا اس طرح لائٹ گرین کلر بن گیا اور اسے پتیوں میں ہلکے ہاتھ سے بھرنے کے بعد ڈارک گرین کلر سے آؤٹ لائن بنائی اور ہلکے ہلکے ہاتھ سے پتوں پر جس طرح لکیریں بنی ہوتی ہیں اس طرح اس پر لکیریں بنائیں ۔
اور اس فریم والے حصے کو احتیاط سے سوکھنے کے لیے ایک طرف رکھ دیا ۔
”طالبات !آپ نے دیکھا ہم نے کس طرح سے اس ڈیزائن میں رنگ بھرے، اب یہاں ایک احتیاط کرنی ہے کہ کپڑا رنگ پر اڑ کر نہ آئے یا کسی کا ہاتھ اس پر نہ لگے اس لیے اسے ایسی جگہ رکھا جائے گا جہاں یہ ایک دو گھنٹے بغیر ہلائے جلائے سوکھ سکے ۔“
”واؤ ٹیچر ! یہ کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔“
عارفہ کا چہرہ خوشی سے کھل رہا تھا ۔ ”ٹیچر ہم بھی اتنا اچھا بنا سکتے ہیں جیسا آپ نے بنایا ؟“ فارعہ نے اپنے ذہن میں مچلتا سوال سامنے رکھا ۔ ”بالکل بنا سکتی ہیں کیوں نہیں بناسکتیں، میں آپ سب کو ہمیشہ کہتی ہوں کہ خود کو بااعتماد بنائیں اور کبھی یہ نہ سوچیں کہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ، میں اچھا نہیں پڑھ سکتی، میں کام نہیں کرسکتی ایسا کچھ نہ سوچیں بلکہ ہمیشہ خود کو یہ تسلی دیں کہ میں کرسکتی ہوں تو یاد رکھیں یقینا کرلیں گی ۔“
مومنہ نے بچیوں میں خود پر اعتماد کرنے کی جستجو پیدا کرنے کی کوشش کی جو وہ ہمیشہ سے کرتی آرہی ہے ۔ ”جی ٹیچر ! ہم کریں گے اور اچھا کریں گے ان شاءاللہ! “
سب بچیوں نے بااعتماد لہجے میں کہا تو مومنہ و اریبہ نے بھی ان شاءاللہ کہا اور اسی کے ساتھ آج کی کلاس ہوم ورک دیتے ہوئے دعا پڑھ کر برخاست کی گئی۔
جی تو قارئین! کیسی لگی آپ کو آج کی تحریر ؟ اپنی قیمتی آرا سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔