بس! اب یہ ڈراما بند کرو اور جاکر دونوں اپنے ہاتھوں کو زحمت دو، پیاز کٹی ہوئی ہے ، قیمہ دھلا ہوا رکھا ہے ، کل رات قیمہ بنانے کی پوری ترکیب دونوں کو سمجھائی تھی ، اسی طرح سے رات کے لیے قیمہ بنالو اور یہ آلو میش کرکے رکھے ہیں ان کے کباب فرائی کرکے شام کی چائے کے ساتھ سینڈوچ بنالینا اگر ان میں چیز ملانا چاہو
عمارہ فہیم کراچی
چھٹی (اتوار) کا دن تھا ، سب گھر میں ہی موجود تھے ، مومنہ و اریبہ کے کالج کے ساتھ آج تو دوپہر کی کلاس کی چھٹی تھی اور دونوں اپنی اس مصروف روٹین کی اب تک عادی ہوچکی تھیں اس لیے چھٹی کا دن ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا ، سب کاموں سے فارغ ہوکر بھی دن تھا کہ گزرنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔
گھر کی صفائی، کچن کی صفائی وغیرہ مومنہ و اریبہ کے ذمہ تھی ، کچھ وقت سے ہر چھٹی کے دن مائیں ان دونوں کے ہاتھوں کو مزید زحمت دیتی تھیں ، اور یہ زحمت دونوں کے لیے کسی سخت امتحان سے کم نہ ہوتی تھی ۔ ”یہ دونوں لڑکیاں کہاں رہ گئیں ؟ اب تک دونوں کو اپنا کمرہ سمیٹ کر یہاں ہونا چاہیے تھا ۔“ تائی جان نے اپنی دیورانی سے پیاز کاٹتے ہوئے پوچھا ۔
”پتا نہیں بھابھی ! میں دونوں کو کہہ کر آئی تھی کہ جلدی آئیں ۔“ چچی جان نے ابلے ہوئے آلو میں باریک پیاز ، ہری مرچ، ہرا دھنیا اور باقی مسالے مکس کرتے ہوئے جواب دیا ۔ ”دونوں کی جان پر بنی ہوگی نا! آخر چھٹی کے دن کی یہ نئی ترتیب انہیں پسند کب آئی ہے ،دیکھتی نہیں ہو دونوں کے چہرے کا رنگ ایک دن پہلے ہی فق ہوجاتا ہے ۔“
تائی جان نے مزے سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
”بات تو آپ کی بالکل درست ہے ، پتا نہیں کیوں دونوں لڑکیوں نے اسے سر پر سوار کرلیا ہے ۔“ دونوں مائیں بیٹیوں کو ڈسکس کررہی تھیں اور بیٹیاں دروازے کی آڑ میں کھڑی ماؤں کے تبصرے سن رہی تھیں ۔ ”دیکھو تو ہماری ماؤں کو کیسے ہماری بے بسی پر مزے لے رہی ہیں ۔“ اریبہ نے مومنہ کے کان میں مچھر کی طرح بھنبھناہٹ کی ۔
”تم تو مچھر نہ بنو ، اور چلو اندر ایسا نہ ہو حقیقت میں مچھر بنی نظر آرہی ہو ۔“ مومنہ نے اریبہ کو گھوری دیتے کہا اور خود آگے بڑھ گئی ، تاکہ اریبہ محترمہ بھی اقتداکرلیں ورنہ ان کے تیور تو یہی باور کروارہے تھے کہ یا تو ڈانٹ کھانی ہے یا پھر چوکھٹ کی آڑ میں ہی جمے رہنا ہے ۔ ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امی جان، تائی جان ! “
مومنہ سلام کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔
”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! شکر ہے آپ کی تشریف آوری تو ہوئی اور آپ کی ہم نشین ، سہیلی و جوڑی کہاں ہیں ؟“ تائی جان نے ایک نظر مومنہ پر ڈالنے کے بعد پیاز پر دوبارہ ظلم کے پہاڑ توڑتے ہوئے سوال کیا ۔ ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امی جان ، چچی جان ! “
ماں کے منہ سے القابات کی بارش سن کر چوکھٹ کی آڑ میں بت بنی اریبہ کے پیروں کی بیڑیاں بغیر آواز کے ٹوٹ کر ایک طرف ہوئیں اور وہ تیزی سے کچن میں سلام کرتی ہوئی داخل ہوئی ۔ ”اچھا تو محترمہ چھپ کر باتیں سننے میں مصروف تھیں ۔“
مائیں کب بچیوں سے غافل ہوتی ہیں ، ماؤں کو تو اپنی بچیوں کی مسکراہٹ ، چال ڈھال ہی سب واضح کردیتی ہے ، پھر تائی جان جیسی سمجھدار خاتون کیسے کسی بات کا اندازہ نہیں کرتیں۔
”نہیں ماں ! میں تو آرہی تھی ، مومنہ جلدی جلدی چلتی ہے نا تو پہلے آگئی ، ہے نا مومنہ !“ اریبہ نے دہائی دینے والے انداز میں مومنہ کی طرف دیکھ کر جملہ مکمل کیا تو مومنہ کوچارو ناچار گردن اثبات میں ہلانی پڑی ۔
”بس بس ! اب دونوں ایک دوسرے کی طرف داری میں سارے ریکارڈ توڑنے نہ بیٹھ جانا۔“ چچی جان نے آلو اچھی طرح میش کرکے ہاتھ دھوتے ہوئے دونوں لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا ۔ ”نہیں نہیں امی جی !
نہیں نہیں چچی جان!
طرف داری اور ریکارڈ کی تو بات ہے ہی نہیں ، ہم تو بس مل جل کر رہتی ہیں ، نا اتفاقی رکھنا ، چغلی کرنا تو اچھی بات نہیں ہوتی ہے نا ! “
مومنہ و اریبہ دونوں نے ماؤں سے سیکھا سبق آج ان کے سامنے دہرانے کی کوشش کی . (بھئی ظاہر ہے ان دونوں کا ماننا تھا جس بات پر عمل کرنا ہو یا یاد رکھنی ہو اسے دہرانا شروع کردو اور اب وہ نتائج سے بے خبر اس پر عمل کررہی تھیں۔)
”اچھا جی ! اب یہ دونوں ہمیں سبق پڑھائیں گی ۔“ تائی جان و چچی جان دونوں کے منہ سے بے ساختہ ایک ساتھ ایک ہی جملہ نکلا اور جملے کا نکلنا تھا دونوں لڑکیوں کے اوسان خطا ہونے لگے کہ اب خیر نہیں ، کیونکہ ماؤں کو دیکھنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ شدید غصہ آیا ہے ، اس لیے اریبہ نے جھٹ مومنہ کا ہاتھ پکڑا اور آل تو جلال تو کا ورد شروع کردیا ( شاید اس ورد سے دونوں نظروں سے اوجھل ہونے والی تھیں)
”بس! اب یہ ڈراما بند کرو اور جاکر دونوں اپنے ہاتھوں کو زحمت دو، پیاز کٹی ہوئی ہے ، قیمہ دھلا ہوا رکھا ہے ، کل رات قیمہ بنانے کی پوری ترکیب دونوں کو سمجھائی تھی ، اسی طرح سے رات کے لیے قیمہ بنالو اور یہ آلو میش کرکے رکھے ہیں ان کے کباب فرائی کرکے شام کی چائے کے ساتھ سینڈوچ بنالینا اگر ان میں چیز ملانا چاہو تو ملا لینا باقی سب ملادیا ہے۔“
ماؤں نے دونوں لڑکیوں کے پاس آکر چٹکی بجاکر انہیں ہوش دلایا اس کے بعد آج کے کام کی ساری ترتیب سمجھائی اور کچن سے باہر نکلتے ہوئے چچی جان رکیں اور واپس دونوں لڑکیوں کے پاس آئیں ۔ ”ترکیب یاد ہے نا ؟“
”جی جی امی جاننن!.
جی جی چچی جن!.
دونوں لڑکیوں کی زبان تیزی پھسلی اور امی جان کے نون پر مد آگیا اور چچی جن ہوگئیں ، اس گڑ بڑ کا ان دونوں کو تو ادراک نہ ہوا البتہ تائی جان جو چچی جان کے واپس ہونے پر دروازے پر ہی رک گئی تھیں وہ واپس آئیں ۔ ”شاباش بچو ! لگتا ہے زبان پر اتنا تیل ڈال لیا ہے کہ وہ کب کہاں پھسلنے لگتی ہے پتا ہی نہیں لگتا ۔“ مومنہ و اریبہ ایک دم اچھلیں ۔ ”زبان ، تیل
امی جی کیا کہہ رہی ہیں ؟ کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ۔“ اریبہ نے ماں کی طرف ادب سے دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔ ”کچھ نہیں ! جاؤ دونوں کام کرو اگر کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو آکر پوچھ لینا ۔“ چچی جان نے نرمی سے کہا اور تائی جان کو لے کر کچن سے باہر چلی گئیں ۔ ”ارے بھابھی ! بچیاں ہیں بے دھیانی میں جن زبان سے نکل گیا ۔“ چچی جان نے بچیوں کی طرف داری کرتے ہوئے کہا ۔ ”جانتی ہوں کہ بے دھیانی میں نکل گیا ہے ، مگر بیٹیوں کو اتنا محتاط ہونا چاہیے کہ ان کا اپنی زبان و انداز پر کنٹرول ہو اور انہیں معلوم ہو کہ وہ کیا کررہی ہیں اور کیا کہہ رہی ہیں ، اگر وہ اس پر دھیان نہیں دیں گی اور ہم ان کو آج صحیح و غلط نہیں بتائیں گے تو ان کی غلطی و عادت پختہ ہو جائے گی اور جب ایک بار عادت پختہ ہو جائے تو اسے بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔“
تائی جان نے نرمی سے اپنی سوچ واضح کی جو واقعی ایک اچھی سوچ تھی، اور چچی جان کو بھی اس پر یقین کرنا پڑا ۔ کچن میں کھڑی اریبہ کے کان ماؤں کی باتوں کی طرف ہی تھے ، اور اپنے تیز کانوں سے وہ اب ساری بات صاف صاف سن چکی تھی اور اب وہ مومنہ کو ساری بات بتارہی تھی۔ ”اففف ! یعنی واقعی میں نے جن بول دیا تھا ، اور مجھے اندازہ بھی نہیں میں کیا بول گئی ہوں ، ماں کی بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہمیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے ، آج تو ماں کے سامنے اس طرح زبان پھسل گئی اگر خدانخواستہ کسی اور کے سامنے ایسا ہوا تو کیا ہوگا ؟ مجھے تو سوچ کر جھرجھری آرہی ہے۔“ اریبہ نے پانی پیتے ہوئے سوچ سوچ کر ایک ایک لفظ ادا کیا ۔ ”ہاں بات تو ٹھیک ہے ، پر اب جو گزر گیا اس پر لکیر پیٹنے سے بہتر ہے آگے کی فکر کرو بہن ! اور لگ جاؤ کام پر ۔“
مومنہ نے اریبہ کو سکون سے بیٹھے دیکھ کر اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کام کی طرف بھی توجہ دلائی ۔ ”ہممم ! یہ کام !
چلو کریں کام ! “
محترمہ اریبہ صاحبہ نے منہ بسور کر کہا اور میز پر رکھی پیاز کی ٹرے اٹھا کر سلپ تک لائیں۔ مومنہ نے بسم اللہ پڑھ کر سالن کی پتیلی دھوکر چولہے پر رکھی ، پتیلی گرم ہونے پر اس میں حسب ضرورت تیل ڈال کر گرم کیا اور پھر پیاز ڈال کر فرائی کرنے لگی ۔
” اریبہ! تمہیں کچھ یاد ہے ماں نے کون کون سے مصالحہ کہے تھے ؟“ مومنہ نے مسالاجات کے جار دیکھتے ہوئے اریبہ سے سوال کیا ۔ ”ہاں کیوں نہیں یاد ، کیا تم نے مجھے اپنی طرح بھلکڑ سمجھ لیا ہے ، لو نکالو مسالے میں بتاتی ہوں ۔“ اریبہ محترمہ گلا کھنکار کر نام بتانے کے لیے تیار تھیں ۔ ”رک جاؤ میڈم! یہاں آؤ اور خود مسالے نکالو ذرا میں بھی تو دیکھوں کہ آپ کتنی عقل مند مخلوق ہیں ۔“ مومنہ نے مسالے کے باکس واپس سلپ پر رکھتے ہوئے اریبہ کو اس کام کے لیے زحمت دی ۔ ”لاؤ نکال دوں گی سب! جب نام بتاسکتی ہوں تو نکال کر بھی دے سکتی ہوں ، خود تو کام چور ہیں دوسروں کو بھی نکما سمجھتی ہیں ۔“
اریبہ نے ایک بار پھر منہ بسور کر کہا اور مسالے کے ڈبے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی کہ آیا کون سا مسالا کس ڈبے میں ہے اور کیسا ہوتا ہے ، جس پر مومنہ کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تھا ۔ ” رہنے دو بہن! میں خود کر لوں گی ، تمہارے ہاتھ میں کچھ دیر اور یہ باکس رہے تو سارے مسالا زمین پر سجے نظر آئیں گے ۔“
مومنہ نے اریبہ کے ہاتھ سے مسالوں کے ڈبے لیتے ہوئے کہا اور ایک سوکھی پلیٹ پر پسی لال مرچ، ثابت گرم مسالا، نمک، ثابت زیرہ، نکال کر تمام ڈبے سلپ پر ہی رکھ دیے ، دوسری طرف اریبہ نے پیاز میں قیمہ ڈال کر ہلکا سا فرائی کیا اور لہسن ادرک کا پیسٹ ڈال کر اچھی طرح پکایا ، پھر مومنہ نے پلیٹ پر نکالے ہوئے مسالے ڈال کر مکس کیا اور ٹماٹر ڈال کر قیمہ پکنے کے لیے رکھ دیا ، دوسرے چولہے پر اریبہ نے چائے چڑھائی، پھر دونوں نے بیٹھ کر کباب کی ٹکیاں بنائیں ، فرج سے ضرورت کے مطابق چیز نکال کر پیالے میں رکھی ۔ چائے تیار ہونے پر ایک طرف رکھ کر کباب فرائی کیے، بریڈ پر چٹنیاں، کباب، چیز ڈال کر اوپر سے دوسرا بریڈ پیس رکھ کر اوون ٹرے میں فاصلے فاصلے سے سارے سینڈوچ رکھے اور کچھ دیر کے لیے اوون میں رکھ دیا تاکہ چیز میلٹ ہوجائے ۔
مومنہ نے تمام سینڈوچ نکال کر کٹ کیے سلاد و چٹنی کے ساتھ ایک ٹرے میں سرو کیے اور اریبہ نے چائے کپ میں نکالی اور بیٹھک میں دے آئی ۔
قیمہ بھوننے کے قریب تھا تو آلو ڈال کر اچھی طرح بھون کر اس میں تھوڑا پانی ڈال کر ابال آنے پر دم پر رکھ دیا تاکہ آلو گل جائیں ۔
اور پھر کچن میں ہی مومنہ و اریبہ نے ساتھ چائے پی اتنے میں مائیں چائے کے برتن لے آئیں۔ ”یہ کچن کا کیا حال کر رکھا ہے ۔؟“
سلپ پر پلیٹ میں ٹماٹر، آلو کے چھلکے ، ہرا دھنیا ، سلاد بناتے ہوئے پھیلایا گیا سامان ، سالن کے دو دو چمچ سلپ پر رکھے تیل کا نشان بنا چکے تھے ، چولہے پر بھی تیل اور چائے وغیرہ کے اثرات نظر آرہے تھے ۔ ”وہ ! ہم بس ابھی سب چیزیں صاف کرہی رہی تھیں ، بس چائے ٹھنڈی ہوجاتی اس لیے چائے پی لی۔“ اریبہ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کھوکھلی سی دلیل دی ۔ ”میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سمیٹا کیوں نہیں ، میں یہ پوچھ رہی ہوں دو دو لڑکیاں کچن میں کام کررہی ہیں اور اس کے باوجود کچن کا یہ حال بنا ہوا ہے ۔“
چچی جان نے ارد گرد اشارہ کیا ۔
اب لڑکیوں کے پاس جواب نہیں تھا کہ آخر ماں کو کیا بتایا جائے ، بس معذرت کرکے جلدی جلدی ساری چیزیں سمیٹنا شروع کردیں ۔
”رکو ! “
تائی جان کچن کی حالت دیکھ کر گردن نفی میں ہلاتی ہوئی چلی گئی تھیں اور چچی جان وہیں رک کر سب دیکھ رہی تھیں ، جب دونوں نے تیزی سے سب سمیٹنا شروع کیا تو کبھی کچھ اِدھر گر رہا تھا تو کبھی کچھ اُدھر اور کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہورہا تھا اس لیے چچی جان کو بالآخر ایک بار پھر دونوں کو متوجہ کرنا پڑا ، ماں کی آواز پر دونوں کے ہاتھ تیزی سے رکے ۔
”جس طرح ہَپڑ دَھپڑ ( جلد بازی ) میں کررہی ہو نا ! اس طرح کوئی بھی کام نہ تو ٹھیک وقت پر ہوگا اور نہ صحیح انداز میں ، اس لیے یاد رکھو ہر کام اطمینان و سکون سے کرنا چاہیے ، ہاں یہ بھی یاد رہے کہ اطمینان کا مطلب سستی نہیں ہوتی۔ ماں مومنہ و اریبہ کے رکتے ہی آگے بڑھیں ۔
”جب بھی ہم کوئی کررہے ہوں تو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ ہر چیز ساتھ ساتھ سمیٹتے رہنا چاہیے ، اس طرح ایک ساتھ دو کام ہوجاتے ہیں ایک چیزیں پھیلتی نہیں ہیں دوسرا کام بھی ہوجاتا ہے ، جیسے اگر پیاز کاٹ کر تیل میں ڈالی ہے تو جب تک پیاز ہوگی تب تک پیاز کا چھلکا کوڑے دان میں ڈال دیا، ٹماٹر کاٹ کر صاف کرکے دھولیے اور مصالحے نکال لیے پیاز ہوگئی تو باقی کام کرلیا ۔“
ماں بات کرتی جارہی تھیں اور سلپ اور ارد گرد بکھرا سامان سمیٹتی جارہی تھیں ، اور بات ختم ہونے تک کچن سلپ اور چولہے کا حصہ بالکل صاف ستھرا ہوچکا تھا ۔
”سینک میں برتن رہ گئے ہیں وہ دھوکر فرش صاف کرلینا ۔“
ماں نے سب سے فارغ ہوکر دونوں کی حیرت زدہ شکلیں دیکھ کر مسکرا کر کہا اور باہر چلی گئیں، پیچھے مومنہ و اریبہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اس عہد کے ساتھ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئیں کہ اب سے ہر کام وقت پر اور ترتیب کے ساتھ اطمینان وسکون سے کریں گی ۔