وقت نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ بڑوں کی  خوشی اور رب کی رضا میں راضی ہونے والے کبھی شرمندہ نہیں ہوتے کہ بے شک اللہ کے فیصلے ہماری خواہشوں سے بہتر ہوتے ہیں

 آمنہ نور

 السلام علیکم خالہ !!!

انعم نے چائے کی ٹرے تپائی پر رکھتے ہوئے رابعہ خالہ کو سلام کیا۔

اسے کہیں دور ہوجائے میری نظروں سے، اس کو دیکھ کر میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ سائرہ انعم کو دیکھ کر چلائی۔

انعم روتے ہوئے وہاں سے بھاگی۔

رابعہ باجی کو انعم پر ترس آیا۔

بس کرو سائرہ ! اس سب میں اس معصوم  بچی کا کیا قصور ہے؟

رہنے دیں باجی!! اس منحوس کی وجہ سے آج میرا بیٹا اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔میرے اختیار میں ہوتا تو میں اس کو دھکے دے کر اس گھر سے نکال باہر کرتی۔یہ تو جاوید نے  واسطے، قسمیں دیے کہ عدت کی مدت گزرنے تک اسے یہاں رہنے دو۔ ورنہ میں تو ایک لمحہ بھی اس کی نحوست کا سایہ اپنے گھر میں برداشت نہ کرتی۔سائرہ نے نخوت سے کہا۔

رابعہ باجی کو اپنی بہن کی جہالت بھری سوچ پر  افسوس ہوا۔۔۔۔۔۔

                       ****

جاوید اور سائرہ کے تین بچے تھے۔ ایک بیٹی فریحہ اور دو بیٹے بابر اور باذل، فریحہ کی شادی رابعہ خالہ کے بیٹے بلال سے ہوئی تھی بلال چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ اور بابر کےلیے جاوید صاحب نے اپنے دوست خالد رضا کی بیٹی انعم کو پسند کیا تھا۔ انعم اور فائزہ دو بہنیں تھیں۔ فائزہ شادی شدہ تھی اور اپنے میاں کے ساتھ کینیڈا میں مقیم تھی۔انعم کی والدہ نزہت چند سال قبل اس دار فانی سے کوچ کر گئی تھی۔ سائرہ انعم سے بہت محبت کرتی تھی۔وہ اس کو بہت چاہت اور محبت سے اپنی بہو بناکر  لائیں تھی۔مگر شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔۔۔۔۔

                         *****

 بابر اور انعم کی شادی کو ابھی ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن  بابر انعم کے کہنے پر اس کو آئسکریم کھلانے لے گیا۔

انعم ! تم گاڑی اندر سے لاک کرلو میں آئسکریم لے کر آتا ہوں۔بابر انعم کو ہدایات دے کر گاڑی سے اتر گیا ۔

کچھ دیر بعد بابر ہاتھ میں آئسکریم اٹھائے باہر آتا دکھائی دیا۔ انعم نے گاڑی کا لاک اس کےلیے کھولا ہی تھا کہ بابر کو روڈ کی جانب بھاگتے دیکھا۔ انعم نے اس کے تعاقب میں نظریں دوڑائی تو روڈ پر ایک چھوٹی بچی کھڑی دکھائی دی اور سامنے سے ٹرک آرہا تھا ۔ بابر نے آئسکریم پھینکی اور بچی کو بچانے کے لیے بھاگا۔ اس نے بچی کو دھکادیا اور خود تیز رفتار ٹرک کا نشانہ بن گیا۔

انعم پتھرائی آنکھوں سے اپنے جیون ساتھی کو خون میں لت پت دیکھ رہی تھی۔ ٹرک ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے بابر کو ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا۔ انعم نے کس طرح گھر والوں کو اطلاع دی۔وہ کیسے گھر پہنچی اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ بس زندگی جیسے اس ایک مقام پر رک سی گئی تھی۔۔۔۔

                      *****

سائرہ کا رویہ انعم کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جارہا تھا۔ اس نے ہمیشہ ان کی محبت سمیٹی تھی۔ اور آج جب اسے ان کی محبت بھری آغوش کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا تھا۔ بابر کو گئے تین ماہ گزر چکے تھے ۔ انعم کےلیے یہ سوچ ہی تکلیف دہ تھی کہ اسے ہمیشہ کےلیے یہ گھر چھوڑ کر جانا ہوگا، جس گھر سے بابر کی بہت ساری  یادیں وابستہ تھیں ۔۔۔۔۔۔

                       *****

بالوں کا حشر ہوگیا ہے، تم لوگ فیشن کے چکر میں تیل سے دور بھاگتے ہو، اب دیکھو ذرا بالوں کو کتنے خشک اور بےرونق ہو گئے ہیں ۔

آج باذل گھر کی ویرانی سے گھبرا کر ماں کو کمرے سے باہر لے کر آیا، اور وہ جو سر میں تیل ڈالنے سے دور بھاگتا تھا۔ تیل کی شیشی ان کے ہاتھ میں دے کر خود ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

سائرہ لاؤنج میں بیٹھی باذل کے سر میں مالش کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اس کی اپنی طرف سے لاپروائی پر ڈانٹ بھی رہی تھیں۔کہ اتنے میں انعم وہاں آئی۔

امی!! رات کو کھانے میں کیا بناؤں ؟

انعم کو دیکھ کر سائرہ کے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی۔کتنی دفعہ کہا ہے کہ اپنی منحوس شکل میرے سامنے مت لایا کرو۔ کس ڈھیٹ مٹی کی بنی ہو تم ،میرا ایک بیٹا تو پہلے ہی کھاگئی، اب کیا دوسرے کو بھی مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو ؟ سائرہ چنگھاڑتے ہوئے بولی۔

اللہ نہ کرے امی ! آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں،   آپ کیوں مجھ سے اتنی بدگمان ہیں ؟ انعم نے روتے ہوئے پوچھا۔

تمہاری وجہ سے آج میرا جوان بیٹا مٹی تلے دفن ہے۔ اور تم پوچھ رہی ہو کہ میں بدگمان کیوں ہوں۔اب جاؤ یہاں سے میرے سر پر کیوں کھڑی ہو ۔ انہوں نے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔

باذل کو اپنی ماں کے رویے  پر بہت دکھ ہوا ۔

امی !! پلیز کیا ہوگیا ہے آپ کو؟  جیسے بھائی سے آپ کا رشتہ تھا، ویسے ہی بھابھی کےلیے بھی وہ اہم تھے ۔ اگر آپ اس مشکل وقت میں ان کا دکھ نہیں بانٹ سکتیں تو کم از کم ان کی دل آزاری کا سبب تو نہ بنیں۔ باذل نے ماں کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔

ہنہہ!!! ایک میں ہی بری ہوں زہر لادو مجھے جان چھوٹ جائے گی تم سب کی مجھ سے۔ سائرہ غصے سے کہہ کر اپنے کمرے میں پھر سے بند ہوگئں۔

 اففف!!!   باذل سر پکڑ کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔

                       ****

رابعہ جب سے سائرہ سے مل کر آئی تھی تو اس کے لئے بہت پریشان تھی ۔

 امی !! کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے؟رابعہ کی سب سے چھوٹی بیٹی ماہین نے نوٹ کیا تھا کہ رابعہ جب سے خالہ کے گھر سے آئی ہیں، کافی چپ چپ سی ہیں۔

انہوں نے ماہین سے بہن کے انعم کے ساتھ برتاؤ کا ذکر کیا تو اس نے کہا۔

امی !! جمعہ کے دن نماز کے بعد ہمارے مدرسے میں (حفظ) قرآن پاک کا ختم ہے۔ (جہاں ماہین عالمہ کا کورس کر رہی تھی)۔آپ  خالہ کو گھر بلائیں۔میں انہیں آمین میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔میں معلمہ سعدیہ سے بات کروں گی۔کہ وہ دعا سے پہلے اس ٹاپک پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےاحکام پر بیان کریں۔۔۔

وہ تو ٹھیک ہے بیٹا!! مگر سائرہ۔" رابعہ تذبذب کا شکار ہوئی۔

 امی ان کی زبان میں اللہ پاک نے بڑی تاثیر رکھی ہے۔ ان شاءاللہ خالہ پر ان کا بیان ضرور اثر کرے گا۔ اور پھر یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ اللہ کے کاموں پر ، اس کے بنائے ہوئے دنوں یا مہینوں پر  اور یہاں تک کہ انسانوں پر بھی نحوست کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ اور اپنی سوچ کے مطابق ساری زندگی بے خبری اور گمراہی میں گزار دیتے ہیں۔ ماہین نے رابعہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے میں فریحہ سے کہتی ہوں بلال سے کہہ دے کہ کل دفتر سے واپسی پر سائرہ کو ساتھ لیتا آئے ۔رابعہ نے مسکراتے ہوئے حامی بھری۔

                          ****

فریحہ!!! تم نے بلال سے کہا تھا کہ وہ سائرہ کو لائے اپنے ساتھ ؟ رابعہ نے کچن میں کام کرتی فریحہ سے دریافت کیا۔

جی خالہ!! بلال آج شام کو واپسی میں امی کو لیتے آئیں گے۔ میں نے امی سے بھی بات کرلی تھی کہ وہ تیار رہیں۔فریحہ نے کہا تو وہ اطمینان سے سر ہلاتے ہوئے کام میں اس کی مدد کرنے لگیں۔

                         ****

الحمدللہ!! آج ہماری چھ بچیوں کی حفظ قرآن کی آمین ہے ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان سب کی محنت کو قبول فرمائے اور انہیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ( آمین )

اب معلمہ سعدیہ بیان شروع کریں گی۔ ناظمہ باجی نے مائیک ان کی طرف بڑھایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سب سے پہلے تو میں ان سب بچیوں اور ان کے والدین کو مبارکباد دوں گی۔ جن کے اعزاز میں یہ خوبصورت تقریب آج ہو رہی ہے۔

 آج ہم بات کریں گے دین اسلام کے بنیادی عقائد کے بارے میں ۔ جنہیں ماننا ہم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔   

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ۔ اما بعد فاعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

امنت باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالٰی والبعث بعد الموت۔

پیاری بہنوں!!ہمیں بچپن میں یہ سبق سکھایا جاتا ہے۔اور وہ وقت تو ناسمجھی کا ہوتا ہے

 تب ہمیں ان الفاظ کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا، مگر افسوس" ہم سمجھ آنے پر بھی نا سمجھ ہی رہتے ہیں۔

      والقدر خیرہ و شرہ من اللہ تعالٰی

ایمان بالقدر اسلام کا بہت اہم اور حساس عقیدہ ہے۔یہ وہ عقیدہ ہے جس پر زیادہ بحث کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ عقیدہ تقدیر ایمان کی تکمیل کیلئے ہمیں اسے ماننا اور سمجھنا بھی پڑے گا۔انسان کے تمام اعمال اور افعال اللہ کی طرف سے پہلے طے کردہ ہے۔انسان کو زندگی میں کتنی راحتیں کتنی اولاد اور  جتنے بھی فیصلے ہیں وہ کائنات کو بنانے سے پہلے لوح محفوظ میں درج کر لئے گئے تھے۔قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان بعض کاموں اور اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں خود مختار ۔انسان مجبور ایسا ہے کہ اللہ کی طرف سے بیماری یا موت آگئی تو انسان مجبور ہے۔ اور خود مختار ایسا ہے کہ اللہ نے ہمیں کھانے پینے کی چیزیں دی اور اس میں ہمیں اختیار دےدیا کہ چاہے تو حلال کھاو چاہے تو حرام کھاو ۔ اللہ نے ہمیں کہیں مجبور کر دیا اور کہیں مختار۔اور جن کاموں میں اللہ نے ہمیں آزادی دی ہے آخرت میں اس کا حساب کتاب ہوگا۔

 اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا تو انہوں نے اس کا بہت آسان جواب دیا کہ اپنا ایک پاؤں زمین سے اٹھاو اس شخص نے اٹھالیا پھر فرمایا دوسرا بھی اٹھاو اس نے کہا نہیں اٹھاسکتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ انسان کے پاس ایک وقت میں صرف ایک پاؤں اٹھانے کا اختیار ہے۔ اور یہی انسان کی قسمت اور نصیب ہے۔تقدیر کی دو اقسام ہیں۔ایک اللہ کا وہ فیصلہ جو آخری ہے جو اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔دوسری قسم عام حالات میں اللہ پاک نے طے کی ہوتی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ (دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔) ہم نے اکثر سنا ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے، مگر( دعا سے ہر تقدیر نہیں بدلتی)۔یعنی اللہ نے انسان کی موت کا وقت لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے تو یہ دعا سے نہیں بدلتی ہے۔انسان اپنی موت کے آگے بے بس ہے بیماری،چوٹ یا حادثہ تو صرف بہانہ بنتا ہے۔ورنہ اگر زندگی ہو تو انسان بڑی سے بڑی تکلیف سے بھی نکل جاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ مخصوص مسائل یا مصیبت ہو تو اس کو دعا سے ٹالا جاسکتا ہے۔اور تقدیر کی ایک قسم میں اللہ فیصلہ انسان کے اعمال پر چھوڑ دیتا ہے کہ اگر اس نے والدین کی خدمت کی تو میں اس کا مال بڑھا دونگا ورنہ نہیں۔اسی طرح صدقہ خیرات بلاوں کو ٹالتا ہے اور اللہ کے غضب سے بچاتا ہے۔ شریعت نے ہمیں تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے اس لیے منع کیا ہے۔کیونکہ اس کو ہم اپنی عقل اور فکر سے کبھی نہیں سمجھ سکتے۔۔۔۔۔۔۔

۔ آئیں آج ہم دل سے اپنے رب کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ عہد کرتے ہیں کہ اب ہم ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے کہ جس کی وجہ سے کل قیامت کے دن اپنے رب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔  سب مل کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں۔  معلمہ سعدیہ نے تفصیلی دعا کی ۔دعا کے بعد مٹھائیاں بانٹی گئی۔

سائرہ کی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی۔اپنے آپ پر افسوس ہوا، کیا وہ اتنی خودغرض ہوگئی تھیں کہ اچھے برے کی تمیز ہی بھول گئی تھی۔

انعم کا معصوم چہرہ نگاہوں کے سامنے آیا ۔ تو خود سے نظریں نہ ملا سکیں۔ بابر اگر اس دنیا سے گیا تھا تو اس کی زندگی اتنی ہی تھی۔  انہوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے اپنے رب سے معافی مانگی۔ اب اس سے معافی مانگنی تھی جس کا دل انہوں نے اپنی زبان کے تیروں سے زخمی کیا تھا۔

                         ****

 یااللہ !!!  میں گزرا وقت تو نہیں لاسکتی ہوں مگر میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اس کی زندگی میں خوشیاں لانے کی پوری کوشش کروں گی۔(اور کیسے؟ یہ انہوں نے سوچ لیا تھا۔)  اگر وہ مان جائے تو میں سمجھوں گی کہ تو نے مجھے معاف کردیا ہے۔ بے شک تو اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔ سائرہ مدرسے سے آنے کے بعد سے روئے جارہی تھی۔بس اب انہیں واپس اپنے گھر جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

                      ****

چلیں امی !! بابا کہہ رہے تھے کہ آج شاید خالد انکل بھابھی کو لینے آئیں گے۔ باذل نے سائرہ کا چھوٹا سا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔

ہاں چلو بیٹا!!! اچھا باجی میں چلتی ہوں۔ فریحہ میری چادر لادو بیٹا ۔ باجی میری طرف سے ماہین کا خصوصی شکریہ ادا کرنا جو کل مجھے اپنے ساتھ مدرسے لے کر گئی۔ورنہ میں تو ساری زندگی اندھیرے میں گزار دیتی۔ سائرہ نے فریحہ سے چادر لے کر اوڑھی۔

سائرہ!! کچھ دن رک جاتی یہاں۔ رابعہ نے سائرہ کو روکنے کی کوشش کی۔

 رابعہ باجی!! میں رکنے ہی آئی تھی مگر اب۔۔۔۔۔ میں دیر نہیں کرنا چاہتی۔ اگر غلطی وقت پر نہ سدھاری جائے تو عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتی ہے ۔میں پھر آؤں گی ا ن شاءاللہ خوشخبری لےکر بس آپ دعا کیجئے گا ۔ سائرہ غمزدہ لہجے میں بولی۔

انشاءاللہ میری بہن !! سب ٹھیک ہو جائے گا۔

 خالہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں امی!!  آپ پریشان نہ ہوں۔ فریحہ نے ماں کو حوصلہ دیا ۔وہ ان دونوں سے مل کر باہر نکل گئیں۔

                            ****

انعم اپنا بیگ پیک کر چکی تھی۔ آج اس نے اس گھر سے ہمیشہ کےلیے چلے جانا تھا۔اس نے عصر کی نماز ادا کرکے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے ۔ یااللہ!!! میرے دل کو صبر عطا فرما۔ بابر کو جنت میں اعلی مقام عطا فرما دے۔اے  پروردگار ! امی بھی مجھ سے ناراض ہیں۔آپ ان کا دل میرے لیے نرم کردے۔ میرے مالک ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمادے۔( آمین ثم آمین۔ )

                        *****

خالد رضا اور جاوید صاحب باہر لان میں چائے پی رہے تھے۔ انعم سر جھکائے اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ سائرہ کے دل کو کچھ ہوا۔ ان کی آنکھوں سے نفرت کی پٹی اتری تو دل خود بخود ہلکا پھلکا ہوگیا ۔

السلام علیکم! باذل اور سائرہ نے گھر میں داخل ہوکر سب کو مشترکہ سلام کیا۔باذل اندر چلا گیا۔اور سائرہ ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔

وعلیکم السلام !  اچھا ہوا بھابھی آپ آگئیں۔ میں انعم کو لینے آیا ہوں۔ اب ہمیں اجازت دیں۔ خالد رضا نے سائرہ سے کہا۔

ارے بھائی صاحب!! بیٹھے ناں ابھی تو ہم آئے ہیں۔ مجھے آپ سب سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ سائرہ نے درخواست کی۔

جاوید نے چونک کر بیوی کو دیکھا۔

جی جی بھابھی!! فرمائیں۔

دراصل آپ جانتے ہیں کہ انعم کو میں بہو نہیں بیٹی بناکر لائی تھی۔ مگر بابر کے جانے کے بعد جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت تھی تو میں۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی۔میں بہت شرمندہ ہوں انعم مجھے معاف کردو بیٹا۔ انہوں نے انعم کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔

انعم تڑپ کر ان کے پاس آئی اور ان کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو چومتے ہوئے بولی۔ پلیز امی مجھے گناہ گار نہ کریں۔ آپ کو مجھ پر پورا حق

حاصل ہے۔مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ بس مجھے میری پیاری امی واپس لوٹادیں۔

ہاں ضرور مگر میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اگر آپ سب کو کوئی اعتراض نہ ہو تو؟ سائرہ نے جھجھکتے ہوئے سب سے سوال کیا۔

کیسا فیصلہ؟ جاوید نے سائرہ سے پوچھا۔

میں نے راستے میں باذل سے بات کرلی ہے اور اس نے انعم کے ہاتھ میں فیصلے کا حق دیا ہے۔

بھائی صاحب !! میں انعم کےلیے ایک بار پھر آپ کے آگے جھولی پھیلاتی ہوں۔ انعم کو میرے باذل کے لیے دے دیں۔میرے گھر کی رونق مجھے واپس لوٹادیں۔

 سائرہ کی بات پر انعم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔نہیں یہ کسی بھی طرح میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ باذل میرے لیے بھائیوں جیسا ہے۔میرے لیے بابر کے سوا کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔ انعم روتے ہوئے بولی۔

بیٹا!! بھائیوں جیسا ہے بھائی نہیں ہے۔ جاوید صاحب نے بھی سمجھانے کی کوشش کی۔ان کو سائرہ کے فیصلے سے بہت خوشی ہوئی تھی۔

انعم بنا جواب دیئے اپنا سامان اٹھانے اندر چلی گئی۔

                           ***

انعم!! بیٹا کہیں تو تم نے شادی کرنی ہے۔ پھر باذل کیوں نہیں؟ اگر میری جگہ نزہت ہوتی تو کیا تم ان کی بات بھی نہیں مانتی۔ سائرہ پچھلے سات ماہ میں کوئی بیس چکر لگا چکی تھی ۔

امی !!آپ جانتی ہیں میں نے آپ کو کبھی مما سے الگ نہیں سمجھا ہے۔ آپ میری مما کی جگہ ہی ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں آپ کی یہ بات نہیں مان سکتی ہوں۔

ٹھیک ہے بیٹا!! میرے لیے تمہاری خوشی اہم ہے۔ تم نے شاید مجھے ابھی تک دل سے معاف نہیں کیا ۔ سائرہ نے تھکے لہجے میں کہا ۔

امی !! آپ ایسے تو نہ کہیں۔ میں سب بھول چکی ہوں۔ ٹھیک ہے اگر آپ سب کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

انعم ہار مانتے ہوئے بولی۔

کیا واقعی!! اوہ میرے اللہ ! تیرا شکر ہے۔ انعم میری بچی ! تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ تم نے مجھے کتنی بڑی خوشخبری سنائی ہے۔ میں ابھی سب کو بتاکر آتی ہوں۔اور پھر میں نے اللہ کا شکر بھی تو ادا کرنا ہے۔ کہ اس رب کریم نے مجھ گناہ گار کو معاف کرکے تمہارا دل اس فیصلے کےلیے راضی کردیا ہے ۔ انہوں نے خوشی سے اس کا ماتھا چوما

                            ***

انعم! مجھے خوشی ہے کہ تم نے وقت پر بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ان شاءاللہ باذل تمہارے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔ جو لوگ اپنے رب کی رضا کے آگے سر جھکادیتے ہیں۔ وہ پاک ذات اپنے بندے کو اس کی سوچ سے بڑھ کر عطا کرتا ہے۔اور میری بیٹی تو بہت بہادر ، فرمانبردار اور دوسروں کی خوشی میں خوش ہونے والی ہے۔مجھے فخر ہے کہ میں اتنی اچھی بیٹی کا باپ ہوں۔ خالد رضا انعم کی ہاں کے بعد مطمئن ہوگئے تھے۔

انعم کا دل چاہا کہ باپ سے لپٹ کر خوب روئے۔ مگر اس نے ان کی خوشی کے آگے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ بابا!! مجھے آپ کی بہت ساری دعاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔

 یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے بھلا۔ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ خالد رضا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔۔۔۔۔۔

                         ****

بابر مجھے معاف کردیں۔ میں گھر والوں کی خوشی کے آگے مجبور ہوگئی تھی۔ آج باذل کے ساتھ میرا نکاح ہے ۔انعم نے نم آنکھوں سے بابر کی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔

یااللہ!! اگر یہ آپ کی رضا ہے۔ تو میں بھی آپ کی رضا میں راضی ہوں۔آپ ہی میرے دل کو سکون عطا فرمائے۔ میرے مالک!! میں باذل کے ساتھ نئے رشتے میں بندھنے جارہی ہوں۔ مجھے خلوص دل سے اس رشتے کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین۔)

                        ****

 اور وقت نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ بڑوں کی  خوشی اور رب کی رضا میں راضی ہونے والے کبھی شرمندہ نہیں ہوتے کہ بے شک اللہ کے فیصلے ہماری خواہشوں سے بہتر ہوتے ہیں ۔

                      ******

(ختم شد)