آئیں دوسروں کی زندگی آسان بنائیں، خوش رہیں اور دکھ درد بانٹیں۔

اندھیروں کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کی شمع جلا ئیں

مہوش کرن
”کیا ہوا بھئی! کیا آج کچھ کھانے کو نہیں ملے گا، اتنی شدید بھوک لگ رہی ہے۔“ بولتے پوچھتے وہ خود ہی کچن میں چلی آئی۔ کچن تو خالی تھا مگر چولہے پر چڑھی دیگچی، دھواں اور خوشبو پھیلا رہی تھی۔

 

”اونہہ“ ناک پر دوپٹا رکھتی وہ وہاں سے بھاگی۔

کمرے میں جھانکا تو وہ کھڑکی کے ساتھ آرام دہ کرسی پر بیٹھیں، چشمہ لگائے موبائل دیکھ رہی تھیں۔

 

”یا اللہ! ایک تو آپ اور آپ کا موبائل، جب سے آپ نے ہم نشیں ڈاٹ کام ویب سائٹ کا سنا ہے تب سے کبھی بیٹھی مسکرا رہی ہوتی ہیں یا کبھی سنجیدگی سے غور کر رہی ہوتی ہیں۔ میرے لیے تو آپ کے پاس وقت بچا ہی نہیں اب۔“

 

”چلو زیادہ باتیں نہ بناؤ، میرا تو سارا وقت ہی تمھارا ہے، چاہ کے بھی کہیں آنا جانا نہیں کرسکتی کہ کچھ دیر تم دونوں کو اکیلے چھوڑ دوں۔ سارا وقت تم لوگ میرے سر پر سوار رہتے ہو۔“

 

”بس جی، نیکی کر دریا میں ڈال۔“

 

”اے نیک پروین بی بی! پہلے یہ بتاؤ کہ کچھ کھایا پیا بھی یا نہیں؟“

 

”کیا کھاؤں گی بھلا، لے دے کے وہی مونگ کی دال، آپ نے چڑھا تو دی ہے۔“

 

”مگر وہ تو ابھی رکھی ہے دوپہر کے لیے، اس وقت تو تم کھجور کھاؤ نا.“

 

”ہاں جی گئی تھی کچن میں کھجور کھانے کے لیے لیکن ابلتی دال کی بو سے وہاں کھڑا رہنا دو بھر ہوگیا تو بھاگ آئی۔ پھر آپ بھی وہاں نہیں تھیں۔ آپ بھی نا، کچھ اور پکا لیتیں، پھر وہی مونگ کی پتلی دال۔۔۔“

 

”محترمہ  کہہ تو یوں رہی ہیں  جیسے مرغ مسلم پکا دوں گی تو یہ کھالیں گی۔ کچھ بھی پکاؤں، تم تو اپنا کلیجہ تک الٹتی پھرتی ہو، ایک دال چاول کھا کر یا خالی دال پی کر ہی کچھ دیر ٹکتی ہو۔“

 

”ہاں جی، میری طبیعت ٹھیک ہوتی نا تو خود ہی اپنے لیے مزے دار سا مرغ مسلم پکا لیتی۔“

 

”اللّٰہ نے چاہا تو وہ دن بھی آئیں گے، ابھی کچھ عرصہ مجبوری ہے، صبر اور دعا کا وقت ہے، اس وقت تو تم ہر دکھیارے کے لیے، خاندان بھر کے لیے، رہتی دنیا تک اپنی آل اولاد اور نسل کے لیے، کشادگئ رزق کے لیے، تمام فوت شدگان، تمام مصیبت زدگان، عالم اسلام اور ان پر چھائی مایوسیوں، اپنے ملک اور حکمرانوں کے لیے،

ہدایت و صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے دعائیں کرو۔

اللّٰہ تعالٰی ضرور سنیں گے۔“

 

”مگر امی جان میں سوچتی ہوں کہ بس اس طرح دعائیں کرتی کتنی نسلیں گزر گئیں اور گزرتی جائیں گی، آخر آپ لوگوں نے بھی تو کی اور اب تک کر رہے ہیں۔

پھر ،،، ہوا تو کچھ بھی نہیں؟“

 

”بس یہی تو بات ہے کہ انسان اپنا کام کرتا رہے، اپنے اوپر عائد ذمہ داریاں پوری کرے، نہ کہ ساری زندگی آس پاس کی ہر چیز اور نظام کی بس شکایتیں کرتا رہے اور سارا زہر اپنے بچوں اور گھر والوں میں انڈیل کر خالی ہاتھ رخصت ہو جائے وہ کہتے ہیں نا کہ

 

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے !

تاکہ آخرت میں حجت تمام کر سکیں۔“

 

”جی یہ بھی ٹھیک کہا، واہ جناب، کیا کہنے۔“

 

”تم نے ہم نشیں پہ کہانیاں  پڑھیں؟“

 

”جی امی جان، رات کو اِن کے ساتھ لیپ ٹاپ پر اونچی آواز میں پڑھتی ہوں تاکہ یہ بھی سن سکیں، وہ ننھی جان بھی دینی ادب سے جڑ جائے اور موبائل کے مضر اثرات سے ہم دونوں بچ سکیں۔ ویسے ہر ایک تحریر و سلسلہ ہی قابلِ تعریف اور تربیتی ہے۔ چاہے عورت کی تربیت کسی بھی حوالے سے ہو میں نے تو بہت کچھ سیکھا۔“

 

”سبحان اللّٰہ! کیا زبردست عمل کر رہی ہو اور کیا اچھی بات کہی، تم نے تو دل خوش کر دیا۔“

 

”شکریہ امی جان.“

 

”چلو اسی بات پر میں تمھیں کھجور اور چیکو کا  مزے دار شیک بنا کر دیتی ہوں۔ کم از کم پیتے ہوئے تو دل کو راحت ملے گی۔ کیا عجیب حالت اور شکل ہوگئی ہے تمھاری، بس کوشش کرو خوش رہنے کی، کوئی دیکھ کر کہے گا پتا نہیں ساس کتنا ظلم کرتی ہیں، ایک تو بہو بن ماں کی بچی ہے اور ایسے میں ساس کھانے کو نہیں پوچھتی۔“

 

”ارے چھوڑیں امی! لوگوں کا کیا ہے، بے کار بولتے ہیں، ایسے لوگوں کا تو منہ توڑ دینا چاہیئے۔

اب اگر ان دنوں خون کی کمی ہو گئی ہے، کھایا پیا نہیں جارہا، تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں خوش نہیں ہوں۔ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میں کس قدر خوش اور مطمئن ہوں، اب یہ نقاہت تو شکل پر ہی آئے گی نا.“

 

”واہ وا، کیا کہنے،،، انڈا توڑنے کی تو طاقت نظر نہیں آرہی جناب میں اور لوگوں کا منہ توڑیں گی، اگر یہ عزائم ہیں تو پہلے ہی بتا دو، میں کچھ نہیں کھلاؤں گی۔“

 

”وہ تو آپ پہلے ہی نہیں کھلا رہیں، بس مزے مزے کی چیزوں کے نام لے لے کر ترسا رہی ہیں۔“

 

”تم ہی تو باتوں میں لگا رہی ہو۔“

 

”حد ہوتی ہے امی، ایک معصوم سی بہو مل گئی ہے، اس پر کچھ تو ترس کھائیں۔“

 

”ارے ہم تو اپنا سوچ رہے ہیں کہ تم تو بھاگ بھاگ کر ایک ساتھ سارا کام کرتی جاتی تھیں، اب کون کرے گا؟“

 

”اوہو پریشانی کی کیا بات ہے، بس تھوڑے دنوں میں پھر سے ہشاش بشاش اور چست ہو جاؤں گی، ان شاء اللّٰہ“

 

”خیر ،،، کام کا کیا ہے، وہ تو ہو ہی جائیں گے. لیکن ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ کیوں نہ تم بھی اس طرح آن لائن میگزین میں لکھو یا آن لائن پڑھاؤ۔ جب اللّٰہ نے ہنر دیا ہے، تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہے تو اس علم کو آگے بڑھاؤ، دوسروں تک پہنچاؤ۔“

 

”جی امی جان! پتا ہے میں خود بھی اکثر یہی سوچتی رہتی ہوں۔ میرے دل میں دوسروں کے لیے جو اتنا درد ہے، میں ان کے جذبات محسوس کرسکتی ہوں کیونکہ میں فطری طور پر حساس ہوں جب مجھے اللّٰہ نے ہی ایسا بنایا ہے تو اس کا کچھ نہ کچھ مقصد تو ہوگا نا ؟ آپ دعا کیا کریں کہ مجھے اپنی تخلیق کا مقصد مل جائے اور میں اپنی منزل تک سرخرو پہنچ جاؤں۔“

 

”آمین ثمَّ آمین، میری دعائیں تو ہر وقت تمھارے ساتھ ہیں۔ بس میں تمھارے منہ سے یہی امید افزا باتیں سننا چاہ رہی تھی۔ ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے، بچے کی پرورش کرنی ہے، دین اور ملک کی خدمت کرنی ہے، اور فکر نہ کرو میں بھی تمھارے ساتھ ہوں، اپنے حصے کی شمع میں بھی جلاؤں گی۔

ان شاء اللّٰہ۔

جیتی رہو، خوش رہو اور اب چلو شیک بناتے ہیں۔ ساتھ ہی دال میں بگھار بھی لگا دوں گی مگر اس وقت تم کچن سے ہٹ جانا ورنہ...“

 

”ہاں جی بس ٹھیک ہے، میں سمجھ گئی، نام بھی مت لیں۔

تو ایسا کریں آپ بھی ابھی شیک پی لیں، رات کو دال کے ساتھ چاول اُبال لیں گے۔ اِن کا پسندیدہ کھانا تیار.“

 

”ہاں ٹھیک ہے، اب تک تو اچار بھی تیار ہوگیا ہوگا، میں ذرا چھت پر دیکھ آؤں۔“

 

”ارے نہیں امی جان! پہلے میرے لیے شیک.“

 

”اوہ ہاں چلو چلو شاباش، سنبھل کر چلا کرو، کہیں ہوا سے ہی نہ اُڑ جانا.“

 

”آپ پھر شروع ہوگئیں.“

اور دونوں ہنستے ہوئے کچن کی طرف چلی گئیں۔

٭٭٭٭

اِن دونوں ساس بہو کی باتیں اور ہنسی مذاق تو پورا دن یونہی چلتا رہے گا۔ شام میں جب باپ اور بیٹا گھر واپس آجائیں گے تو ان کی شرارتیں اور چٹکلے بھی شامل ہو جائیں گے۔

 

کیوں لگ رہا ہے نا ایک مکمل گھرانہ ؟؟؟

جیسا ہم سب چاہتے ہیں، ہے نا ؟؟؟

 

تو کیا کہیں ایسا بھی ہوتا ہے؟

جہاں ایک دوسرے کی فکر ہو اور حالات سے مل کر مقابلہ کرنے کا عزم ہو، سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنے کی اور ایک دوسرے کی زندگی کو بامقصد بنانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

 

یہی تو ہوتا ہے گھرانہ !!!

ایسا ہی ہم سب چاہتے ہیں، ہے نا؟

 

تو کیا ایسے اچھے لوگ کسی اور سیارے سے آتے ہیں،

اس دنیا کے نہیں ہوتے ؟

 

نہیں، یہ تو میری اور آپ کی طرح عام سے انسان ہوتے ہیں، یا شاید یہ لوگ میری اور آپ کی طرح نہیں ہوتے بلکہ یہ تو بہت خاص ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی آسان بناتے ہیں، آس پاس موجود اور خود سے جڑے لوگوں کی خوشیوں کے ضامن بن جاتے ہیں۔

 

تو پھر آئیں ہم سب اپنی اپنی جگہ کوشش شروع کریں کہ دوسروں کی زندگی کو آسان بنائیں، خوش رہیں اور دکھ درد بانٹیں۔

اندھیروں کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصے کی شمع جلا دیں۔