آپ میرے اور میرے شوہر کے درمیان میں ہرگز مت آئیں، آپ ہمارا رشتہ خراب کر رہی ہیں، آخر آپ چاہتی کیا ہیں !!! کوئی اور نہیں ملا آپ کو، میرا معصوم شوہر ہی رہ گیا تھا، اپنے شوہر کو کھا گئیں اب طہ پر ہاتھ صاف کریں گی
مہوش کرن
"وہ لوگ اگلے پیر کو حج کرنے جا رہے ہیں، آج ہی ویزا لگ کر آیا ہے، تو تم ذرا فون کر کے بات کر لینا اور نبیل کی چھٹی والے دن وہاں ملنے چلیں گےاللٰہ ساتھ خیریت کے لے جائے اور عبادتیں قبول کرئے، بڑے خوش قسمت ہیں پورا گھر جا رہا ہے۔ بھائی صاحب، آپا، طہ، ثنا اور بچے بھی۔۔۔ماشاءاللٰہ سے دیکھو تو۔۔۔۔!!!"
پتا نہیں خالہ جان آگے کیا کیا کہہ رہی تھیں مگر مشعل کے کان تو سائیں سائیں کر رہے تھے اُسے آگے کچھ سمجھ نہ آیا۔
دماغ میں سالوں پرانی بات کسی فلم کی طرح چلنے لگی، وہ اپنے خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کرتی رہی اور چپ چاپ بیٹھی رہی، یہاں تک کہ خالہ جان نے خود ہی نماز کا کہا اور دونوں نے باورچی خانے سے نکل کر اپنے اپنے کمرے کا رخ کیا۔
نماز ختم تھی مگر سجدہ طویل ہوتا جا رہا تھا،
بس آنکھوں سے بہنے والے آنسو تھے اور مشعل کی ہچکیاں۔۔۔
٭٭٭٭
“کیا ہوا ماما آپ اس وقت لیٹی ہوئی کیوں ہیں؟ اب تو شام ہو رہی ہے ؟" مِنا نے پوچھا۔
“بس بیٹی سر میں درد محسوس ہورہا تھا تو مغرب پڑھ کر لیٹ گئی" مشعل نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔اُسی وقت نبیل بھی کمرے میں داخل ہوئے۔
"ارے آپ جلدی کیسے آگئے؟"مشعل کو حیرت ہوئی۔
"بس مجھے الہام ہوگیا تھا کہ تمھارے سر میں درد ہے تو میں جلدی آگیا تاکہ آج چائے مابدولت اپنے ہاتھوں سے بنائیں اور تم کو آرام پہنچائیں، کیسا ؟"
شاید انہوں نے اندر آتے ہوئے سُن لیا تھا۔ وہ تو جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر کچن میں چلے گئے اور مشعل کو پتا تھا کہ اپنے بابا کے ساتھ دونوں بیٹیاں مِنا اور حنا بھی کچن میں چلی گئی ہوں گی۔ زیادہ عمر تو نہیں تھی، بس دس اور آٹھ سال لیکن چونکہ بابا پکانے کے کام شوق سے کرتے اس لیے بیٹیاں بھی لگی رہتیں۔مشعل نے شکر ادا کیا۔
چائے بن گئی تو وہ بھی اٹھ کر باہر آ بیٹھی، چائے پر باتیں کرتے تھوڑا موڈ بدل گیا۔ پھر نبیل نے سر درد کی گولی بھی زبردستی کھلا دی اور وہ سب سمیٹ کر بچیوں کی پڑھائی کی طرف متوجہ ہوگئی۔
روز یہی سب ہوتا تھا، نبیل آفس سے آتے تو چائے پینے کے بعد مشعل بچیوں کے ساتھ مصروف ہو جاتی اور نبیل اپنی امی کے ساتھ جو کہ مشعل کی خالہ جان تھیں، وقت گزارتے۔ پھر جب وہ رات کے کھانے کا انتظام کرنے کچن میں جاتی تو بچیاں اپنی پڑھائی نمٹا کر کچھ دیر اپنے بابا جان کے ساتھ کھیلتی اور زیادہ تر پورا ٹولا کچن میں ہی پایا جاتا۔۔۔اور وہ شکر ادا کرتی۔
٭٭٭٭٭
سات سال پہلے بھی وہ ایسا ہی ایک دن تھا ۔۔۔
یوں ہی روٹین کے کام ہورہے تھے۔۔۔
کھانا کھا کر سب کاموں سے فارغ ہوتے ہوتے بچیاں سو چکی تھیں، مشعل دروازے لائٹیں بند کرتی اپنے کمرے میں گئی اور سیدھی وضو کرنے لگی۔ واش روم سے نکلی تو دیکھا نبیل بہت سنجیدگی سے بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ مسکراتے ہوئے اس نے جائے نماز بچھائی اور کہنے لگی کیا سوچ رہے ہیں میرے علامہ اقبال ؟
"پہلے نماز پڑھ لو پھر بات کرتے ہیں" لہجہ بہت عجیب تھا کہ وہ مزید کچھ پوچھے بنا نماز پڑھنے لگی۔
مکمل کر کے کہا "جی فرمائیے کیا بات کرنی ہے ؟"
سپاٹ لہجے میں جواب تو آیا مگر وہ بذاتِ خود ایک سوال تھا،
"تمھاری طہ سے چیٹ پر کیا بات ہوئی ہے ؟"
"جی کیا مطلب، میں سمجھی نہیں "
"مطلب صاف ہے اب تم بھی صاف صاف بتاؤ " بہت سرد سے لہجے میں کہا گیا۔
"آپ میرا انباکس چیک کر لیں۔ پوری چیٹ پڑھ لیں"
بڑی سہولت سے اس نے بولا۔
"وہ تو میں دیکھوں گا ہی لیکن پہلے میں تمھارے منہ سے سننا چاہتا ہوں"چہرے پر عجیب ہی تاثرات تھے۔
”لیکن مجھے کیا سنانا اور بتانا ہے یہ تو سمجھ آئے"
وہ جِھلَّا کر بولی۔
”پچھلے دنوں میں جو بھی تمھاری طہ سے بات چیت ہوتی رہی ہے وہ سب مجھے بتاؤ"
”میری کیا بات ہوگی، کبھی کچھ کبھی کچھ۔۔۔
ٹھیک ہے سوچ سوچ کر بتا دیتی ہوں۔
٭٭٭٭
اس دن صبح میسج آیا کہ گروسری اسٹور پر کھڑا ہوں موسم کے حساب سے کون سی سبزیاں لوں، گوشت کس کس طرح کا خریدوں۔۔۔میں نے بتا دیا کہ شاید اکیلا ہو اور سمجھ نہیں آرہا ہو پھر میں اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔
ایک روز رات میں میسج آیا کہ آپ کیا کررہی ہیں، اس وقت سب سو چکے تھے اور میں کتاب پڑھ رہی تھی۔میں نے بتا دیا، میں نے سوچا کہ شاید اُسے کوئی کام ہو۔پھر پوچھنے لگا کہ کون سا ناول اور کتابوں پر باتیں کرنے لگا، کچھ دیر بعد میں نے بات بند کردی اور سو گئی۔
کسی روز شام میں کہنے لگا کہ اب جب بھی میں آفس ٹُور پر باہر جاؤں گا تو آپ بھی ساتھ چلیے گا، آپ تو کہیں آتی جاتی نہیں، نبیل بھائی اپنی مصروفیات میں آپ کو لے کر بھی نہیں جاتے۔ میں نے کہا تھا کہ ہاں بالکل اپنے بھائی سے پہلے سے بات کر کے رکھو تاکہ پکا پروگرام بن سکے۔ جس پر طہ نے کہا کہ بھائی کو کون لے جائے گا، وہ یہاں بچوں کو سنبھالیں گے، جناب ہم تو آپ کو سیر کروائیں گے۔
میں سمجھ گئی کہ مذاق کر رہا ہے تو بس اتنا کہا کہ ٹھیک ہے جاؤ شاباش پہلے میرا پاسپورٹ تو بنواؤ اور جب صدر جاؤ تو خالہ جان کے لیے اچھی والی مونگ پھلیاں بھی لیتے آنا۔
ایک روز میسج آیا کہ بھابی یار میرے ساتھ آئس کریم کھانے چلیں، میں نے کہا کہ کیوں ثنا میکے گئی ہوئی ہے کیا ؟ کہنے لگا یہی تو مسئلہ ہے میکے بھی نہیں جاتی، اوپر چڑھ کر اُتر جاتی ہے، یہ کوئی میکے جانا ہوا ؟ اوپر نیچے رہنے کا نقصان ، ہونہہ بیوی زیادہ دنوں کے لیے میکے دور جائے تو بندہ ذرا آزادی سے جیے۔۔۔میں نے کہا تھا کہ سیدھی طرح بندے بن جاؤ ورنہ انہی کو بتا دوں گی جو اوپر ثنا کے میکے میں رہتے ہیں اور جو تمھارے سسر کے علاوہ ماموں بھی ہیں۔
بیٹا مت بھولو وہ تھانیدار تھے، ایسی پھینٹی لگائیں گے کہ تم الف کی طرح سیدھے ہو جاؤ گے اور آزادی کا بھوت اتر جائے گا۔
ایک دن بازار میں تھا کہ اسے کپڑے خریدنے تھے اور شاید ثنا نے منع کردیا تھا کہ کپڑوں کی ضرورت نہیں تو وہ منہ بسورتا ہوا اکیلا ہی بازار چلا گیا تھا۔ کہہ رہا تھا کونسی شرٹ لوں اور کس رنگ کی ٹراؤزر۔۔۔ میں نے بس اتنا کہا تھا کہ جب بیوی کو چھوڑ آئے ہو تو میرا دماغ نہ کھاؤ، اسی کو راضی کر کے ساتھ لانا چاہیئے تھا۔
ایک دفعہ سورہ فاتحہ کی تفسیر اور پردے کے حوالے سے ڈھیروں سوالات پوچھتا رہا تھا۔
کبھی کہتا آپ کو تو میں بانو اور مانو کی طرح بالکل بہن سمجھتا ہوں اس لیے آپ سے تو ہر بات کرسکتا ہوں۔
اور اور ۔۔۔
اب اور تو فی الحال مجھے یاد نہیں آرہا۔باقی آپ موبائل میں خود دیکھ لیں۔ ہمیشہ اسی طرح کی بچکانہ اور بے وقوفانہ باتیں ہوتی رہیں۔ بھلا اور کیا بات ہونی تھی، اُسے تو جب دیکھو مذاق ہی سوجھتا ہے، سنجیدگی سے بات ہی کب کرتا ہے۔۔۔"
وہ روآنی سے کہتی گئی پھر اک دم ٹھٹک کر بولی؛
"پر ہوا کیا ہے کچھ بتائیں تو سہی آپ تو کبھی اس طرح نہیں پوچھتے "
نبیل اُسے عجیب نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔
"ثناء کا میسج آیا ہے کہ بھائی جان، بھابی میرے اور طہ کے درمیان آرہی ہیں آپ پلیز اپنی بیگم کو سمجھا لیں، ورنہ بہت برا ہوگا" نبیل نے پورا میسج من و عن پڑھ کر سنا دیا۔
اسی لمحے مشعل کے موبائل کی میسج ٹون بھی بجی جو کہ نبیل کے ہاتھ میں تھا،
لو اب تمھیں بھی میسج کر رہی ہے پڑھو کیا کہہ رہی ہے۔
مشعل فون لے کر زور سے پڑھنے لگی کہ
"آپ میرے اور میرے شوہر کے درمیان میں ہرگز مت آئیں، آپ ہمارا رشتہ خراب کر رہی ہیں، آخر آپ چاہتی کیا ہیں ؟؟؟ کوئی اور نہیں ملا آپ کو، میرا معصوم شوہر ہی رہ گیا تھا، اپنے شوہر کو کھا گئیں اب طہ پر ہاتھ صاف کریں گی، کہیں سے ایسی لگتی تو نہیں ہیں"
ہائے اللٰہ یہ سب کیا ہے؟؟؟ یہ لڑکی کیا کہہ رہی ہے؟؟؟
بولتے بولتے مشعل کی تو زبان لڑکھڑا گئی۔
" کہہ رہی ہے ؟۔۔۔
اس کو کہنا نہیں کہتے، وہ سرے سے بکواس کر رہی ہے، دماغ چل گیا ہے اس کا، ابھی درست کرتا ہوں، وہ خود کو سمجھ کیا رہی ہے۔
اور تم، تمھیں ضرورت کیا تھی آخر طہ سے اس قدر بات چیت کرنے کی۔۔۔؟" نبیل کا دماغ غصے سے کھول رہا تھا۔
"میں کیا بات،،، میں تو یونہی،
وہ تو بچپن سے ہر بات کرتا رہا ہے،
آپ تو جانتے ہیں ،
ثنا بھی تو آپ سے اتنی باتیں کرتی آئی ہے پر میں نے تو کبھی ایسا نہیں سوچا،
اب اک دم کیا ہوا،ہمارے سامنے تو دونوں بڑے ہوئے ہیں
آپ تو مجھے جانتے ہیں، میں نے تو کبھی کسی سے بھی۔۔۔
کیا آپ بھی مجھ پر شک کر رہے ہیں ؟؟؟
وہ پتا نہیں کیا کیا بول رہی تھی اور درد کی ایک ٹیس سر کے دائیں طرف سے اٹھ کر پورے سر میں پھیل رہی تھی۔
"دماغ اُس کا چلا ہے لیکن بہکی بہکی باتیں تم بھی کر رہی ہو، میں تم پر کیوں شک کروں گا ؟ شک تو وہاں ہوتا ہے جہاں جان پہچان نہ ہو یا اعتبار نہ ہو۔
تم صرف میری خالہ زاد کزن نہیں ہو بلکہ میرے سامنے ہی کالج یونیورسٹی تک گئی ہو، مجھے تمھارے چال چلن کا تم سے زیادہ پتا ہے۔ بڑے خالو اور بڑی خالہ کے انتقال کے بعد امی نے اکیلے تمھاری ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی بلکہ ہم سب بہن بھائیوں میں بانٹ دی تھی اب یہ نہیں پتا تھا کہ بعد میں شادی بھی تم سے ہی کر دیں گی۔۔۔" وہ کچھ الجھا ہوا سا بولا۔
"یعنی اب آپ پچھتا رہے ہیں" وہ بمشکل بولی۔
درد کی ٹیسیں متواتر اٹھ رہی تھی اور اب ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
" بس بہت ہو گئی، اب تم چپ رہو، اس وقت شاید تمھیں میری بات سمجھ نہیں آرہی، تم بہت زیادہ پریشان ہورہی ہو " وہ شدید جھلایا ہوا تھا۔
درد ہر طرف سے سر میں بھر چکا تھا یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مستقل ہتھوڑے کی ضرب پڑ رہی ہے مگر دل پر اپنوں کے دھوکے کی جو کاری ضرب پڑی تھی وہ زیادہ تکلیف دہ تھی۔
آنکھوں کے آگے اندھیرا ہو رہا تھا لیکن مشعل کو سننا تھا جو کچھ نبیل کہہ رہا تھا
"مجھے تم پر سرے سے کوئی شک و شبہ نہیں، میں ہر اعتبار سے تم پر مکمل بھروسا کرتا ہوں، تم ایک نیک پاکباز عورت ہو، تمیز سے اپنی حد میں رہتی ہو اور اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھتی ہو۔
مجھے تو ان دونوں کی سمجھ نہیں آرہی کہ ثنا کل کی لڑکی تمھارے بارے میں مجھ سے اس لہجے میں بات کیسے کر سکتی ہے؟؟؟
ارے اُن دونوں کی تو شادی بھی ہم نے کروائی تاکہ ماموں اور چھوٹی خالہ کے تعلقات بہتر ہو جائیں اور روز روز کی لڑائیاں ختم ہوں اور یہ بالشت بھر کی لڑکی میرے سامنے آج اتنی گھٹیا باتیں کر رہی ہے۔
میں جو ہمیشہ ان کا بھائی جان رہا ، بچپن سےدونوں تمھارے ساتھ لگے رہے ہیں اور آج اُس نے عمر کا لحاظ، سارا احترام ساری عزت بالائے طاق رکھ دی۔۔۔"
نبیل نے نرم لہجے میں اسے سمجھانا شروع کیا لیکن آخر تک اس کا لہجہ بہت تھک چکا تھا۔
"عزت اور بےعزتی سب اللٰہ کی طرف سے ہے۔
وہ دونوں کون ہوتے ہیں مجھے بے عزت کرنے والے،
پر میں تو یہی سوچ رہی ہوں کہ آخر میں نے ایسا کیا ہی کیا تھا جو اتنی بڑی بات اس نے سوچی اور بول بھی دی۔۔۔
اور اور پتا نہیں کس کس سے بول دی ہوگی ؟؟؟
افففف خدایا اب میرا کیا ہوگا ؟؟؟
اتنا بڑا الزام میرے اوپر سارے خاندان والے کیا کہیں گے، ماموں اور چھوٹی خالہ کیا سوچیں گے،
خالہ جان کتنی شرمندہ ہوں گی،
اور اور آپ ۔۔۔آپ کا تو مجھ پر سے اعتبار ہی اٹھ جائے گا نا ؟؟؟
مشعل بالکل بدحواس ہورہی تھی دل اور سر دونوں
ہی درد زوروں پر تھے۔
"یہ سب تو تب ہوگا جب تمھاری کوئی غلطی ہوگی اور اس گھٹیا لڑکی کی بےہودہ باتیں کسی کو پتا چلیں گی۔
ابھی میں فون کرکے دونوں کی اچھی طرح خبر لیتا ہوں"
نبیل نے یہ بولتے ہوئے مشعل کی طرف دیکھا تو وہ سر پکڑے نیچے کو گر رہی تھی اور چیخ بلند ہوتی جارہی تھی۔۔۔
میگرین کا ایک شدید اٹیک۔۔۔
جاری ہے)