اوہو اب کون بھابھی بولے اور نہ ہی آپ جناب!
میں تو بس تم بولوں گا اور تمھارا زبردست سا نِک نیم رکھوں گا۔۔۔مشعل سے مِش کیسا رہے گا ؟ اعلٰی نا!لیکن بس میسجز پر سب کے سامنے نہیں!!
مہوش کرن
"یا اللٰہ رحم کر دے، میرے مالک میری محبت میں کہاں کسر رہ گئی " وہ جائے نماز پر روتی روتی خود سے اور اللٰہ سے سوال کر رہی تھیں۔
پیچھے ہی صوفے پر نبیل پریشان حال بیٹھا تھا۔
"کیا تم نے کچھ بولا ہے مشعل کو، کیا ہوش میں نہیں تھے بات کرتے ہوئے، آخر ایسا کیا ہوگیا تھا، کیا منہ دکھاؤں گی میں بڑی باجی کو قیامت کے دن کہ اُن کی بیٹی کو سنبھال بھی نہ سکی، تم سے مجھے یہ امید نہ تھی" وہ جذباتی ہوکر بولتی ہی چلی گئیں۔
کیا ہوگیا امی بس کر دیں، میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ بہت شدید اٹیک ہوا ہے بس اور کیا ؟ میں نے انجیکشن لگا کر سلا دیا ہے نا" نبیل جلدی سے بولا۔
"ہاں اور کیا ٹھیک ہی تو ہے، بچوں کے ساتھ وقت بے وقت جاگنا، بھاگ دوڑ میں کھانا پینا، ان کی پڑھائی اور تربیت میں سر کھپانا، ہم دونوں کا خیال رکھنا، پورے گھر کی فکر کرنا، گھر گھرستی کی ماری میری بچی ۔۔۔یا اللٰہ رحم کر دے، اسے صحت دے۔۔۔
کان کھول کر سن لو نبیل میں کہے دیتی ہوں اب اس کا بہت خیال رکھنا ہے۔"
“جی امی آپ فکر نہ کریں " نبیل نے کہا اور سکون کا سانس لے کر وہاں سے اُٹھ گیا کہ شکر امی کو کچھ ایسا ویسا نہیں معلوم۔
امی کے کمرے سے اُٹھ کر بچیوں کے کمرے میں جا کر انہیں دیکھا جو مشعل کے چیخنے سے گھبرا کر اُٹھ گئی تھیں لیکن پھر نبیل کے بتانے اور سمجھانے سے دوبارہ سو چکی تھیں۔
آہستہ سے اپنے کمرے میں آیا اور خاموشی سے مشعل کے برابر میں لیٹ گیا، رات کا بقیہ پہر آنکھوں میں ہی کٹا، یوں فجر بھی ہوگئی، نماز کے بعد اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔
بچیوں کو خود ہی جگایا، تیار کیا اور اسکول کے لیے روانہ ہوا۔ واپسی میں باہر ہی باہر طہ اور ثنا سے فون پر بات کر کے انہیں خوب جھاڑ پلائی اور آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کر دی۔
****
صاف صاف بول دیا کہ واٹس ایپ، وائبر اور فیس بک پر مشعل کے نمبر سے تم دونوں کو بلاک کر دیا ہے، اب اس کو پریشان مت کرنا۔
ثنا تو اپنے بھائی جان کا غصہ دیکھ کر اسی وقت گھگیانے لگی جبکہ طہ کو وہ سب سن کر سانپ سونگھ گیا۔ خدا جانے کس کے دماغ میں کیا خرافات تھی لیکن اب وہ لوگ آپس میں کس طرح یہ معاملہ طے کرتے ہیں یہ اُن کا اپنا مسئلہ تھا۔
نبیل کا مسئلہ صرف اور صرف مشعل کو دیکھنا تھا۔اچھے معالج کو دکھانا، اس کے آرام کا خیال رکھنا، اس کو ہر پریشانی سے بچانا۔۔۔
اور بس یہی سب کرتے کرتے اتنے سال گزر گئے۔۔۔
٭٭٭٭
نبیل جب کمرے میں داخل ہوا تو مشعل عشاء کی نماز پڑھتی دکھائی دی۔ مکمل ہوئی تو اس نے کہا،
“صبح تک تو تمھیں ٹھیک ٹھاک چھوڑ کر گیا تھا پھر اچانک کیا ہوگیا، کیا دوپہر کا کھانا نہیں کھایا تھا یا بچیوں کے پیچھے پریشان ہوتی رہی ہو ؟"
وہ سورت ملک پڑھنے بیٹھ چکی تھی۔
پتا تھا نبیل بات تو کریں گے کب تک بچ سکتی تھی۔
سر کا درد ہمیشہ اپنے ہمراہ ایک سوالنامہ لے آتا تھا
کب، کیوں، کیسے ؟ جیسے اتنے سوال۔۔۔
وہ تو شکر ہے اب درد کم ہی ہوتا اور شدت بھی زیادہ نہ ہوتی تھی اس لیے سوالات بھی ہلکے ہونے لگے۔
سورت ملک بھی ختم ہونی تھی کب تک چلتی سو مکمل ہوگئی تو جواب بھی دینا پڑا اُس شخص کو جو سوالیہ نشان بنا سامنے بیٹھا تھا۔
جی بس یہی سب اور کیا ہونا تھا۔۔۔
وہ نبیل کی طرف دیکھتی رہی اور ان آنکھوں میں صاف لکھا تھا کہ انہیں سچ سننا ہے۔
جھوٹ بول کر آخر جاؤں گی کہاں؟؟؟
وہ بھی اس شخص سے جس نے زندگی کے اُس دوراہے پر بھروسا کیا تھا جب ایک ذرا سے جھٹکے سے سب کچھ ٹوٹ سکتا تھا۔
ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں وہ پتا نہیں کیا کیا سوچتی چلی گئی۔۔۔۔
یہ کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑا سکتی نا۔۔۔
خود ہی فیصلہ کر لیا۔
“جی بس چھوٹی خالہ لوگ میرا مطلب ہے کہ ان کی پوری فیملی حج پر جارہی ہے تو خالہ جان کہہ رہی ہیں کہ ادھر جانا ہے"
“ہاں تو یہ بات امی نے مجھے بتائی ہے مگر اس کا تمھارے سر درد سے کیا تعلق ہے؟"
“ ممم مجھے نہیں پتا تعلق وعلق، مجھے بس اتنا پتا ہے کہ ان لوگوں کے ذکر سے مجھے کچھ ہونے لگتا ہے"
“کیا بے وقوفی ہے مشعل، ہاں ؟ اتنے سال ہوگئے مگر اُس واقعے کو تم اپنے ذہن سے نکال نہیں پاتی ہو، اس طرح تو تم اپنے لیے خود ہی مشکل کرتی ہو"
“یہی تو بات ہے نبیل کہ زندگی میری ہی مشکل ہوئی تب بھی اور اب بھی۔
مانا آپ نے میرا ساتھ دیا اور مجھ پر بھروسا کیا،
لیکن اگر آپ ایسا نہ کرتے تو؟
آپ کے بھروسے کے باوجود میں اپنی ہی نظروں میں چور بن گئی، اس نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
جو بھی کچھ ہوا کرب اور اذیت تو میں نے اٹھائی،
اپنی نظروں میں خود ہی گر گئی،
رشتوں پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا،
ہر ایک سے اتنے فاصلے پر آگئی۔ مجھے کیا ملا ؟؟؟
اور وہ، وہ دونوں بالکل مزے میں زندگی گزارتے رہے، بچے، گھومنا پھرنا، عیش و عشرت۔۔۔
اور وہ چھوٹی خالہ، وہ مجھے کہتی رہتی ہیں کہ تمھارے معاملات میں گڑبڑ ہے تبھی آئے دن بیمار کبھی تم کبھی بچے، پیسے کی تنگی، کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔
جو جی میں آئے مجھے کہہ ڈالتی ہیں لیکن میں نے تو کبھی انہیں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ہمیشہ چپ ہی رہی۔۔۔
بات بہ بات کہتی ہیں کہ ہمیں تو اللّٰہ نے بڑا بنایا ہے تو کیوں نہ بڑے بن کے رہیں یا بڑے بول بولیں،
ہماری طرح پورے خاندان میں کوئی دین دار نہیں،
ہم عبادات اور فہم میں بہت آگے ہیں، ہماری ہر بات درست ہوتی ہے۔۔۔اور پتا نہیں کیا کیا۔۔۔
اور اب وہ لوگ حج کرنے جارہے ہیں تو کیا واقعی وہی لوگ درست ہیں؟ کیا اللّٰہ تعالٰی بھی ان ہی کے ساتھ ہے؟
اتنے سال میں نے استطاعت نہ ہونے کے باوجود بھی کتنی دعائیں مانگی ہیں حج اور عمرہ کے لیے یہ اللّٰہ کے بعد آپ سے بہتر اور کون جانتا ہے؟
اور جارہے ہیں وہ لوگ، تو واقعی نا ! اللّٰہ ان ہی کے ساتھ ہیں۔ میں اتنا کچھ کر کے بھی اللّٰہ کو اپنا نہیں بنا پائی۔۔۔"
سالوں کا دکھ آج باہر نکل ہی آیا تھا۔
“کون اللّٰہ کو کتنا اپنا بنا سکا یا خود کتنا اللّٰہ کا بن سکا یہ تو اللّٰہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تم بھلا کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے۔
تم جو نیک اعمال کرتی رہی ہو، لوگوں کے بے جا طنز برداشت کرنا، رشتہ داریاں اخلاص سے نبھانا، اتنی بڑی بات پر بھی قطع تعلقی نہ کرنا اور ہمہ وقت محرم نا محرم کا پاس بھی رکھنا۔۔۔
تم نے یہ سب کس کے لیے کیا ؟
اس پورے سانحے کے بعد تم مزید بدلتی گئی،
پہلے اگر اللّٰہ کی طرف چل کر جارہی تھی تو اُس سب کے بعد میں نے تمھیں اللّٰہ کی طرف دوڑتے دیکھا،
دنیا کا ہر کام تم نے اس رب کی ملاقات سے جوڑنا شروع کردیا، میں نے تمھیں ہر لمحے بس ایک اسی احساس میں متفکر دیکھا کہ رب کی موجودگی اور جوابدہی لازم ہے۔۔۔
اگر یہ سب اعمال خالصتاً اس ایک رب کے لیے کیے تھے تو دکھ کس بات کا ؟
جس دن اس کے حضور پہنچو گی بدلہ بھی مل جائے گا، ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔
اور مجھے پتا ہے بات بدلے کی نہیں ہے، نہ ہی تمھیں ان لوگوں کے جانے سے کوئی جلن ہے بس تمھارا دل دکھی ہورہا ہے اور میرا دل جانتا ہے کہ تمھارا دل کتنا بڑا ہے۔
وہ تمھارا پسندیدہ شعر ہے نا کہ
یہی ہے عشق میں کیمیا گری کا ہنر
کہ جل کے راکھ ہوا ہے مگر بکھرتا نہیں
تو یاد رکھو کہ دل تو دکھے گا اور آنکھ بھی آنسو بہائے گی مگر دیکھو اپنی شکر میں ڈوبی زبان کو لڑکھڑانے مت دو کہ کچھ غلط الفاظ ادا کر کے اپنے سارے اعمال ہی ضائع کر ڈالو۔۔۔
تم سے میں نے ایمان کی مضبوطی پائی ہے، اب اگر تم ہی کمزور پڑ گئی تو میرا ایمان بھی متزلزل ہو جائے گا"
کتنی طمانیت اور بھروسے سے بھرپور لہجے میں نبیل اس کا ہاتھ تھامے یہ سب کچھ کہہ کر اب خاموشی سے مشعل کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔
جہاں سے بے چینی اور دل رفتگی کا تاثر زائل ہورہا تھا اور کھونے کی بجائے پائے جانے کے آنسو چھلک رہے تھے۔۔۔
کیسے کیسے غم پال لیتی ہوں میں بھی اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی،،،
ایسا بھروسا کرنے والا، ہمت بندھانے والا شخص مجھے یونہی مل گیا، اپنے آپ سے سوال پوچھتے پوچھتے جواب بھی دل سے ہی آگیا۔۔۔
اللّٰہ کی کتنی بڑی نعمت۔۔۔
اور یہ دل ۔۔۔اُس لمحے یہ دل کتنا کچھ کہنے کو چاہ رہا تھا لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
بڑی مشکل سے کچھ الفاظ جمع کیے اور کہا،
“آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں تو بس بلاوجہ پریشان ہوجاتی ہوں مگر آپ ہیں نا میری ہر پریشانی کا حل۔ اللّٰہ تعالٰی ہمارے لیے آسانیاں کریں، آمین۔"
اور یونہی ہاتھوں میں ہاتھ دیے دونوں نیند کی وادیوں میں چلے گئے۔۔۔
٭٭٭٭٭
کچھ دیر بعد مشعل کی آنکھ کھلی،
نبیل پر سکون انداز میں گہری نیند سو رہے تھے۔
وہ آہستہ سے وضو کر کے آئی اور جائے نماز پر نفل پڑھنے کھڑی ہوگئی۔
جانے کتنی رکعتیں پڑھتی چلی گئی اور پھر دراز ہوتی دعا۔۔۔
کتنے بھی سال گزر جائیں وہ کیسے بھول سکتی تھی، اُن میسجز کو جو اس نے ڈیلیٹ کر کے خود کو محفوظ کرلیا تھا۔ یقیناً وہ میسجز اس کی نہیں طہ کی غلطی تھے لیکن لپیٹ میں تو وہ بھی آتی۔۔۔
"اوہو اب کون بھابھی بولے اور نہ ہی آپ جناب،
میں تو بس تم بولوں گا اور تمھارا زبردست سا نِک نیم رکھوں گا۔۔۔مشعل سے مِش کیسا رہے گا ؟ اعلٰی نا!
لیکن بس میسجز پر سب کے سامنے نہیں"
نہیں نہیں میرا مطلب ہے کہ کسی کو کیا پتا ہماری دوستی کی نوعیت، خوامخواہ اپنی سوچ کے حساب سے کیا پتا کوئی کیا سوچے، لیکن بھئی میں ہوں تو تمھارا بھائی نا یا چلو دیور مان لو "
"اجی جناب حکم تو کرو، تمھارے شوہر کی طرح نہیں ہوں تمھیں اپنی پلکوں پر بیٹھا کر گھمانے پھرانے لے جاؤں گا،،،سارے کام اپنے ہاتھوں سے کروں گا"
اتنے عام سے انداز میں کی جانے والی یہ باتیں نہ جانے کس راستے کی طرف جانے والا دروازہ کھول دیتیں اور کتنے بڑے عذاب کا پیش خیمہ بنتیں اگر مشعل کی چھٹی حس مناسب وقت پر بیدار نہ ہوتی اور وہ فوری طور پر اُس سے بات چیت کرنا بند نہ کر دیتی۔
"اللّٰہ میں آپ کی جتنی بھی تعریف کروں کم ہے اور آپ کا جتنا بھی شکر کروں حق ادا نہیں کرسکتی۔
آپ نے مجھے بہترین شوہر اور گھر بار سے نوازا۔
آپ نے اپنی خاص رحمت سے مجھے شیطان کے بچھائے جال سے محفوظ رکھا۔ شاید شادی کے لمبے عرصے بعد تک اولاد نہ ہونے یا ثنا کے بہت تیز مزاج کا ہونے کی وجہ سے طہ اس سے دور ہورہا تھا لیکن میری ہی طرف کیوں آرہا تھا۔۔۔ ؟؟؟
کیونکہ میں نے اُسے اپنا بھائی، کزن، دیور سمجھ کر اپنی طرف آنے دیا تھا۔۔دل سے ہمیشہ یہی جواب آتا ہے اور میں شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہوں"
لیکن میرے رب آپ جانتے ہیں کہ میں بے گناہ تھی، اپنے شوہر اور آپ سے مخلص تھی اور ہمیشہ رہوں گی۔
میں بس بے وقوف بن رہی تھی، رشتوں کو سنبھالتے سنبھالتے ان میں الجھ گئی تھی،اپنی حدود کا درست تعین نہیں کر پارہی تھی۔
چند میسیج اور چیٹ انسان کی زندگی اور آخرت کو کتنے آرام سے برباد کرسکتے ہیں،
اور آج انسان اتنے بےخوف ہوکر یوں سستے داموں اپنی عاقبت بیچ رہے ہیں۔۔۔
لیکن میں جان گئی، اے رحیم و کریم کہ جب دو نامحرم خلوت میں ہوں گے تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہی ہوگا اور یقیناً میں مان گئی،
اے رب میں یقین لائی اس بات پر۔۔۔
اور دیور ۔۔۔ دیور کو تو میرے نبی پاک ﷺ نے موت کہا ہے۔۔۔ دیور تو موت ہے موت۔۔۔
اففففف میں بے موت ماری جاتی ،
مگر میرے اللّٰہ آپ نے مجھے، میرے مرحوم والدین کی عزت اور میرے شوہر کے وقار کو بچا لیا۔۔۔اب اور کچھ نہیں چاہیئے بس معافی کا سوال ہے اے قادر و جبار !
وقت معلوم نہیں تہجد کا تھا یا نہیں لیکن اس کے لیے تھا کیونکہ وہ تھی اور اسکا رب،
اس کے آنسو تھے اور اسکے رب کا دلاسہ،
اس کی سسکیاں تھیں اور اسکے رب کی تسلی،
اس کی ندامت تھی اور اسکے رب کی معافی۔۔۔ ان شاء اللّٰہ!
ختم شد ۔۔۔