ارےولید مارکیٹ میں نئی امی کب لا رہو ہے؟امی تو امی یہاں تو ہر سال نئے بہن بھائی متعارف کروائے جا رہے ہیں
بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد
ولید: ”امی! آپ کچھ بولتی کیوں نہیں ہیں، یہ میں کیا سن رہا ہوں۔ بابا نے پھر شادی کر لی، حد ہوتی ہے برداشت کی، بابا نے یہاں یتیم خانہ کھولنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے، چلیں آپ میرے ساتھ اس جہنم سےباہر نکلیں."
محسنہ: "امی جان ! آپ نے ہمیں کبھی کچھ بولنے نہیں دیا۔ سب خود سہتی رہتی ہیں۔"
صبغت اللہ: "بابا کی شادیوں نے ہمیں کہیں بھی منہ دیکھانے کے لائق نہیں چھوڑا، کالج میں سب لڑکے مجھے دیکھ کر آپس میں ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں "اور ولید کب لارہے ہو مارکیٹ میں نئی امی....! میں کیا بولوں کہ یہاں نئی امیوں کے ساتھ ساتھ ہر سال نئے بہن بھائی بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں، ہونہہ۔"
ولید: "ہماری اماں جان پورے خاندان میں اللّٰہ میاں کی گائے ، مظلوم عورت کے نام سے مشہور ہیں۔"
"ولید، محسنہ، صبغت اللہ! لفظوں میں اتنا زہر، رویوں میں اتنی بے حسی کہاں سے لائے؟“نرم خو مبشرہ بی بی انتہائی تاسف سے بولتے ہوئے بے بسی سے رو دیں۔
٭٭٭٭
معاشرتی تلخ رویوں کا یہ لاوا ان سبھی کے دماغوں میں بابا کی تیسری شادی کی خبر سننے کے بعد سے پک رہا تھا، دوسری شادی نے آتش فشانی عمل کو ایسا بڑھاوا دیا کہ تیسری شادی کی خبر پر اس آتشیں سیال مادے نے جنت نما گھر کو پگھلانے کا خطرناک ترین عمل شروع کر دیا۔جب ہر فرد خود کو افلاطون سمجھنے لگے تو سمجھو تباہی آ گئی۔
اپنی ماں کو روتا بلکتا دیکھ کر جوان اولاد کا دل پسیج ہی گیا۔ ماں کی قربانیوں ، اعلیٰ ظرفی اور بے لوث محبت کا ایک نقشہ سا کھنچتے ہی تینوں بچے ماں کی طرف کھنچے چلے آئے۔
مبشرہ بی بی نے اپنے لختِ جگروں کو محبت سے پاس بٹھا لیا۔ ایک لمبی گہری سانس لینے کے بعد آنکھیں بند کرلیں اور گویا ہوئیں۔
"شادی ایک جائز کام ہے نا، آپ کے بابا سنت رسولﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو پھر اس میں کیسی شرمندگی ، عار کیوں؟ سچ میں ہم دونوں پر خبط سوار ہے، جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کا۔ اور میرے بچوں !یہ ہم میاں بیوی کا ذاتی معاملہ ہے، کسی کو بھلا کیا حق زہر فشانی کرنے کا؟مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ میرا شوہر برابری کرنے اور خوفِ خدا رکھنے والا شخص ہے۔ اس کے ہر ہر عمل کا محور بس ایک ذات واحده لا شریک لہ ہے، میں ایسے شریکِ حیات کو معتوب ٹھہراؤں میرے لیے یہ ناممکنات میں سے ہے۔جبکہ وہ مجھ سمیت تمام اہل وعیال کی کفالت کرتے ہیں۔ ہماری ضرورتوں کو وقت سے پہلے پورا کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ آسائش و آرام میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ میری اپنی گھرہستی ہے، یہاں میری حکومت، میرا راج ہے، بتاؤ بابا نے کسی کو ہم لوگوں پر لا کر مسلط کیا؟“
نن نہیں بے ساختہ تینوں کے منہ سے نکلا۔
”ولید! آپ ماشاءاللہ شادی شدہ ہیں۔ آپ کے سمدھیانے میں کسی نے میرے یا بابا کے اخلاق و کردار میں کوئی کمی دیکھی؟"
"ولید : نہیں امی! بلکہ میرے سسرال میں ہمارے گھرانے کی مثالیں دی جاتیں ہیں۔ وہ لوگ بابا کو بہت عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔"
ماں کے دھیمے دھیمے شہد انڈیلتے لہجے نے تریاق کا کام شروع کر دیا تھا۔ مبشرہ بی بی نے ولید کے نرم لہجہ اختیار کرنے پر دل ہی دل میں رب العالمین کا شکر ادا کیا۔ پھر انتہائی شفقت سے گویا ہوئیں:
”میرے بچو! آپ کی تینوں ماؤں کا آپ کے گھر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کی اپنی گھرہستی ہے، اپنے معاملات ہیں۔ ٹھیک “
یہ کہتے ہوئے انہوں تائیدی نظروں سے تینوں کو دیکھا۔ وہ ایک ساتھ بولے۔
”جی بالکل“
پھر وہ حتمی اور بارعب انداز میں بولیں:
”ہاں مگر یہ بات اچھی طرح سے جان لیجیے کہ آپ کی ماؤں کا آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا میرا حق ہے، لہٰذا ان کی عزت کرنا، گاہے بگاہے ان کی خبر گیری کرتے رہنا اور ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کرنا اور کروانا یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے۔ بابا کا ساتھ دینا ان کی عزت پامال کرنے کی بجائے ان کا اقبال بلند ترین کرنے میں مصروف رہنا، کہیے قبول ہے؟“
سر جھکائے شرمندہ شرمندہ بیٹوں نے بے خود ہوکر اپنی نیک طینت و اعلیٰ ظرف ماں کا ماتھا چوم لیا۔ بیٹی نے بھی بھائیوں کی تقلید کرتے ہوئے "میری اماں ایک عظیم عورت ہیں۔" کا نعرہ لگایا اور ماں سے لپٹ گئی۔ جنت کی حریص مبشرہ بی بی بھیگی بھیگی پلکیں جھکا کر رب قدوس کے آگے شکر کا کلمہ پڑھنے لگیں۔ یوں ایک عورت کی معاملہ فہمی، بردباری اور حکمتِ عملی سے نفرت کا آتش فشاں سرد ہوگیا۔