"دیکھو حبہ۔۔۔یہ دنیا ہے۔یہاں ہر انسان دوسرے سے مختلف ذہن رکھتا ہے اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں۔پر تم بہت حساس ہو ہر بات۔۔۔ہر رویے کو سر پر سوار کرلیتی ہو۔اتنا مت سوچو کہ وہ یہ کرتا ہے ہے یا کس نے کیا نہیں کیا

بنت مسعود احمد

"یہ جو آپ کی بہن ہے نا ! وہ حد درجہ کام چور اور نکمی لڑکی ہے۔اسے میرا ذرا بھی احساس نہیں کہ میں اکیلی جان کیا کیا کررہی ہوں، مجال ہے جو ہاتھ بٹادے ،بچوں کے ساتھ میں گھن چکر بنی رہتی ہوں اور یہ یا تو  لیٹی رہتی ہے یا پھر ایسی لاتعلق بن جاتی ہے جیسے جانتی تک نہ ہو۔عجیب خود غرض اور بے حس لڑکی ہے۔"حبہ نے نند پر آیا سارا غصہ شوہر پر اتار کر دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہا۔شوہر نامدار آنکھیں موندے ساری کتھا سنتے رہے مگر منہ سے جواباً ایک جملہ تسلی تک کا نہ نکلا۔

بیگم کچھ دیر تو منتظر نظروں سے شوہر کے چہرے کو تکتی رہیں، انتظار نے طول پکڑا تو ان کی زبان میں پھر کھجلی ہوئی۔اب کی بار توپوں کا رخ معصوم صورت شوہر کی جانب تھا۔

"میرے اوپر جو بیتے سو بیتے لیکن آپ کو میری کیا فکر!گھر کے کاموں میں جتی رہوں اور اف تک نہ کروں۔۔۔ہر ایک کی زیادتی برداشت کرکے منہ کے زاویے بھی ٹھیک رکھوں اور ہنستی مسکراتی رہوں، میں کوئی  فرشتہ صفت انسان نہیں۔۔۔۔میں انسان ہوں اور مجھے انسان ہی سمجھا جائے۔۔۔۔اب وہ رورہی تھی۔

"رو کیوں رہی ہو؟"اس کے رونے پر تیمور نے فوراً آنکھیں کھول کر دیکھا اور معصومیت سے پوچھا۔

حبہ کو ان کے اس انداز پر پتنگے ہی لگ گئے۔

"جیسے آپ کو تو کچھ معلوم ہی نہیں۔۔۔دوسروں  کی بےحسی کیا کم دل دکھاتی ہے ایک آپ بھی سہی۔۔۔اللہ پاک سب سے بڑا ہے، وہی میرا سہارا ہے، آپ سے کیا دل کا درد بانٹنا۔"وہ کروٹ بدل کے لیٹ گئی۔

"اللہ کی بندی تمہیں معلوم تو ہے نرمین کی عادت کا، اماں کے بے جالاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہے اسے۔۔اب میں اگر گھریلو معاملات میں کچھ بولوں گا تو اماں کا تمہیں معلوم ہے، مجھے  زن مریدی کا طعنہ دیں گی ہی، ساتھ ہی تمہاری شامت الگ آجائےگی۔۔۔ہر گھر کی یہ کہانی ہے۔۔۔اللہ کے لیے ہنسی خوشی برداشت کرلو اور ڈھیروں اجر کمالو۔۔۔مجھے پتا ہے تم حق بجانب ہو درگزر سے کام لو۔۔۔دیکھنا ایک دن یہی لوگ تمہاری قدر کریں گے۔۔۔بس تھوڑا صبر۔۔۔پیاری بیگم۔۔۔۔تمہارے غم خوشی میں ضرور بدلیں گے۔۔ان شاء اللہ!"

اس کے تسلی کے چند جملوں نے زخم پر مرہم کا کام کیا وہ ایکدم سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی۔

★**★

ایک عورت کے لیے شوہر کی توجہ اور محبت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔جب وہ کسی بات پر غم زدہ ہوکر ٹوٹنے اور بکھرنے لگتی ہے وہیں شوہر کی ذرا سی تسلی اور ہمدردی اس کے اندر نئی توانائی پھونک دیتی ہے اور اس کے تھکن سے نڈھال وجود و ذہن کو پھر سے ہشاش بشاش کردیتی ہے۔یہی کچھ حبہ کے ساتھ بھی ہوتا تھا۔

وہ جب شادی ہوکر اس گھر میں آئی تو ساس نند کو گھر کے کاموں سے مکمل آزادی مل گئی۔ پہلے ساس کھانا پکالیتی تھی مگر حبہ کے آتے ہی چولہا چوکی اس کے سپرد کردیا یہاں تک کےگھر کی صفائی اور سارے دن کے برتن بھی اسی کے ذمے لگ گئے ۔نند نرمین صبح کالج چلی جاتی، وہاں سے آکر کھانا کھاتی اور لمبی تان کے سو جاتی پھر اٹھ کر اپنے لیےچائے بناتی اور کالج کا کام کرتی۔

چار سال اسی طرح گزرگئے اس عرصے میں حبہ ایک بیٹے اور بیٹی کی ماں بن گئی،  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کام کئی گنا بڑھ گئے اور اس نند کی بے حسی بھی عروج پر جاپہنچی۔سارے گھر کا کام اب بھی اسے کی ذمہ داری تھی۔

حبہ ان مشکل حالات میں چڑچڑی ہوجاتی ،بچے بھی خوب ہی شرارتی تھے وہ الگ اپنے پیچھے اسے گھن چکر بنائے رکھتے ساس سے یہ تک نہ ہوتا کہ بچوں کو ہی سنبھال لیں وہ اپنی دنیا میں مگن رہتیں، کبھی کسی بہن کے یہاں چلی گئیں کبھی بھائی کے یہاں۔۔۔کبھی کسی کے ساتھ بازار کا پروگرام بنالیا۔

سب سے زیادہ غصہ حبہ کو نرمین کی کام چوری پر آتا۔وہ لڑکی ہوتے ہوئے اس کا کسی کام میں ہاتھ نہ بٹاتی وہ چاہتی تو بھابھی کا لحاظ کرسکتی تھی مگر ماں کی طرف سے ملی ہوئی شہ اسے شیر کئے رکھتی۔

★**★

"دلہن سنتی ہو۔۔"۔وہ کچن میں چائے بنارہی تھی کہ اسے سلمہ بیگم نے پکارا۔وہ آنچ دھیمی کرکے باہر آئی۔

"کل نرمین کو دیکھنے ذکیہ کی نند آرہی ہے۔کیا خیال ہے شام کی چائے کے ساتھ کیا کیا چیزیں ہونی چاہییں؟"

انہوں نے بہن کی نند کے آنے کی اطلاع دی۔حبہ پہلے ہی جانتی تھی کیونکہ کل رات میں وہ تیمور کو لڑکے کی ساری تفصیلات بتاچکی تھیں۔

"کتنے لوگ آئیں گے امی؟"حبہ نے پوچھا۔

"ذکیہ ہوگی اور اس کے ساتھ اس کی نند اور ان کی دو بیٹیاں۔"

"اچھھا۔۔۔پرسوں شامی کباب بنائے تھے، وہ تل لوں گی اور دہی بڑے بنالوں گی اور فروٹ ٹرائفل بنالوں گی اور کچھ چیزیں بیکری سے آجائیں گی۔"

"ہاں ہاں تم دیکھ لینا جو کچھ منگوانا ہو تیمور کو لسٹ بناکر دے دینا۔"

★**★

دوسرے دن اس نے صبح جلدی اٹھ کر کسٹرڈ تیار کرکے رکھا تاکہ شام تک اچھی طرح ٹھنڈا ہوجائے۔نرمین نے مینو میں میکرونی کا اضافہ بھی کردیا تو اس کے لیے فریزر سے بون لیس چکن نکال کر اس میں مسالا لگایا۔ میکرونی وہ پہلے سے ہی ابال کر رکھ چکی تھی تاکہ وقت کی بچت ہوسکے۔

آدھے سے زیادہ کام وہ دوپہر تک نمٹاچکی تھی شکر تھا کہ آج صفائی نرمین بیگم کررہی تھیں۔اس نے کچن سے فارغ ہوکر بچوں کو نہلادھلاکر صاف ستھرا کیا پھر خود نہاکر نماز پڑھنے لگی۔

نماز سے فارغ ہوکر اس نے کھانا گرم کرکے دسترخوان لگایا اور ساس اور نرمین کو کھانے کے لیے بلایا۔

کھانا کھاکر برتن سمیٹے اور پھر وہ بچوں کو سلانے کے لیے لیٹ گئی صبح کی تھکی ماندی تھی سو اس کی آنکھ لگ گئی۔

"بھابھی اٹھیں۔"ابھی اس لیٹے ادھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ نرمین نے اس کا بازو ہلایا۔

"کیا ہوا؟"اس نے حیران ہوکر پوچھا پانچ بجنے والے ہیں وہ چھ بجے تک آجائیں گی، امی کہہ رہی ہیں باقی کا کام جلدی سے نمٹالیں۔"

"ہممم میں بھی بس اٹھ ہی رہی ہوں۔" وہ  کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

★***★

مہمان خواتین چھ بجے کے بعد گھر میں داخل ہوئیں۔حبہ جب تک سب ہی چیزیں تیار کرکے بالکل فارغ ہوچکی تھی۔

بڑے ہی خوشگوار ماحول میں سب نے  ہائی ٹی سے لطف اٹھایا۔مہمان خواتین کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں نرمین پسند آگئی ہے۔

لڑکے کی والدہ نرمین سے چھوٹے موٹے مختلف سوالات

پوچھتی رہیں جبکہ ساس اور حبہ سب کو کھانے کی مختلف چیزیں خوشدلی سے پیش کررہی تھیں۔حبہ ایک اچھی کک تھی سب ہی چیزیں ذائقہ دار تھیں۔

"یہ لیجیے نا۔۔میری نرمین  بڑے مزے دار شامی کباب بناتی ہے۔"ساس کے منہ سے نکلنے والے جملے پر جہاں حبہ نے حیرت سے انہیں دیکھا وہیں نرمین بھی اپنی جگہ گڑبڑاگئی۔

یہ تو صاف جھوٹ تھا جو انہوں نے بولا تھا۔

"اور یہ میکرونی بھی بہت ٹیسٹی ہے کیا یہ بھی نرمین نے بنائی ہے؟"لڑکے کی بہن نے میکرونی سے لطف اندوز ہوتے پوچھا۔

"ہاں یہ بھی اس نے ہی بنائی ہے۔" مسکراہٹ میں لپٹا ایک اور جھوٹ۔۔۔۔

حبہ کے لبوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ آٹھہری اور دل ایک دم سے اس محفل سے اچاٹ ہوگیا۔

★**★

"حد ہوتی ہے جھوٹ کی۔۔۔۔مجھے کام کرنے پر اعتراض نہیں مگر اس طرح کی حرکتیں ناقابل برداشت ہیں۔"

رات کو تیمور کے سامنے وہ پھٹ پڑی۔

"تم لوگوں کی یہ گھریلو سیاست مجھے پاگل کردے گی۔یہ ساری باتیں سن کر میں بھلا کیا کرسکتا ہوں؟کیا امی سے جاکر پوچھوں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟بولو۔۔۔ہر وقت تمہارا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ امی نے یوں کیا نرمین یہ کرتی ہے۔"

"ارے اور گھروں میں جاکر حالت دیکھو ساس نندیں دیورانی جٹھانیاں کیسے  جینا حرام کرتیں ہیں۔یہ تو دیکھو امی تمہاری تعریف بھی تو کرتی ہیں مگر تمہیں ناشکری کی عادت ہے۔" وہ سارا دن کا تھکاہارا اب ذرا سکون لینے کو لیٹا تھا کہ حبہ بیگم کے دکھڑے سن کر بے زار ہوگیا ۔

"میں سیاست کرتی ہوں؟یا میرے ساتھ سیاست کی جاتی ہے؟اور کب تعریف کرتی ہیں؟آپ سے یا دوسرے لوگوں سے میں اس تعریف کی بھوکی نہیں۔۔۔اور نہ ہی مجھے فضول میں ان کی یا نرمین کی غیبت کرنے کا شوق ہے۔میں تو حتی المکان یہی کوشش کرتی ہوں کہ اپنے کام سے کام رکھوں۔ ان کی عزت کروں۔گھر کے کام دل جمعی سے کروں۔مگر ساری محنت پر ان کا ایک جملہ یا پھر دل دکھانے والا رویہ پانی پھیر  کر رکھ دیتا ہے اور میری ہر کوشش اکارت جاتی ہے۔میں خود کو بے بس پاتی ہوں۔دل دکھتا ہے تو آپ سے شکوہ کر بیٹھتی ہوں۔"اب وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔تیمور ہمیشہ کی طرح تاسف سے اسے تک رہا تھا۔

اپنی ماں اور بہن کے غلط رویے وہ کئی بار اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکا تھا مگر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا حبہ پھر بھی ہر دفعہ اسی سے گھر کی باتیں کرنے پر مجبور ہوجاتی۔

"ان کی تعریف میرے کسی کام کی نہیں میں ان سے تعریفی جملوں کے بجائےاچھے رویے کی طلب گار ہوں۔ میں چاہتی ہوں وہ میرا احساس کریں ان کی جو باتیں مجھے تکلیف دیتی ہیں وہ نہ کریں۔"

وہ اپنی جگہ ٹھیک تھی۔وہ یہ جانتا تھا وہ ایک سلجھی ہوئی طبیعت کی صلح جو لڑکی تھی۔چھوٹی موٹی کئی باتیں وہ چپ چاپ برداشت کرجاتی تھی۔مگر کبھی کبھی کوئی بات دل پر ایسی لگ جاتی کہ وہ بے چین ہوجاتی۔

"دیکھو حبہ۔۔۔یہ دنیا ہے۔یہاں ہر انسان دوسرے سے مختلف ذہن رکھتا ہے اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں۔پر تم بہت حساس ہو ہر بات۔۔۔ہر رویے کو سر پر سوار کرلیتی ہو۔اتنا مت سوچو کہ وہ یہ کرتا ہے ہے یا کس نے کیا نہیں کیا۔اگر امی نے ان خواتین کے سامنے مصلحتا جھوٹ بول بھی دیا تو اس میں غلطی ان کی ہے، میں مانتا ہوں لیکن وہ جھوٹ بول کر سراسر اپنا نقصان کر رہی ہیں اور ساتھ میں نرمین کا بھی۔۔اس میں تمہارا کچھ نہیں جارہا اور یاد رکھو سچ کو آنچ نہیں۔تم اپنا دل خراب مت کرو۔۔۔جو جیسا کرے گا وہ اللہ کے یہاں اپنے کیےجوابدہ ہوگا۔"وہ اس کو سمجھاتے ہوئےرسان سے بولا۔

وہ جانتا تھا کہ وہ صبح اپنی نیند قربان کرکے اٹھی تھی اور بچی بھی رات بھر اسے تنگ کرتی رہی تھی۔وہ اس سے ہمدردی رکھتا تھا مگر وہ کچھ بول کر گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اس نے سوچ لیا تھا کہ کسی دن مناسب موقع دیکھ کر امی کو  بھی  محبت سے سمجھائے گا۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی اس کے بہتے اشک تیمور کی تسلی آمیز باتوں سے تھم گئے تھے۔اور اس کے دل پر دھرا بے نام سا تکلیف دہ بوجھ اترگیا۔

★**★

 

آنے والے مہمانوں کو نرمین پہلی نطر میں ہی بھاگئی تھی۔اس کی ساس اور تیمور بھی لڑکے کو دیکھ کر آچکے تھے ساری معلومات کرواکر انہیں ہاں کردی گئی۔چھوٹی سی تقریب میں انگوٹھی پہناکر رسمی طور پر رشتہ پکا ہوگیا۔

اماں اگلے دوسال تک نرمین کی شادی کے حق میں نہیں تھیں۔ان کے بقول وہ ابھی چھوٹی اور ناسمجھ ہے۔دوسری جانب سے چند ماہ بعد ہی شادی کا مطالبہ ہونے لگا۔نرمین کے ہونے والی ساس تو بضد تھیں کہ تین ماہ بعد شادی لازمی کرنی ہی ہوگی۔ان کے پرزور اصرار پر اماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے اور عید کے بعد کی تاریخ رکھی گئی۔اب نرمین اور اماں کا زیادہ تر وقت بازاروں میں گھومتے شاپنگ کرتے گزرتا انہیں یہ فکر نہ تھی کہ نرمین کو کچھ کھانا پکانے اور سیکھنے سکھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

حبہ کا اس معاملے میں کچھ بھی بولنا آبیل مجھے مار کے مصداق تھا ،اس لیے وہ چپ سادھے اپنے کاموں میں مشغول رہتی۔ تیمور نرمین کی لاپروا طبیعت سے خائف رہنے لگا تھا کیونکہ  وہ ہر وقت موبائل ہاتھ میں لیے رکھتی تھی اور گھر کے کاموں میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ شادی میں صرف ایک ماہ باقی تھا۔ اماں تو بس نرمین کے لاڈ اٹھانے میں مگن تھی کہ ان کی اکلوتی بیٹی کی کوئی خواہش ادھوری نہ رہ سکے اسے باپ کی کمی محسوس نہ ہو۔

ایک دن تیمور نے صرف اتنا کہا کہ" اماں نرمین کو کچھ چھوٹی موٹی ڈشیں ہی سکھائیں اسے سسرال  بھی جانا ہے۔

لیکن اماں کو نرمین کے زور بازو پر حد سے زیادہ بھروسا تھا فورا بولیں۔

"ارے تم کاہے کو فکر کرتے ہو۔جب سر پر پڑے گی تو سب سیکھ جائے گی۔تمہاری بیگم کو بھی کیا آتا تھا جب وہ بیاہ کر آئی تھی۔"

"لاحول ولاقوہ۔۔۔"

تیمور اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔وہ تو بہن کی ہمدردی میں بول رہا تھا اور اماں بات کو کہاں لے جارہی تھیں۔

شکر تھا کہ حبہ بچوں کو سلانے کے لیے کمرے میں جاچکی تھی ورنہ اس کو اماں کی یہ بات بھی بڑی مشکل سے ہضم ہوتی کیونکہ وہ شادی سے پہلے ہی کافی کچھ بنالیتی تھی۔

★**★

نرمین کی شادی پر اماں نے خوب خرچے کئے نرمین کے کامدار سوٹ،بہترین فرنیچر ایک سے بڑھ کر ایک کراکری۔۔۔مہنگی مہنگی بیڈشیٹیں۔۔۔ پھر سسرالیوں کے منع کرنے کے باوجود ان کے جوڑے بنائے۔دولہا کو پچاس ہزار کیش کے علاوہ بصد اصرار بارات ولیمے کا جوڑا بھی بناکر دیا۔گویا بیٹی کے سسرال میں اپنے پیسے سے دھاک بٹھانی چاہیے۔

تیمور نے کئی بار اماں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اسراف سے بچیں مگر اپنی عادت کے مجبور وہ یہی کہتیں تم پر اکلوتی بہن بھاری ہے تو میرے کچھ زیور بیچ کر خرچہ کرلو۔میری بچی کی خوشیاں مجھے ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہیں۔نرمین بھی کسی چیز میں کمپرومائز کرنے کی روادار نہ تھی اسے مہنگی اور ہائی کوالٹی کی چیزیں ہی پسند آرہی تھیں۔جبکہ حبہ نے نند کی شادی میں اپنا بارات ولیمے کا جوڑا نکال کر پہنا۔وہ جانتی تھی تیمور پر پہلے ہی خرچوں کا بھوت سوار ہے ایسے میں وہ اپنی ذات سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔

★**★

اماں کی امیدوں کے عین مطابق سسرال میں نرمین کو خوب پذیرائی ملی۔سسرال والے برانڈڈ کپڑوں کی پہنوانیاں پاکر بہت خوش ہوئے۔مال مفت دل بے رحم ہر کوئی نرمین کا جہیز دیکھ کر مرعوب ہوا جارہا تھا وہ کون سی چیز تھی جو ان کی اماں اور بھائی نے نہیں دی تھی۔(جاری ہے)