میں فخر سے کہہ سکتی ہوں میرے ابا جان دنیا کے بہترین والد ہیں۔
روبینہ عبد القدیر
مریم مدرسے سے پڑھ کر آئی تھی، جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی تو امی جان نے محبت سے گلے لگایا اپنے پاس بٹھایا، اور ٹھنڈا پانی دیا۔ جب حواس کچھ بحال ہوئے تو اس نے دیکھا اندر کمرے میں ابا جان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آج مدرسے میں باجی نے بتایا تھا کہ جب گھر میں داخل ہوں تو سب کو سلام کیا کریں،
یہی سوچ کر وہ اندر داخل ہوئی اور ابا کو سلام کیا۔ انہوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ چہرے کے تاثرات اتنے سرد مہر تھے کہ مریم کا دل اداس ہو گیا۔ اسے نہیں یاد تھا کہ کبھی ابا نے پیار سے بات کی ہو، یا اس کے سر پر دست شفقت بھی رکھا ہو۔ وہ چپ چاپ کمرے سے باہر نکل آئی اور امی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔
٭٭٭٭
مریم حفظ کی طالبہ تھی۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کے ابا جان مسجد میں امام تھے۔ یوں تو مریم کی ہر خواہش اور فرمائش پوری ہو جاتی تھی لیکن اسے اباجان سے جس محبت و شفقت کی توقع رہتی وہ کبھی نہ ملی تھی۔ ایک تشنگی سی تھی، جو اندر ہی اندر اسے کھاتی رہتی تھی۔ مدرسے میں اس کی ہم جماعت اپنے گھر کی باتیں بتایا کرتیں، کوئی اپنے ابا کے ساتھ گھومنے کی باتیں کرتی تو کوئی ان کے ساتھ گپ شپ کی۔ ایسی باتیں سن کر مریم مزید احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگی تھی۔
٭٭٭٭
سیاہ آسمان پر چودہویں کا چاند اپنا حسن بکھیر رہا تھا۔ صحن میں رکھے تخت پر لیٹی مریم نہ جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
"میری بیٹی اتنی رات یہاں کیوں لیٹی ہوئی ہے؟" اچانک اسےامی جان کی آواز آئی۔
"بس یونہی امی جان۔" مریم نے دھیرے سے جواب دیا۔
امی جان وہیں تخت پر مریم کے پاس بیٹھ گئیں اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
کچھ لمحے یوں ہی خاموشی میں گزر گئے۔
"امی جان۔" اس نے آنکھیں موندے آہستگی سے انہیں پکارا۔
"جی بیٹی۔" ممتا بھرے میٹھے لہجے میں جواب آیا تھا۔
"ابا جان مجھ سے پیار کیوں نہیں کرتے؟" نہ جانے کیسے یہ شکوہ لبوں سے پھسلا تھا۔
"کس نے کہا پگلی؟" امی جان کو شدید حیرانی ہوئی۔
"بس مجھے ایسا لگتا ہے۔ ابا نے کبھی مجھ سے پیار سے بات نہیں کی، نہ کبھی شفقت سے مسکرا کر دیکھا۔ میں تو آپ لوگوں کی ہر بات مانتی ہوں، پھر بھی ابا مجھ سے راضی نہیں شاید۔" وہ آج سارے شکوے کرتی گئی۔
"نہیں بیٹی۔ ہر باپ کو اپنی بیٹی سے بہت محبت ہوتی ہے لیکن مزاج کی بات ہوتی ہے۔ تمہارے ابا بھی تم سے بہت پیار کرتے ہیں۔" انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"نہیں امی جان! بیٹیوں سے شفقت کا مظاہرہ تو ہمیں نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی ملتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اتنی محبت کرتے تھے کہ جب وہ آتیں نبی کریم ﷺ کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے تھے۔" مریم نے سیرت النبی ﷺ کا پہلو سامنے رکھنے کی کوشش کی۔
"بیٹا نبی کریم ﷺ تو ہر معاملے میں مکمل انسان تھے، خطاؤں سے پاک۔" امی جان نے درود شریف پڑھتے ہوئے جواب دیا۔
"اور ہماری باجی نے بتایا تھا، جب غزوہ بدر کا موقع تھا تو نبی کریم ﷺ کی بیٹی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا شدید بیمار تھیں۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جنگ پر جانے سے منع کیا تھا تاکہ وہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا خیال رکھیں۔" مریم چاند میں دیکھتی چودہ سو سال قبل تاریخ محمدیہ میں پہنچ گئی تھی۔
"نبی کریم ﷺ بیٹیوں سے شفقت کا حکم دیتے تھے، وہ تو پیکر محبت تھے۔" امی جان نے مختصر جواب دیا۔
"کاش میرے ابا بھی امام مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے اس پہلو پر نظر ڈالیں اور اس پر عمل کی کوشش کریں تو کتنا اچھا ہو۔" مریم کی اداسی برقرار تھی۔
"چلو بیٹی اندر چل کر سو جاؤ، صبح پڑھنے بھی جانا ہے۔" امی جان نے اسے اٹھنے کی تلقین کی۔
وہ دھیرے سے سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
صحن سے متصل برآمدے کے داخلی دروازے پر کھڑے اباجان نے ان کی ساری باتیں سنی تھی اور اپنے رویے پر انہیں احساس جرم ہو رہا تھا۔ وہ منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو سیرت النبی ﷺ پر عمل کی تلقین کرتے تھے لیکن سیرت النبی ﷺ کے اتنے روشن پہلو پر خود عمل سے قاصر تھے۔ ایک نئے عزم اور جذبے سے ان کے قدم اندر بچھی جائے نماز کی جانب بڑھے۔
اب انہیں مریم کے دل سے ہر شکوہ ختم کرنا تھا لیکن اس سے پہلے اللہ تعالٰیٰ سے مدد بھی تو مانگنی تھی۔
٭٭٭٭
کچھ دنوں بعد
"ارے مریم! ماشاءاللہ اتنی خوب صورت ڈائری تم نے کہاں سے لی؟" اس کی ساتھی طالبہ حرا نے اس کے ہاتھ میں پکڑی ڈائری دیکھ کر سوال کیا۔
"یہ میرے ابا جان میرے لیے تحفہ لائے تھے۔" مریم نے عقیدت سے ڈائری کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بتایا۔
"لیکن تم تو کہتی تھی تمہارے ابا بہت سخت گیر ہیں، تم سے کبھی مسکرا کر بات بھی نہیں کی تو یہ؟" حرا نے حیرت سے پوچھا۔ حرا سے اس کی دوستی بہت گہری تھی اس لیے اکثر اپنے دکھ درد بانٹ لیا کرتی تھی۔
"ہاں کہا کرتی تھی، لیکن اب میں فخر سے کہہ سکتی ہوں میرے ابا جان دنیا کے بہترین والد ہیں۔" مریم نے مسکرا کر کہا۔
"لیکن یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟"
"پیارے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کی برکت سے۔"
پھر مریم نے اس رات اپنی امی سے کی گئی باتیں اور ابا جان کا اس دن کے بعد سے مزاج میں بدلاؤ سب حرا کو بتایا.
"سبحان اللہ! واقعی ہمارے لیے زندگی کے ہر معاملے میں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں جن پر عمل کر کے ہم خود کو سنوار سکتے ہیں۔" حرا نے خوش دلی سے کہا۔
وہ دونوں دل ہی دل میں نبی کریم ﷺ پر درود و سلام پڑھنے لگیں جنہوں نے اپنے اسوہ حسنہ سے ہر مسلمان کی راہ کے کانٹے چودہ سو برس قبل ہی چن لیے تھے۔