میری شادی کے وقت شمسہ بھابھی کی گود میں چھوٹا بچہ تھا ڈیڑھ دو ماہ کا۔ اسے گود میں اٹھائے رکھتیں، نہ کوئی پیمپر پہنایا ہوتا اور نہ ہی کوئی بچھونی ساتھ رکھتیں وہ ان کی گود میں ہی پیشاب کرتا رہتا۔ ایک دن میری مسہری پر لٹا دیا کہ چھت میں لگے پھولوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ میں نے کہا اس کے نیچے کوئی بچھونی بچھا دیں یہ پیشاب کرے گا تو بستر گیلا ہوگا ناپاک ہوگا۔“
از۔۔۔۔زہرہ جبیں کراچی
دوسرا حصہ
میں اکثر تنہائی میں سوچا کرتی کیا شادی اسی چیز کا نام ہے... ایک لڑکی اپنا گھر، خاندان، ماں باپ، بہن بھائی، رشتے دار، سہیلیاں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے خاندان میں آ بستی ہے کہ بس اب یہی اس کا گھر اور یہیں مرنا جینا ہے۔ یہ کیسی ہجرت ہے جو کتنے ہی دکھوں اور قربانیوں سے عبارت ہے اور جس شخص کے لیے یہ ہجرت کی جاتی ہے وہی اپنے من کا میت نہ بن سکے تو زندگی کیسی کانٹوں بھری سیج بن جاتی ہے۔ شادی کو کئی مہینے ہو چکے تھے ساس اچھی تھیں میرا خیال کرتی تھیں لیکن شمسہ بھابھی اور دیگر کچھ اور لوگوں نے میری زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی انھیں کیوں مجھ سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ میری شادی کے وقت شمسہ بھابھی کی گود میں چھوٹا بچہ تھا ڈیڑھ دو ماہ کا۔ اسے گود میں اٹھائے رکھتیں، نہ کوئی پیمپر پہنایا ہوتا اور نہ ہی کوئی بچھونی ساتھ رکھتیں وہ ان کی گود میں ہی پیشاب کرتا رہتا۔ ایک دن میری مسہری پر لٹا دیا کہ چھت میں لگے پھولوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ میں نے کہا اس کے نیچے کوئی بچھونی بچھا دیں یہ پیشاب کرے گا تو بستر گیلا ہوگا ناپاک ہوگا۔“
”ائے ہائے تم سے کس نے کہہ دیا اتنے چھوٹے بچے کا پیشاب ناپاک ہوتا ہے؟ یہ تو معصوم بچہ ہے اس کا تو پیشاب بھی پاک ہے۔“
”ارے.... یہ کس نے کہہ دیا آپ سے؟ پیشاب تو گندگی ہے، کہیں لگ جائے تو دھو کر پاک صاف کرنا چاہیے۔“ اور اتنی دیر میں وہ بچہ گدے پر پیشاب کر بھی چکا تھا۔ میری تو دکھ اور صدمے سے بری حالت... میرا بستر ناپاک کر دیا۔ ڈبل بیڈ پر بچھا ہوا چھے انچ موٹا گدا، اتنا بڑا، اتنا بھاری... میں اسے کیسے دھوؤں گی؟ میں صدمے سے گنگ کھڑی تھی اور وہ اپنے بچے کے پیشاب پر نہال ہوئی جا رہی تھیں۔ ”اوئے ہوئے میرا سونا بچہ! چچی کے گدے پر پیشاب کر دیا... ہاہاہاہا...“ وہ بے ہنگم سا ہنسنے لگیں۔ انھیں ذرا بھی شرمندگی نہیں تھی۔
”دیکھا بھابھی! میں کہہ رہی تھی نا؟ بچھونی اور پلاسٹک بچھا دیں اس کے نیچے۔ بچے کا کیا بھروسا کسی وقت بھی یہ کام کر دے۔“ میں نے لہجے کو بہت حد تک قابو رکھتے ہوئے کہا ۔
”ارے بھئی کچھ نہیں ہوتا.. پاک ہوتا ہے بچے کا پیشاب ۔ یہ کہتی ہوئی اسے گود میں اٹھائے لے گئیں۔ میں نے احتجاجی نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا... لیکن انھیں کوئی فرق ہی نہیں پڑا جیسے یہ سب معمول کی بات ہو۔ کندھے اچکا کر رہ گئے اور مجھے بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
میں نے بیڈ کی پرانی چادر لے کر پیشاب والی جگہ پر اچھی طرح رگڑ رگڑ کر خشک کیا اور پھر دو تین دفعہ گیلے کپڑے سے گدا صاف کیا۔ پنکھا تیز کر کے چلا دیا تاکہ جلدی خشک ہو. پھر دھلی ہوئی صاف چادر بچھائی۔ چلو کچھ درجے میں تو صفائی ہو ہی گئی۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ سسرال میں ایک شوہر کا ہی تو سہارا ہوتا ہے وہ بھی دامن جھاڑ دے تو کس کے بھروسے سر اٹھایا جائے۔
اور پھر ہفتے میں ایک دو بار تو ضرور ایسا ہوتا کہ ان کا بچہ میرے بستر پر پیشاب کر دیتا اور میں ہر بار خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔ میں صفائی ستھرائی کی شوقین پنج وقتہ نمازی اپنے بستر پر ایسی گندگی کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ لیکن زیادہ کچھ بولتی تو وہ کہتیں...”ہاں جب تمہارے اپنے بچے ہوں گے تو دیکھ لیں گے“ تین چار مہینے تک میں یہ مصیبت برداشت کرتی رہی. پھر ایک دن میاں کے ساتھ مل کر گدا پلٹوایا، صاف ستھری بیڈ شیٹ بچھائی اور شوہر کو بھی خبردار کر دیا کہ اب اگر وہ بچہ بچھونی کے بغیر یہاں لیٹا تو میں برداشت نہیں کروں گی۔ میرے تیور خطرناک تھے، شوہر بھی رعب میں آ گئے۔ جانے شمسہ بھابھی سے انھوں نے کیا کہا کہ اس کے بعد وہ اپنے بچے کو میرے بستر پر نہیں لٹاتی تھیں ہاں لیکن باہر برآمدے میں بچھے ساس کے پلنگ میں جھولا باندھ دیا۔ اب بچہ پیشاب کرتا تو فرش پر ہی بہتا... چھوٹی نند افشین پوچھے سے صاف کر دیتی۔ شکر ہے میری جاں خلاصی ہوئی۔ ***
شمسہ بھابھی کپڑے دھوتیں تو وہ بھی میرے پورشن میں لا کر سکھاتیں۔ ہر ہفتے مشین لگاتیں، سرف کے کپڑے ٹب میں بھرے پانی میں سے نکال نکال کر رکھتی رہتیں، نچوڑتی بھی نہیں اور یوں ہی لا کر برآمدے میں بندھی ہوئی رسیوں پر کپڑے پھیلا دیتیں۔ مجھے سخت اذیت ہوتی کہ کپڑوں کو اچھی طرح دھوتیں بھی نہیں پاک بھی نہیں کرتیں اور یوں ہی لا کر میرے گھر میں سکھا دیتی ہیں۔ میرا گھر تھا ہی کتنا... بس ایک کمرہ اور باہر ایک برآمدہ. گیلری اتنی چھوٹی سی تھی کہ اس میں کپڑے نہیں سکھائے جا سکتے تھے. برآمدے میں ہی ساس کے پلنگ سے ایک طرف تین چار رسیاں باندھ رکھی تھیں انہی پر کپڑے ڈال کر پنکھا چلا دیا کرتے تھے اور کپڑے سوکھ جاتے ۔ لیکن شمسہ بھابھی کے کپڑوں میں اس قدر پانی بھرا ہوتا تھا کہ گھنٹوں ٹپکتا رہتا۔ پھر فرش پر بہتا ہوا سیڑھیوں کی طرف چلا جاتا۔ گھر میں چلنا پھرنا محال ہو جاتا۔ جدھر جاؤ پانی ٹپ ٹپ کرتا رہتا.. جب کہ وہ کپڑے صاف پانی سے دھلے ہوئے بھی نہیں ہوتے تھے۔ مجھے یہی شبہ رہتا ان کپڑوں سے ٹپکتا پانی ناپاک ہے کیوں کہ ان کے بڑے بچے بھی پیشاب میں احتیاط نہیں کرتے تھے. کھڑے کھڑے پیشاب کرتے اور دھوتے بھی نہیں تھے۔ کئی بار انھیں سمجھایا کپڑے اس طرح دھویا کریں لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگتی۔ (سالوں یہ اذیت برداشت کی میں نے)۔ کئی بار دکھ سے رو دیا کرتی. لیکن نہ جانے میں بھی کس مٹی سے بنی تھی تھوڑی دیر بعد پھر ہنستی مسکراتی ملتی۔ میں نے خاندانی سیاست کے وہ وہ رنگ دیکھے کہ میری عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ کتنے ہی داؤ پیچ مجھ پر آزمائے جاتے... ہر گھاؤ کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ ***
شمسہ بھابھی کی استری ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ وہی روٹین چل رہی تھی... استری میرے کمرے سے زیادہ ان کے گھر میں پائی جاتی۔ کبھی کبھی تو میرا دل چاہتا استری پر کوئی اندوہناک سا نوحہ لکھوں۔ اور اس دن تو حد ہی ہو گئی میں ساس کے ساتھ شمسہ بھابھی کے پورشن میں ہی تھی۔ بڑی دو جیٹھانیاں بھی موجود تھیں. شمسہ بھابھی نے استری لاؤنج میں بچھے تخت کے نیچے رکھی ہوئی تھی، چھوٹی نند وہاں کا فرش دھونے لگی تو جھاڑو سے پانی کے چھینٹے بار بار استری پر پڑنے لگے۔ گندے پانی سے استری گیلی ہوئی جا رہی تھی۔ اب چیز پرائی ہے تو کیا اس کا اتنا بھی خیال نہیں کہ حفاظت سے سنبھال کر ہی رکھ دیں۔ مالِ مفت دل بے رحم کی مثل بالکل صادق آ رہی تھی اس وقت۔ اپنی چیز کی ایسی ناقدری پر کس کا دل نہیں دکھتا۔ میں نے بھی اسے ذرا سا ڈانٹ دیا کہ دیکھ کر کام کرو افشین! استری پانی میں گیلی ہو رہی ہے، خراب ہو جائے گی۔
” لو بھابھی! یہ تو روزانہ یہیں رکھی رہتی ہے روز فرش دھلتا ہے، کوئی نہیں خراب ہوتی۔“ اس نے تیکھے لہجے میں جواب دیا ۔
”کیا کہا... ؟ روزانہ گیلی ہوتی ہے۔ اللّٰہ کی بندی کچھ تو خیال کرو۔ تمہیں بالکل تمیز نہیں ہے کیا! جب فرش دھونا ہو استری اٹھا کر اوپر تخت پہ رکھ دو تو تمہارا کیا جاتا ہے۔ لاؤ یہ مجھے دو اور اب مت لے کر آنا نیچے۔ جسے کپڑے استری کرنے ہوں اوپر آکر ہی کر لیا کرے۔“ یہ کہتے ہوئے میں وہاں سے استری اٹھا کر لے آئی. اس بات پر بھی بعد میں خوب ہنگامہ ہوا، ساس اگرچہ موقع پر موجود تھیں پھر بھی میرے خلاف ان کے خوب کان بھرے گئے۔ شوہر کو بھی سکھایا پڑھایا گیا۔ وہ بھی آ کر مجھ پر ہی غصہ کرنے لگے۔
”لیکن میں نے کیا غلط کیا ہے مجھے یہ بتا دیں آپ؟ اپنی چیزوں کو ایسے ہی خراب ہونے دوں؟ بھلا ایسے کون کرتا ہے کسی کے ساتھ؟ اس گھر کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کوئی کل سیدھی نہیں۔ میں نے صرف یہی تو کہا تھا کہ فرش دھوتے ہوئے استری کو اٹھا کر اوپر رکھ دیا کریں۔ ایسا میں نے کیا غضب کر دیا بھلا؟“ ”ایک تو چوبیس گھنٹے تم کیوں استری استری کرتی رہتی ہو... میری سمجھ میں نہیں آتا۔“ وہ انتہائی جھلائے ہوئے لہجے میں بولے..
”دیکھیں! میں صرف یہ چاہتی ہوں جو چیز جہاں رکھی ہے، استعمال کے بعد اسے وہیں اس کی جگہ پر رکھ دیا کریں۔ بس اتنی سی بات آپ کے گھر والے آخر کیوں نہیں سمجھتے؟ ہر چیز اٹھا کر نیچے لے جاتے ہیں میں سخت پریشان ہوتی ہوں. سبزی کاٹنی ہے تو چھری نیچے ہے، ایک اچھی چھری تک وہ نہیں خرید سکتیں۔ میں تنگ آ جاتی ہوں اوپر نیچے کے چکر لگا لگا کر...!
”تو تم خود کیوں چکر لگاتی ہو، آواز لگا دیا کرو وہ خود بھجوا دیں گی اوپر۔“ ”جتنی دیر تک میں آوازیں لگاتی رہوں وہ سنیں اور پھر چھری بھجوائیں... اس سے بہت کم وقت میں، میں خود جا کر لے آتی ہوں۔ مگر یہ سب ٹھیک تو نہیں ہے نا...!! بھئی اپنی چیزیں استعمال کریں اگر نہیں ہیں تو خرید کر لے آئیں۔ اپنی استری کیوں نہیں ٹھیک کروا لیتیں وہ! آپ ان سے اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں“
لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ الٹا میرے میکے تک شکایت پہنچا دی گئی کہ آپ کی بیٹی ایسا کرتی ہے۔“ بھائی اس بارے میں مجھ سے پوچھنے لگے تو میں نے ساری صورت حال ان کے سامنے رکھ دی اور رو پڑی۔ ”مجھے سمجھ نہیں آتا بھائی میں کیا کروں؟ یہ لوگ کیوں مجھے اتنا تنگ کرتے ہیں؟ میں تو ہر ایک کے کام آتی ہوں سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہوں اپنی زبان کو قابو میں رکھتی ہوں کہ کوئی سخت بات نہ کہوں کسی کو۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ پیٹھ پیچھے میرے اور میرے گھر والوں کے خلاف محاذ کھولے رکھتے ہیں۔ ساس کی اتنی خدمت کرتی ہوں... وقت پہ کھانا تیار کرتی ہوں، چائے ناشتا سب کچھ وقت پر تیار کر دیتی ہوں۔ سب کے کپڑے دھوتی ہوں پوری ذمے داری سے گھر سنبھالتی ہوں پھر بھی مجھ سے شکایتیں... اور میں کیا کروں آخر؟ “
”عظیم بھائی کا رویہ کیسا ہے تمہارے ساتھ؟“ بھائی نے مجھ سے سوال پوچھا. اور میں بس دکھ سے ان کی صورت ہی دیکھتی رہ گئی.. کیا بتاؤں اور کیا نہ بتاؤں...... عجیب کشمکش تھی۔
(جاری ہے)