ابھی ایک حاجی صاحب کی گفتگو سنی، جس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے۔ وہ پاکستان سے صرف پچیس کلو تو دانہ لے کر آئے ہیں جو انھیں ہمارے عقیدت مندوں نے دیا ہے اور بصد اصرار دیا ہے۔ کسی نے ایک کلو کا پیکٹ کسی نے دو کلو، آدھا کلو، پانچ کلو... اففف اس قدر تھیلیاں تھیں جو حاجی صاحب بیگ سے نکال نکال کر باہر رکھ رہے تھے
مرکزی خیال : ام حمزہ
تحریر : ام محمد سلمان

آئیے مجھ سے ملیے.. میں ہوں حرم کا کبوتر!! میں مکہ مدینہ کی حسین اور سخت جان وادیوں میں بسنے والا جنگلی کبوتر ہوں۔ میں سرمئی چمک دار رنگت والا انتہائی خوبصورت پرندہ ہوں۔ میری آنکھوں میں بلا کی چمک اور کشش ہے۔ گردن میں ایک حسین رنگین پٹی ہے۔

یوں تو مجھ سے محبت ہر ملک اور ہر عمر کے لوگ کرتے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی مجھ سے انسیت و عقیدت نرالی ہے۔ اس محبت و عقیدت میں وہ مجھے اتنا کھلاتے ہیں... اتنا کھلاتے ہیں کہ بس کھلا کھلا کے مار دینا چاہتے ہیں...! مجھے ایسا لگتا ہے میں بالکل ہی ناکارہ ہو چکا ہوں! وہ غمِ روزگار میں ڈال ڈال پھرنا... پہاڑوں اور چٹانوں پر اڑنا، درختوں پر چہکنا... باغوں میں اٹھکھیلیاں کرنا... سب کچھ میری زندگی سے چلا گیا ۔ میں ان عمارتوں کے اندر باہر رہتا ہوں اور بس کھانے کے لیے اڑ کر جاتا ہوں جگہ جگہ دانوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، کھا پی کر پھر پیر پسار کر لمبا لمبا لیٹ جاتا ہوں۔

آج کل تو حج کا موسم ہے. روزانہ ہی حاجی جوق در جوق سرزمین حرمین شریفین پر حاضر ہو رہے ہیں۔ اور ان کے سامان میں دس دس پندرہ پندرہ کلو کے پیکٹ دانے کے ہوتے ہیں. جن میں گندم، باجرہ اور دالیں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ وہ اتنی دور سے ہمارے لیے اٹھا کر لاتے ہیں..!

کوئی مجھے بتائے ان سے آخر کس نے کہہ دیا ہے کہ ہم یہاں آپ کے دانے دنکے کی بوریوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں نہیں بھائی نہیں!! ہم آپ کے دانے کے بالکل محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سرزمین پہ پیدا کیا ہے تو ہماری خوراک کا بندوبست بھی کیا ہے، جیسے باقی سب جانداروں کا کیا ہے۔ ہمارے لیے آپ کے کھانے کے بچے کھچے ٹکڑے ہی کافی ہیں اور بھی بہت کچھ ہے جو ہمیں اپنے دیس سے مل جاتا ہے۔ مگر خدارا ہمیں اتنے بھاری اناج تلے مت دبائیے... ہم انسانوں کی طرح موٹی توند بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ ہماری قوتِ اڑان پر بہت برا اثر پڑے گا۔ اپنی محبت و عقیدت میں ہمیں ہماری فطرت سے محروم مت کیجیے ۔

ابھی ایک حاجی صاحب کی گفتگو سنی، جس نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے۔ وہ پاکستان سے صرف پچیس کلو تو دانہ لے کر آئے ہیں جو انھیں ہمارے عقیدت مندوں نے دیا ہے اور بصد اصرار دیا ہے۔ کسی نے ایک کلو کا پیکٹ کسی نے دو کلو، آدھا کلو، پانچ کلو... اففف اس قدر تھیلیاں تھیں جو حاجی صاحب بیگ سے نکال نکال کر باہر رکھ رہے تھے۔ اور اپنی دکھ بھری داستان بھی سنا رہے تھے کہ لوگ کس طرح اصرار کر کر کے دانے کے یہ پیکٹ زبردستی دے کر جاتے ہیں کہ مکہ مدینہ کے کبوتروں کو ڈالنا ہے۔

مجھے تو بے چارے حاجی صاحب پر ترس آرہا تھا کہ اتنی دور سے وہ پچیس تیس کلو صرف دانہ اٹھا کر لائے ہیں۔ باقی اپنا زاد سفر الگ.....!

ایک حیرت انگیز انکشاف میں اور کرتا چلوں شاید آپ سب عقیدت مندوں کی آنکھیں کھل جائیں... یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ چوکوں، چوراہوں پر دانہ ڈالتے ہیں اور یہی دانہ بیچنے والے اسے اٹھا کر پیکٹوں میں بند کر کے دوبارہ بیچتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی دفعہ کا ڈالا ہوا دانہ کئی کئی بار بکتا ہے اور لوگوں کا کاروبار خوب چلتا ہے۔ میں تو بس آپ لوگوں سے اتنی ہی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا!! یہ رقم جو آپ ہمارے دانے دنکے پر خرچ کرتے ہیں اور وہ چور دروازوں سے دو نمبر لوگوں کی جیب میں جاتی ہے اس سے خود اپنے وطن میں ہی ضرورت مندوں کا بھلا کر دیا کریں۔

بے شک چرند پرند کے لیے بچا کھچا کھانا ایک طرف ڈالنا، اور پانی کا انتظام کرنا بھی کار ثواب ہے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں بے زبان مخلوق کے ساتھ بھی حسن سلوک کریں لیکن! اتنی دریا دلی سے ہم پر خرچ مت کیجیے کہ جو آ رہا ہے دانے کا تھیلا اٹھائے چلا آرہا ہے۔

اگر آپ اللہ کی رضا و خوش نودی کے لیے خرچ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی مخلوق میں سے انسانوں پر خرچ کیجیے اس میں بھی وہ جو مسلمان ہوں اور ضرورت مند ہوں اور بدرجہ اولی وہ جو رشتے دار بھی ہوں، یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں۔ اپنے اردگرد نظر ڈالیے بہت سے لوگ نظر آ جائیں گے، لیکن خدارا خود ساختہ نیکی کی راہیں ایجاد نہ کریں! میں اب چلتا ہوں... دانہ کھا کھا کے خلق خشک ہو گیا ہے۔ پانی کا کہیں نام نشان نہیں۔ ایسا لگتا ہے اس دانے کو کھا کے پیاس اور شدت سے لگتی ہے۔ جب کہ ہماری یہ پیاری سرزمین زیادہ تر خشک ہے، ہم اکثر پیاس کی شدت سے ہی مر جاتے ہیں۔ سخت گرمی کے اس موسم میں برابر والی عمارت کی چھت پر ایک کبوتر دانہ چگتے ہوئے ڈھے گیا اور کچھ دیر بعد ہی مر گیا۔ سب لوگ دانہ ڈال دیتے ہیں اور پانی کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہوتا ۔ شعلے اگلتا سورج، چلچلاتی دھوپ اور یہ بے چارہ پیاس سے جاں بلب کبوتر... آخر کتنی دیر زندہ رہ سکتا تھا....!!! یوں ہی کچھ دیر بعد شاید میں بھی پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر جان دے دوں...

بس آخری بات یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم کو کسی اچھے کام میں لگائیے۔ اس سے اپنی دنیا و آخرت میں نیکیاں کمائیے۔ ثواب کے لیے بھی بہت سوچ سمجھ کر خرچ کیجیے۔ یہاں دانہ بھیجنے سے کہیں زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے ملک میں ہی کسی بھوکے کو روٹی کھلا دیں کسی ننگے کو کپڑا پہنا دیں کسی بیمار کو دوا خرید دیں کسی یتیم مسکین کی کفالت کر دیں۔ یا جو بھی کسی کی ضرورت ہے، اسے پورا کر دیں یقیناً آپ اس طرح زیادہ نیکیاں اور رب کا قرب حاصل کر لیں گے۔