ارسلان اللہ خان

ہمیں حیات کا ماحول سازگار ملے

ہر ایک شخص کو فرحت اے کردگار ملے

پریشاں حال ہی پایا ہر ایک کو ہم نے

کہ جتنے لوگ ملے سب ہی بے قرار ملے

اک ایسا وقت بھی گزرا ہے زیست میں اپنی

کہ ہم نے پھول جو چاہے تو صرف خار ملے

ہے اک عذاب کی صورت فراق کا عالم

کسی کو عشق میں یارب نہ انتظار ملے

جسے بھی دیکھا وہ مطلب پرست ہی نکلا

ہمیں بھی کاش کوئی تو وفا شعار ملے

خزاں کی رت تو جدائی کا استعارہ ہے

وہ گر ملے تو ہمیں  موسم ِبہار ملے

کہ جس سے کہہ سکے دل کی ہر ایک بات ارسل

مجھے بھی کاش کوئی ایسا رازدار ملے