جویریہ بتول اسلام آباد
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ ( آل عمران: ۱۱۰)
ترجمہ : تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کیلئے وجود میں لائی گئی ہے ۔ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو ۔
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل ایک امت کو "امت خیر" کا لقب دے کر معتبر کیا گیا لیکن شومئی قسمت کہ آج اس کی حالت زار انتہائی بری ہے۔اور جس دور سے وہ گزر رہی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں، کیوں کہ جب انسان کے عقائد و نظریات اور افکار سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھن جائے تو وہ نظام کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے اور نظریہ کو کھوکھلا اور سوچ کو مفلوج کر دیتا ہے۔
آج امت مسلمہ فلسطین میں سسک رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں تڑپ رہی ہے،روہنگیا میں مظالم سہ رہی ہے ، عراق شام اور یمن میں استعماری سازشوں کا شکار بنی ہوئی ہے۔ دنیا بھر کی اقوام مسلمانوں کو لقمہ تر سمجھ کر حلق سے نیچے اتارنا چاہتی ہیں۔ دنیا کی تیسری بڑی مذہبی قوت اس وقت انتہا درجے کی مظلوم، محکوم اور کمزور ترین قوم نظر آرہی ہے۔
معاشی لحاظ سے مسلمان ممالک، یہود اور مشرک اقوام کے مقروض ہیں ۔ نظریاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ملت اسلامیہ اخوت و اتحاد کے مدنی نظریے سے ہٹ کرخانہ جنگی میں مشغول ہے۔ تعلیمی لحاظ سے تو یہ پست ہو ہی چکی ہے کہ تمام تر ٹیکنالوجی اور سائنس مغرب کے ہاتھ میں ہے کیونکہ جہاں برج خلیفہ ، الماس ٹاور اور کیپٹل گیٹ جیسی دنیا کی بلند ترین عمارت بنائی جارہی ہوں وہاں تعلیمی اداروں کی بھلا کہاں گنجا ئش ہوگی۔
بات تو یہ ہے کہ زندگی بے بندگی، شرمندگی ہے۔۔۔۔ حقیقتاً امت کی حالت زار کی اصل وجہ قرآن سے دوری،فرقہ بندی اور جمیعت کا فقدان ہے ۔ اور جمعیت کی اہمیت مسلمہ ہے کیونکہ بقول اقبال
اہل حق را زندگی از قوت است
قوت ہر ملت از جمعیت است
( اہل حق کی زندگی کا دارومدار قوت پر ہے اور ہر ملت کی قوت اس کی جمعیت پر موقوف ہے)
حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ جمعیت، یہ اتحاد،یہ باہمی یگانگت دراصل شریعت کا نفاذ مانگتی ہے۔ یہ کارِ امت محمدیہ نے انجام دینا ہے ، جو لنک ہے نوع انسانیت تک پیغام محمدیہ پہنچانے کا۔ ۔۔۔ آغاز تحریر پر پیش کردہ آیت میں خالق کائنات نے کنتم خیر امۃ کہہ کر بتلایا کہ یہی وہ بہترین امت ہے جو انسانوں کی اصلاح اور ہدایت کے لیے میدان میں لائی گئی ہے۔ یہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے آئی ہے۔ یہ حق کو زبراور باطل کو زیر کرنے آئی ہے ۔
ایسے حالات میں قسمت سے شکوے کرنا اور صرف کوستے رہنا درست نہیں ہے۔
اس حالت زار کو بدلنے کا واحد رستہ اتحاد عالم اسلامی ہے اور اس کی اصلاح کا نسخہ ہر مسلم گھر کے طاق میں خوبصورت غلافوں میں لپٹا پڑا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس کو نکال لیا جائے۔ گرد جھاڑ لی جائے اور تعویذ کی صورت گھول کر پینے کی بجائے اس کے اوراق کھول کر زندگی کے لئے عملی اصول وضع کر لیے جائیں۔ ان تجاویز کے عملی تقاضے پورے ہوگئے تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ جب دنیائے عالم پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور امت مسلمہ کی حالت زار قصہ پارینہ بن چکی ہوگی ۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
(ان شاء اللہ)