ہانیہ محمود
سن 1500 سے پہلے کا ذکر ہے، "بخارا" میں ایک یتیم بچہ رہتا تھا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ "الجبرا" کی طرف اس کا بہت رجحان تھا۔ ایک دن اس کو معلوم ہوا کہ وہاں کا ایک ریڑھی والا الجبرا جانتا ہے۔ اس نے ریڑھی والے سے الجبرا سیکھنا شروع کردیا۔ ریڑھی والے کو جتنا علم تھا, اس نے بچے کو سکھادیا۔ وہ بچہ مزید علم حاصل کرنا چاہتا تھا۔
تو ریڑھی والے نے اس سے کہا: "اس شہر میں ایک ہی کتب خانہ ہے, لیکن وہ بادشاہ سلامت کا ہے۔ ہم اس کو استعمال نہیں کرسکتے۔" پھر ایک دن یتیم بچے کو معلوم ہوا کہ بادشاہ کو بڑی آنت کا کینسر ہے۔ اور کوئی بھی ابھی تک اس کا علاج کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس بچے نے ایک ترکیب سوچی اور اپنے شہر کے حکیم کے پاس جاکر حکمت سیکھنے لگا۔ اس بیماری کے بارے میں بہت تحقیق کی۔ اور ایک دن اس کو بیماری کا علاج مل گیا۔ جب وہ تحقیق کر رہا تھا تو اس کا رجحان الجبرا سے ہٹ کر "طب" کی طرف ہوگیا۔ وہ بچہ دوا لے کر بادشاہ کے پاس گیا۔ اور بادشاہ کو وہ دوا پیش کی۔ بادشاہ کی بیماری اس کی دوا سے ٹھیک ہوگئی۔ باشاہ نے اس کو انعام دینے کے لئے اس سے کہا: "تو کیا مانگنا چاہتا ہے؟" اس نے کہا: "مجھے آپ کے کتب خانے سے کتابیں پڑھنی ہیں۔ لہذا آپ مجھے کتب خانے میں جانے کی اجازت دے دیں۔" بادشاہ پہلے تو اس کی مانگ پر حیران ہوا, لیکن پھر کچھ شرائط کے ساتھ اس کو اجازت دے دی۔ بادشاہ نے کہا: "ٹھیک ہے, لیکن میری کچھ شرائط ہیں۔ ایک تو یہ کہ: تم صرف ایک سال تک اس کتب خانہ سے مستفید ہوسکتے ہو۔ اور دوسری یہ کہ تم ان کتابوں میں سے نوٹس نہیں بناؤ گے۔" بچے نے بادشاہ کی شرائط قبول کرلی۔ وہ بچہ پورے ایک سال تک اس کتب خانے میں ہی رہا۔ صرف اپنی ضروری حاجات کے لیے باہر جاتا تھا۔ جب ایک سال پورا ہوگیا, تو بادشاہ نے اسے بلایا اور اس کا امتحان لیا۔ اس کا امتحان لینے کے بعد بادشاہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا, کیونکہ اس نے پورا کتب خانہ حفظ کرلیا تھا۔ وہ وہاں سے نکلنے کے بعد 'بغداد" چلا گیا۔ اور وہاں جاکر خوب علم حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ ملکوں ملکوں پھرتا رہا۔ اور یوں اپنی پوری زندگی اپنے علم میں اضافہ کرتا رہا۔ اس نے تقریبا "پانچ سو" (500) کتابیں لکھی ۔ پھر ایک دن اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے مرنے کے بعد جب اس کی کتابیں پڑھی گئیں, تب معلوم ہوا کہ وہ ایک ذہین ترین دماغ رکھنے والا بندہ تھا۔ اس کی کتابوں میں طب کا علم موجود ہے, کہ کس بیماری کو کیسے تشخیص کیا جاتا ہے۔ بیماری تشخیص کرنے کے طریقے وغیرہ اس کی کتابوں میں موجود ہیں۔ گویا یہ وہی بندہ ہے, جس نے "میڈیکل سائنس" کی بنیاد ڈالی۔ اس بندے کا نام "بو علی سینا" ہے۔ انہوں نے ایسا علم نافع حاصل کیا, کہ آج تک ان کا اور ان کے علم کا ایک خاص مقام ہے۔ واقعی "علم نافع انسان کو کسی زمانے میں مرنے نہیں دیتا۔" اس لئے ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ: "ہم علم نافع حاصل کرنے میں خوب محنت کریں، تاکہ کسی کے لئے مشعل راہ بن سکیں۔"