آمنہ نور

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اکثر و بیشتر اس کے لیے موقع محل بھی نہیں دیکھتے۔۔۔۔

جیسا کہ کسی کے ہاں کوئی فوتگی ہو گئ اور ابھی میت پڑی ہوئی ہے اور ان کے گھر والے غم سے نڈھال رو رہے ہیں اور افسوس کے لیے آنے والی خواتین بجائے انہیں تسلی دینے کے سپارہ ہاتھ میں پکڑے، ایک خاتون دوسری کو کہتے ہوئے پائی جائے گی۔ دیکھو ذرا یہ جو پیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہے، کیسے ٹسوے بہارہی ہے ارے میں کہتی ہوں جب ماں زندہ تھی تب تو کوئی پروا نہیں تھی۔۔۔۔

دوسری کہے گی ارے چھوڑو ! خیر سے ماں نے خود ہی لاڈ اٹھا اٹھا کر بگاڑا تھا۔۔۔۔

کوئی کہے گی، ذرا اس کو تو دیکھو، یہ کپڑے تو اس نے کوئی ہزار دفعہ پہنے ہوں گے، مجال ہے جو تھوڑا سا خرچہ کرلے "کنجوس"۔۔۔۔

کسی کی زبان پر بقول ہماری سوچ کے "زیادہ خرچہ کرنے والی" کے لیے الفاظ ہوں گے، ایسے بن ٹھن کر آئی ہے جیسے بھائی کا ولیمہ ہو۔ آخر کتنے سوٹ سلواتی ہے یہ ایک دفعہ کا پہنا دوبارہ نہیں دیکھا ہم نے ۔۔۔۔

یعنی: کوئی کچھ بھی کرے، کسی بھی حال میں بخشنا نہیں ہے۔ 

یہ ہی کیا وہاں موجود تقریبا تمام خواتین سر جوڑے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہوں گی ۔ہم میں سے کسی کو بھی جیسے اپنے آنے والے کل کی کوئی پروا،کوئی فکر ہی نہیں کہ اگر آج یہ دن ان پر آیا ہے تو کل کو ہم پر بھی آئے گا۔۔۔۔۔

 ہم ساری زندگی خود خوش رہتے ہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ جو ایک انگلی دوسروں پر اٹھاتا ہے باقی چار انگلیاں اپنی جانب آتی ہیں اس لئے دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے کہ ہم خود کتنے پانی میں ہیں۔

 جہاں تک ممکن ہو ایسی باتوں سے پرہیز کریں۔ کیونکہ کس کی زندگی میں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے ہیں، بظاہر ہنستے مسکراتے لوگ اندر سے کتنے دکھی ہیں، کہیں ایسے میں ہمارے الفاظ ان کے لیے مزید دکھ کا باعث نہ بن جائے ۔ اللہ پاک ہم سب کو اس برائی سے بچائے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

 آمین۔