ام اواب لاہور

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر قریباً آٹھ سال تھی۔ میری بڑی بہن جو عمر میں مجھ سے خاصی بڑی ہیں ان کے بچوں اور مجھ میں عمر کا فرق بہت زیادہ نہیں تھا۔ اکثر میں ان کے ہاں جایا کرتی اور اپنے بھانجے، بھانجی کے ساتھ کھیلتی ۔

                                                                                                                                                      میری بہن کے گھر کا فاصلہ ہمارے گھر سے زیادہ نہیں تھا۔ پھر بھی آٹھ دس منٹ پیدل کا راستہ تھا۔ ایک رات مجھے اپنی بہن بہنوئی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کسی شادی کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ واپسی پر خاصی دیر ہو چکی تھی ۔ شاید رات کا ایک بجا تھا ۔واپسی پر بجلی چلے جانے کے سبب گھپ اندھیرا تھا ۔ میری بہن کے بھرے پرے سسرال میں  گہما گہمی کا سماں تھا کہ اچانک میرے ننھے سے دل میں اپنی امی کی یاد چٹکیاں لینے لگی ۔ ویسے بھی میں اپنی امی جان کے ساتھ چمٹ کر سونے کی عادی تھی۔ ایسے اندھیرے اور ہو کے عالم میں کسی کو بتائے بغیر میں نے وہاں سے کھسک کر اپنے گھر کی راہ لی۔ راستہ سنسان اور اندھیرا تھا ۔ کہیں کہیں اکا دکا کتے بھی بھونکتے ہوئے ملے، جس سے کچھ خوف سا بھی محسوس ہوتا رہا ۔ بہرحال اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کرم ہوا اور میں بخیر و عافیت گھر پہنچ کر اپنی امی جان کی آغوش میں چھپ کر لیٹ گئی ۔

 ابھی دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ میری بہن کی ساس ٹوپی برقع پہنے ہانپتی کانپتی پہنچیں۔مجھے امی کے پاس لیٹا دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی ۔

مجھے اس وقت تک معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا، اس لیے سونے کا ڈراما کرنے میں ہی عافیت جانی۔