طاریہ ہالا نیو

شیکسپیئر کہتا ہے کہ:” کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کر لیتے ہیں “

 بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح میں عظمت اور قابلیت اور نیک نامی کی ساری خوبیاں پیدائشی تھیں اور یہ خوش قسمتی ہمیں نصیب ہوئی کے رب کائنات نے باب الاسلام سندھ کے مشہور شہر کراچی میں 25 دسمبر 1876 بروز پیر کو جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئے قائد اعظم نے اپنی باقاعدہ تعلیم کراچی ہائی اسکول سے حاصل کی ، پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی قائد اعظم نے انگلستان کے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی، واپس آنے کے بعد بمبئی میں وکالت شروع کی اور کانگریس میں شامل ہو گئے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی جہدِ مسلسل سے قیام پاکستان کا خواب’’ شرمندہ تعبیر‘‘ ہوا پاکستان 14 اگست 1947 کو ہمارے بزرگوں کی جانی مالی قربانیوں کی وجہ سے معرضِ وجود میں آیا۔ پاکستان اتنی آسانی سے نہیں بنا تھا، جس قدر سمجھ لیا گیا ہے۔

بیاس اور ستلج ویسے ہی خشک نہیں ہوئے۔ پاک دھرتی پر ان کی روانی فطرت نے ایسے ہی نہیں روک دی۔ انہوں نے پاکستان کیلئے ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کا لہو پیا تھا۔ راوی کا پانی آج بھی سرخ ہے۔ وہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان خون کے دریا سے گزر کر بناتھا۔ کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کاوشیں مقصود پائیں گی۔

 قائد اعظم کا خواب تھا کہ یہ ملک اسلامی فلاحی ریاست بنے جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کو اپنی اولاد کی طرح پالے، ہر کسی کی جان و مال محفوظ ہوں۔ریاست پاکستان ایک عظیم نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی، اِس کی بنیاد رکھنے والے قائد اعظم ہر طرح کی مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور ہر قسم کے تعصب سے پاک ریاست چاہتے تھے۔ وہ ایک ایسے پاکستان کی تشکیل چاہتے تھے۔ جہاں آئین کی بالادستی ہو، جہاں پارلیمان آزادی اور خودمختاری سے فیصلے کر سکے، جہاں ہر شہری کو بلا امتیاز انصاف میسر ہو ، جہاں درسگاہیں علم و دانش کا گہوارا ہوں، تعلیم، روزگار اور صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہو، جہاں عورت کی عزت و توقیر کو مقدم رکھا جائے۔قائد اعظم اپنی سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال تک ہندوستان کی   کونسل کے رکن رہے۔ اس دوران آپ نے جمہوری آزادی اور قانون کی بالادستی کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی۔

قائد اعظم کی زندگی کا اہم ترین مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی، جمہوری اور آئینی حقوق کی پاس داری تھا اور وہ خود بھی کبھی قانون شکنی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ آپ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے سب سے بڑے حامی اور مشاورت پر پختہ یقین رکھنے والے تھے۔

لندن کے روزنامہ کے ایک انٹرویو میں قائد اعظم نے کہا کہ” وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں جس کا کسی بھی رنگ یا نسل سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور وہ جمہوری حکومت عوام کے تابع اور عوامی امنگوں کی ترجمان ہوگی۔“

آپ نے واضح کر دیا تھا کہ جمہوریت مسلمانوں کے خون میں شامل ہے کیوں کہ مسلمان، انسانیت، برابری، بھائی چارے اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔

قائد اعظم پاکستان میں ایسا  جمہوری نظام عوام کو دینا چاہتے تھے جس میں قانون کی بالادستی ہو، وہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے تھے جو صرف اور صرف  جمہوری نظام حکومت سے ہی ممکن ہے۔ قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح میں یہ کہا کہ ”میں پاکستان کے معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں اسلام کے اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں۔“ اور ساتھ یہ کہا کہ ”مغرب کے معاشی نظام نے دنیا کو لڑائیوں و برائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔“

اور قائد اعظم نے یہ کہا کہ ”میں پاکستان میں اپنے ماہرینِ معیشت سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مغرب کے اصولوں پر نہیں، اسلام کے اصولوں پر پاکستان میں معیشت کے نظام کو استوار کریں“

 قائد کی کوششوں ، انتھک محنت اور برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں سے ہمیں یہ پیارا چمن (”جو قائد و اقبال کا خواب تھا “) ملا ، اب ہماری زمہ داری ہے کہ ہم اس عظیم سرزمین کی حفاظت کریں ۔

اللہ رب العزت ملک پاکستان کی حفاظت فرمائیں آمین ۔