حمنہ کامران

کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ جب شجر اپنے پتوں کے بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں تو ان میں امید کی کرن باقی رہتی ہے جو انہیں یقین دلاتی ہے کہ ان پہ بہار پھر سے آئے گی۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ  کلیاں اور کونپلیں پھوٹیں گی۔ درختوں کے پتے

جھڑجانے سے ان پر بنے گھونسلے ویسے ہی آباد رہتے ہیں اور پرندے ان میں رہتے ہوئے بہار آنے کا انتظار کرتے ہیں۔  اس موسم میں چارسو اداسی اور ویرانی بکھری نظر آتی ہے، لیکن ہر شے کو امید ہوتی ہے کہ جلد یہ اداسی دور ہو جائے گی۔ تو جب ہر شے کو بہار آنے کی، اچھا وقت آنے کی امید ہوتی ہے تو ہم کیوں مایوس ہو جاتے ہیں۔ انسان کیوں مایوس ہو جاتا ہے؟ یہ موسم انسانی فطرت کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کی فطرت میں ہے ناامیدی۔ اور اس کو شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ یقین کو چنے۔ اسے چاہیے کہ وہ چند لمحے ان اداس پیڑوں کے قدموں میں  بکھرے پتوں پر چلتے ہوئے گزارے اور پاوں  تلے سوکھے پتوں کی آوازوں کو محسوس کرے۔  جب مسافر دن بھر کے تھکے ہارے اپنی منزلوں کی جانب رواں ہوتے ہیں تو ان کا حال ان درختوں کے اجڑے ہوئے پتوں کے جیسے ہوتا ہے جو خود کو روندتا ہوا تکتے ہیں اور اپنی حالت پہ ماتم کناں ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر کہیں امید بسی ہوتی ہے کہ کبھی تو خوشحال دن لوٹیں گے اور وہ بھی درخت کی شاخوں پہ بیٹھ کر دنیا کا مزہ لیں گے۔ ہمارے پاس امید کا راستہ دعا ہے۔ جب ہم ہر طرف سے پریشانیوں اور زندگی کے بکھیڑوں میں الجھے ہوتے ہیں تو ہم ناامیدی اور مایوسی میں گِھر جاتے ہیں۔ تمام دروازے خود پر بند ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا یہ سوچنا چاہیے کہ میری زندگی تو ختم ہو گئی ہے۔ اب کوئی خوشی کا پل نہیں آئے گا۔ اب میری حالت تاعمر ایسی ہی رہے گی۔ ہرگز نہیں! سوکھے پتوں کو بہار کا انتظار ہوتا ہے نا، انہیں اپنے رب پر یقین ہوتا ہے نا تو ہمیں کیوں نہیں۔ ہم بھی تو اس کی مخلوق ہیں۔ ہمارے لیے دعا کا راستہ ہمیشہ کھلا ہوتا ہے۔ یہ دعا ہی ہمارے دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور یقین دلاتی ہے کہ ہمارا رب ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ آزمائش آتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی مشکل ایسی نہیں جس کا حل نہ ہو۔ جو گرتے ہیں اور اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ بھروسے کی رسی تھامے رکھتے ہیں۔ میرے لیے موسمِ خزاں ایک نعمت ہے۔ یہ موسم میرے دل میں نئی امنگیں پیدا کرتا ہے۔ میں خود کو باقی دنوں کی نسبت کئی زیادہ پرامید محسوس کرتی ہوں۔ میں ان سوکھے درختوں میں وہ یقین تلاش کرتی ہوں جو مجھے زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ میرا اللہ پر یقین پختہ ہو جاتا ہے جو ان درختوں کا بھی رب ہے، وہ ان کو تھامے ہوا ہے اور جس نے ان میں امید جگائی ہوئی ہے کہ وہ ان کو ہریالی سے بھر دے گا۔