ڈاکٹر اکرم خاور کی شاعری میں اختراعی امکانات اور کیفیات کو محسوس کیا جا سکتا ہے
شیخ فرید
وادئ کوئٹہ نے جاڑے کی رِدا اُوڑھ لی ہے اور پت جھڑ سے زمیں پتوں کے زیور سے آراستہ حسنِ فطرت کو مہمیز کئے جا رہی ہے ۔چلتن ، تکتو اور زرغونہ پر سرد رُتوں کی ٹھنڈ کا احساس بڑھ گیا ،ایسے سموں میں شاعری کی نئی نئ جہتوں ، استعاروں اور کنایوں کا لطف لینے کیلیے کوئی شعری مجموعہ ہاتھ لگ جائے تو سونے پہ سہاگہ کے مصداق ادبی و علمی کیفیات ، احساسات ، قلبی محسوسات و جذبات بھی انگڑائیاں لینے لگتے ہیں اور شعر فہمی ، شعر گوئی اور شعر سخنی کو من مچلنے لگتا ہے۔
کچھ یہی کیفیات و محسوسات میرے سنگ بھی رہیں بلکہ میں شعر و سخن کے حصار میں مقید رہا جس کا سبب ڈاکٹر اکرم خاور کے دو شعری مجموعے "دریچہ" اور "دھندلی شام" کا مطالعہ بنا۔ ڈاکٹر صاحب کا نہ صرف نظم کے حوالے سے بڑا جاندار کام نظر آتا ہے ، بلکہ نثر پر بھی خامہ فرسائیاں اپنے پورے جوبن پر دکھائی دیتی ہے ۔
ادبی تناظر میں "دریچے"
سے جھانکتی آنکھیں جب
"دھندلی شام" کا منظر کا حُسن سمیٹتی ہیں تو شبِ برگزیدہ کی حدیں بھی سمٹتی ہیں اور ہجر و فراق کی سرحدیں کشادگی اختیار کر جاتی ہیں ، وصال کا لمس وسعت پاتا ہے تو محسوسات کے پاتال میں جرس کی جنگ ترنگ سے ایک نیا سماں اُبھرتا ہے اور قاری خود کو کبھی ڈوبتا ، کبھی تیرتا محسوس کرتا ہے ، اور اِسی ڈوبنے اور تیرنے کے عمل میں شعر اور شاعر کی فنی مہارتوں ، اُس کے شعری میلات و رجحانات کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔
ڈاکٹر اکرم خاور کے دو شعری مجموعوں کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی شاعری میں جس خیال کو پیش کیا ہے وہ اگرچہ کوئی نیا یا جونکا دینے والا نہیں ، لیکن خیال کی ندرت ، سوچ کی نگہت اور لسانیت کی لذت کے علاوہ اُن کا اچھوتا اسلوب قاری کو متاثر کیے بنا نہیں رہ پاتا ، اِس بات کو تقویت ڈاکٹر شہناز مزمل نے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر اکرم خاور کے ذہن و قلب اور سوچ و فکر کا دریچہ اِس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اِس سے آنے والی روشنی اور خوشبو سے شاعر کے تخیل کی رمق اور خوابوں کی روپہلی مہک سے شعر و سخن کا ایک نیا جہاں گُل و گلزار میں ڈھل جاتا ہے ۔
وہ جو خوش بو کی طرح پھیل گیا ہے مجھ میں
جینے مرنے کے لیے اُس کا سراپا ہے بہت ۔
کوِئٹہ جو گلابوں کا شہر کہلایاشامشامشام اور کبھی شا ثمرستان کے نام سے موسوم ہوا لیکن یہاں کا موسم اور اُس کی سرد گرم شدتوں کی کیفیات کا ادراک رکھنے والے اب بھی شہرِ بے مثال شکی زرد دھوپ میں سہہ پہر کی خنکی اور دھندلی شام کے لطیف احساس کو فراموش نہیں کر پاتے ۔
سرد موسم میں بڑی گرم ہوا دی اُس نے ۔۔۔۔میں جو بیٹھا تو مری شکل بنا دی اُس نے ۔
کوئٹہ کے شعراء کرام رُتوں کے سفیر ، محبّتوں کے علمبردار اور مہر و وفا کے آمین ہیں ، کیونکہ یہاں کی مٹی میں محّبت کی جو تاثیر ملتی ہیں وہ۔قابلِ ذکر ہی نہیں بلکہ قابلِ صد ستائش بھی ہے ۔
اگر ہم ایک نظر بلوچستان میں اردو شاعری کے حوالے سے ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ بیسیویں صدی کے آغاز پر بلوچستان میں اردو شاعری اپنے روایتی انداز میں برٹش بلوچستان کے دور دراز علاقے لورالائی اور بعد میں کوٸٹہ میں جلوہ گر ہوئی جہاں سردار محمد یوسف پوپلزئی ،عابد شاہ عابد،قتح چند نسیم نے مشاعروں کا آغاز کیا اور پہلا اردو جریدہ "قندیل خیال" متعارف کرایا ۔دوسری دہائی میں کوٸٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی کرانی کے سید عابد شاہ کا مجموعہ کلام "گلزار عابد" دیو بند سے شاٸع ہوا جو بلوچستان سے اردو شاعری کا پہلا مجموعہ تھا 1920 کے بعد اردو شاعری ومحافل کو عوامی سطح پر لانے اور تحریک پاکستان میں شامل ہونے کا سہرا نواب یوسف عزیز مگسی ،میر محمد حسن عنقا گل خان نصیر اور ان کے رفقا۶ کے سر جاتا ہےجدید اردو شاعری کو بلوچستان میں متعارف کروانے میں عطا شاد کا نام بہت اہم ہے ،عطا شاد فیض سے متاثر تھے اور انھوں نے بلوچی شاعری اور اردو کے درمیان پل کا کام کیا،ان کی شاعری میں بلوچی ثقافت اپنی تمامتر رعناٸیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر اکرم خاور نے بھی سر زمین بلوچستان پر کھلنے والے گواڑخوں۔کے رنگ اپنی شاعری میں بھرے ہیں ۔
تجمل فاروق بانی کے خیال میں ڈاکٹر اکرم خاور نے بحیثیت شاعر ایک کھٹن اور جان جوکھوں والا کام کیا ہے ، اُنھوں خاور کی کتاب "دھندلی شام" پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی کو کوڈ کیا ہے کہ۔۔۔۔۔شعر کہنا گویا عورت کا بچہ جننے کے مترادف ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے کم وقت میں زیادہ شعر کہے ہیں ۔اور بہت عمدہ شعر کہے ہیں ۔
لے اُڑی عشق کی ہوا مجھ کو ۔۔۔۔اب سمیٹے گا راستہ مجھ کو ۔
**
وہ خاک پر ہے مگر آسمان جیسا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ نرم لہجہ ہے لیکن چٹان جیسا ہے ۔
**
رات کے اندھیرے میں صبح کا سفر لکھنا ۔۔۔۔۔دھوپ کی تمازت میں کوئی بحر و بر لکھنا ۔
**
چاندنی رات کو آنکھوں میں اُتارو تو سہی ۔
وہ چلا آِے گا تم اُس کو پکاروتو سہی ۔
ڈاکٹر اکرم خاور کے ہاں اُمید کی چھاوُں اور یٰقین کی دھوپ ساتھ ساتھ ملتی ہے ۔
وہ بیک وقت دکھ ، درد ، غم و الم ، ہجر و فراق ، تنہائی ، اور اور محرومیت کو صوتی آہنگ سے آشنا کرنے کا فن جانتے ہیں ۔
یہی وجہ کہ ڈاکٹر صاحب کے اشعار کہیں کھنکتے ، کہیں بجتے اور کہیں چھنکتے محسوس ہوتے ہیں ۔
دریچہ اور دھندلی شام کو یک جا کیا جائے تو دریچے سے جھانکتی آنکھیں دھندلی شام کا منظر چُنتی دکھائی دیتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہی وصف ڈاکٹر اکرم خاور کو بڑا شاعر تسلیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔