ظہیرن حسنین
وہ بہت مانوس ہو چکا تھا، اپنی استانی کے ساتھ۔ بہت مزے سے وقت گزارتا تھا۔گھر والوں نے کیا کہا۔ کب ڈانٹ پڑی اور کب تعریف سننے کو ملی۔ہر بات اپنی استانی سے کہتا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نصیحت تحفے میں جو ملتی تھی۔استانی اس کی دلجوئی کرتیں۔ ایک مشعل کی طرح شہزادہ کی زندگی میں روشنی بکھرتی جا رہی تھی۔
ایک دن وہ اداس بیٹھا تھا کہ ہر وقت بےعزتی ہوتی رہتی ہے۔ اسکول میں دوستوں کے جھگڑے۔ باہر جاؤ تو آگے پیچھے دائیں بائیں حتیٰ کہ اوپر نیچے پوری دنیا گول گھومتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سب بچوں کی ٹولی ایک ٹانگ پہ کھڑے ہو کر صرف ہمارا ہی انتظار کرتے ہیں۔ شکایتوں کا انبار لے کر ہمارے چاروں طرف منڈلا تے رہتے ہیں۔ جیسے کہ ہم کوئی اعجوبہ ہیں ۔ تنگ آگئے ہیں روز روز کے جھمیلوں سے ۔شہزادہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سے گھنٹی کی آواز سے سارے خیالات پر پانی پھر گیا ۔وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آگیا۔
ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اٹھنے ہی والا تھا کہ آواز آئی ۔ کہاں کے شہزادے ہو رے بھیا ۔۔۔۔۔۔کیا نام رکھنے والے نے تمہاری صورت نہیں دیکھی تھی پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آس پاس ہر طرف قہقہوں کی برسات ہونے لگی ۔شہزادہ کچھ کہتا اس سے پہلے ہی سب نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ وہ غصے سے لال پیلا ہو کر تیز قدموں سے بھاگے چلا جا رہا تھا ۔سامنے دیکھا تو استانی مسکراتی ہوئی آرہی تھیں۔
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہتی ہوئی رخسار پر موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔استانی کو دیکھ کر پورے وجود میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آنکھوں میں چمک سی روشن ہوئی اور پھر سے اپنی زندگی خاص اور بامقصد نظر آنے لگی ۔
ہماری زندگی میں بھی روز مرہ کے ایسے ہی معاملات کا سامنا ہمیں درپیش رہتا ہے۔ کچھ پر سکون چہرے ہمارے لئے رب العزت کا دیا ہوا ایک قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ہمیں زندگی با معنی محسوس ہوتی ہے۔ایسے بے لوث رشتے ہم سے کچھ نہیں مانگتے لیکن ہمیں زندگی کی سیدھی راہ دکھاتے ہیں۔ ہمارے لیے ہدایت کا راستہ ہوتے ہیں ۔صرف ہم میں ان کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔