بنتِ ایوب مریم ،چیچہ وطنی
ختمِ نبوت سے مراد نبوت کی مہر ہے جو کہ ہمارے پیارے نبی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پہ ثبت ہو چکی کہ ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف جنگ، صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے دور میں ختمِ نبوت کا دفاع اور آج تک کے تمام گستاخوں کے ساتھ مسلم امت کا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ عقیدہ ختم نبوت سے انکار، نہ صرف اسلام کا انکار ہے بلکہ اس کی جڑوں کو گدلا کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اسلام کی عمارت عقیدہ ختمِ نبوت پہ استوار ہے، اگر اس کا انکار کر دیا جائے تو دینِ محمدی کی بھی نفی ہو جائے گی۔
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
ہے تری مرتبہ دانی میں پوشیدہ خدادانی
تو مظہر ہے خدا کا، نور وحدت ختم ہے تجھ پر
اللہ تعالی کے فضل سے امتِ محمدیہ چودہ سو سال سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری رسول مانتی آئی ہے۔ جس نے بھی ختمِ نبوت کے عقیدے کو پامال کرنے کی کوشش کی، اس کی سرکوبی کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے آخری دنوں میں تین افراد نے نبوت کا دعویٰ کیا جن میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی اور طلیحہ اسدی شامل ہیں۔ یمن کے اسود عنسی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فاز فیروز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔
نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے مذہب کی تشہیر کرتے کچھ لوگ کوفہ سے پکڑے گئے تو حضرت عثمان نے مشورہ دیا کہ ان کے سامنے لا الہ الا اللہ پیش کرو، مان لیں تو ٹھیک ہے، ورنہ قتل کر دیے جائیں۔ چنانچہ جنہوں نے مسلمان ہونے سے انکار کرتے ہوئے کذاب کے مذہب پہ ہی رہنے کا فیصلہ کیا، انہیں قتل کر دیا گیا۔
حضرت سیدنا ثمامہ مسیلمہ کذاب کے ذکر پہ لرز کر رہ جاتے اور آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جایا کرتے اور فرماتے: محمد کے ساتھ نہ تو کوئی نبی ہے اور نہ ان کے بعد ہوگا۔
مسلمانوں کے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اجماع ختمِ نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے ہوا۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کے چالیس ہزار کے گروہ کے خلاف جنگِ یمامہ لڑی گئی۔ اس سے پہلے کسی بھی جنگ میں اس قدر مسلمان جانیں نہیں لٹائی گئیں۔ اہلِ مدینہ خود کہتے تھے کہ ایسی جنگ اس سے پہلے کبھی نہیں لڑی۔ اسلامی لشکر کے سپاہی نہایت جرات مندی سے کفار کی کثیر تعداد میں گھسے اور شمشیر و سناں کے وار سے ختمِ نبوت کے دفاع میں بارہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ حضرت عمر بن خطاب کے لاڈلے بھائی زید بن خطاب نے کہا کہ آج کے دن میں کسی سے بات نہیں کروں گا، یہاں تک کہ انہیں شکست دے دوں یا شہید نہ کر دیا جاوں۔ شہداء میں حضرت حبیب بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ بہت سے اصحاب شامل تھے۔
طلیحہ اسدی بہت بڑا جنگجو اور دلیر مانا جاتا تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور تقریبا ستر ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ فتح کرنے کا ناپاک ارادہ باندھ لیا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے تین حصوں پہ مشتمل مسلمانوں کا لشکر اس کی بیخ کنی کے لیے ارسال کیا۔ طلیحہ کو شکست سے دوچار دیکھ کر اس کے لشکر میں موجود بہت سے عرب قبائل نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کیا۔ اس وقت طلیحہ شام فرار ہوگیا تھا لیکن فتح شام کے موقع پر دوبارہ اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے لشکر کا اہم جزو رہے۔
اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت ملتی تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ نبوت کا دروازہ بند کر دیا۔ اور نبوت کے اس بند دروازے کو جس نے بھی کھولنے کی کوشش کی، بہت برے طریقے سے اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ نے اس فتنے کی خوب سرکوبی کی اور پھر آج تک یہی ہوتا آ رہا ہے۔