یونی ورسٹی کا زمانہ پھر لوٹ آئے ۔۔۔۔!!

شیخ فرید

انسانی زندگی میں کئی مرحلے آتے اور گزر جاتے ہیں ۔دکھ ، سکھ ، طرب و الم  حیات و زیست کی دھوپ چھاوُں ہی زندگی ہے ۔ آنسو  ، مسکراہٹ ،  غم کی تلخی اور خوشیوں کی شرینی سے دنیا کا خمیر گوندھا گیا ہے ۔

شام  رنگینیاں اور سحر کے اجلے پن سے کشید کی گئی زندگی کی کہانی میں بعض لمحے ، کچھ پل ، چند گھڑیاں  اور دن ، ہفتے ماہ و سال میں ایسا دوراہا بھی آتا ہے جو بھولے نہیں بھولاتا ،

اور یہی سنہری یادوں کا سنہراپن انسان کے اندر جگنووُں کی دمک ، کرنوں کی جھلملاہٹ اور تاروں کی چمک کو کبھی ماند نہیں ہونے دیتا۔

میری زندگی وہ حصہ ،جو یونی ورسٹی میں  بطور طالب علم گزرا، سنہری دور تھا ۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے  کہ کوئی خواہش ہے جو تم چاہو، تو میں دوبارہ یونی ورسٹی میں پڑھنا چاہوں گا ۔

جامعہ بلوچستان میں گزرے ہوئے دن اُس وقت پوری شدت سے دل میں جانگزیں ہوکر  انگڑائی لینے لگے جب زیارت پارک کینٹ میں واک کرتے ہوئے اچانک  دودھیا سفید کاٹن  کا جوڑا پہنے کالا سن گلاسز لگائے مجھ سے ٹکرا گیا ، میں نے پلٹ کر دیکھا تو تو وہ میرا یونی ورسٹی کا کلاس  فیلو نکلا  ۔۔۔میرے منہ سے بے ساختہ۔۔۔۔  ارے نور جان  ہونٹوں سے پھسلتا ہوا نور احمد کھیتران کی سماعتوں سے جا ٹکرایا اور وہ مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔

مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا ، پرانی یادیں لشکاریں مارنے لگیں۔ آنکھیں حیرتوں کا اظہار کرنے لگیں اور باتوں کے گلاب کھلنے لگے ۔ یادوں کی بارات میں یونیورسٹی کے ایّام رقص کرنے لگے ۔

نور احمد کھیتران کا یوں اچانک مل جانا گویا یادوں کی بوتک کھل جانے کے مترادف تھا ۔یونیورسٹی کے پورے دو سال میں نے ایک بھی رخصت نہیں کی جو شاید یونیورسٹی کے ریکارڈ میں پہلی اور آخری روایت ہے ۔

ہمارا English language

کا پیریڈ صبح ساڑھےآٹھ بجے ہوتا تھا اور میں فردِ واحد موجود ہوتا جبکہ یونیورسٹی میں طلبہ برادری کی آمد کا سلسلہ 9 بجے کے بعد شروع ہوتا۔پھر حمید اللہ ریکی ، عرفان رانا ،سرمد گچکی ، نور کھیتران ، ناصر مینگل جہانگیر ، توصیف ، اقبال ہم یونیورسٹی بلڈنگ کے مین گیٹ کی بالکونکوں میں دبک کر بیٹھ اور آنے "والیوں" کا کھلے دل سے استقبال کرتے فرشی کورنش بجا لانے میں حمید ریکی اور سرمد گچکی کو کمال حاصل تھا ۔

قہقہوں سے شروع ہونے والی صبح کب دوپہر کی دھوپ میں ڈھل جاتی ہمیں معلوم ہی نہ پڑتا ۔پھر ہم یونی ورسٹی بلڈنگ کے سامنے لگے مور پنکھ کے پودوں اور بلند و بالا سپیدوں کے درختوں تلے آکر گلاب کی آڑ میں بیٹھ جاتے اور لطائف ، قصے ہنسی مذاق اور ایک دوسرے کی نقالی ، گانے اور شعر و شاعری کی محفل جم جاتی۔ کنٹین سے سموسوں اور چائے کی باریاں لگتیں ۔

میڈم ناظمہ طالب کا پریڈ کوئی مس نہیں کرتا ۔راجہ اقبال صاحب رپورٹنگ پڑھاتے ، میڈم فرزانہ گل ، بیرم غوری ، عصمت بلوچ کے پریڈ شاندار ہوتے ۔

یونیورسٹی کے سالانہ میگزین کی اشاعت و طباعت کا مرحلہ آیا تو مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں ۔

نعیم اور میں روزنامہ مشرق کوئٹہ سے منسلک تھے، لہذا ہماری ذمے داریاں دوہری رکھی گئیں۔نعیم کمپوزنگ کی نگرانی پر مامور ہوا ناصر proofing     نور احمد Subing  کرتا۔ جو طلبہ وقت نہ دیتے اور کام نہ کرتے وہ ہمارے کھانے کا اہتمام کرتے۔ہم چار بجے تک میگزین کا کام کرتے ، میڈم ناظمہ طالب ہماری میگزین انچارچ تھیں۔ نہایت شفیق ، ہنس مکھ خلیق طبعیت _ خوش لباس و خوش خوراک واقع ہوئی تھیں ، دوستانہ ماحول اور اپنے آفس ہی میں کلاس لینے اور ساتھ کھانے پینے کے سبب ہر دل عزیز پروفیسر تھیں ۔یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود اُن سے ٹیلی فونک رابطہ رہا۔ اُن کی شہادت پر میں نے جو تعزیتی مضمون لکھا اُس کا عنوان تھا " سوری میم !

 آئی ایم لیٹ " یہ مضمون عالی سیدی نے اپنے میگزین میں ٹائٹل اسٹوری بناکر شائع کیا ۔

میم کی موت کا محھے بے حد دکھ ہوا ۔ایک صدمہ سرمد گچکی کا ہے ،اِس قدر زندہ دل ، ٹی وی آرٹسٹ خوبصورت نو جوان اپنی ہی ریوالور کی گولی سے  مالکِ حقیقی سے جا ملا۔

سب یادیں ۔۔۔۔۔یادیں ہی بن گئیں۔ کچھ آنسووُں کی صورت آنکھوں  کو  نم ناک رکھتی ہیں ، کچھ خوشبووُں کی طرح سانسوں میں بسی رہتی ہیں ۔

ماس کمیونی کیشن کا رزلٹ آیا تو میں روزنامہ بلوچستان نیوز کا نیوز ایڈیٹر تھا اور نعیم احمد مشرق کا رپورٹر تھا۔ مجھے فون کیا فرید اپنی تصویر بھیجو رزلٹ آگیا ہے، میں خبر بنا رہا ہوں اور فون بند۔۔۔  ابھی

"ٹچ موبائل" عام نہیں تھا ، میں نے نائب قاصد کے ہاتھ تصویر بھیج دی ۔صبح خبر لگی تھی نعیم احمد پہلے ، فرید اللہ دوسرے اور صدف مصطفیٰ نے تیسری پوزیشن حاصل کرلی۔

پھر نورکھیران محکمہ تعلقات عامہ کا اور نعیم الیکشن کمیشن کا افسرِ اعلیٰ بن گیا عرفان رانا صحافی بن گیا سردار عبداللہ خلجی علماء کی صف میں جا کھڑا ہوا ، حمید ریکی لندن چلا گیا ۔ حمید اور میں نے ہفت روزہ اسکول ٹائمز کا ڈیکلریشن لیا جو دو  سال بعد ہی بند ہو گیا ۔

سب یادوں کی دھند میں کھو گیا ۔۔۔۔مگر کبھی کبھی نور احمد کھیتران جیسا یونیورسٹی فیلو مل جاتا ہے تو سنہری یادوں کا سنہرا پن کہیں سے میرے اندر در آتا ہے اور میں نکھر نکھر جاتا ہوں میرے وجود سے یادوں کی کرنیں پھوٹنے لگتی ہیں تو  آس پاس اجالا سا ہو جاتا ہے۔