محمد طیب قاسمی

والد محترم مولانا محمد ابراھیم صاحب رحمہ اللہ المعروف بڑے مولوی صاحب۔۔۔۔باعمل عالم تھے۔۔۔۔ وجاہت و سادگی کا مرقع تھے۔۔۔۔ مسنون و سادہ وضع قطع رکھتے تھے۔۔۔۔ہردل عزیز مزاج و انداز کے مالک تھے۔۔۔۔ذاکر و شاغل بزرگ تھے۔۔۔۔سلیم الفطرت اور کریم الطبع عالم ربانی تھے۔۔۔۔ صوفی باصفا۔۔۔۔سماجی راھنما....انتہائی معتبر و معتمد ممتاز عالم دین تھے۔۔۔ اور مسکراتے پرنور چہرے والی دلپزیر روحانی شخصیت  تھے۔

11 جنوری 2023 بوقت چاشت اعوان پٹرولیم کے وسیع احاطے میں نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جم غفیر موجود تھا۔۔۔۔ برفانی موسم کی سرد ہواؤں کے باوجود پورا بالاکوٹ شہر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے امڈ آیا تھا دیگر شہروں اور مضافاتی قصبات سے عزیزو احباب بھرپور شریک ہوۓ تھے۔۔۔۔ فضا سوگوار تھی اور ہرآنکھ اشک بار تھی۔۔۔ سلطان العلماء امام الصلحاء قاضی خلیل احمد صاحب دام مجدہ اپنے روح پرور بیان سے مجمع کی اشک شوئی فرما رہے تھے ۔۔۔ 

حضرت والد محترم مختصر علالت کے بعد سینے کے عارضے کے باعث بوقت عشاء ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوۓ حکمی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوۓ تھے۔۔۔۔

دارالفنا سے دارالبقاء کی جانب یوں رخت سفر باندھا کہ تین دن قبل وصیت نامہ لکھ کر دیا جو آپ رحمہ اللہ کے حکم پر پورے خاندان کو جمع کرکے آپ کی موجودگی میں سنایا گیا وصیت نامہ میں یہ جملے بھی شامل تھے کہ " حقوق العباد کا معاملہ سخت ہے میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اپنے خاندان کا حق ادا کر دیا ہے بشری تقاضے کے پیش نظر اگر انجانے میں کسی کا کوئی حق مجھ پر رہ گیا ہو جو مجھے یاد نہ ہو تو شرم کرنےکی کوئی بات نہیں ہے حق دار مجھے بتاۓ اور اپنا حق مجھ سے ضرور لے وہ ہر گز مجھے معاف نہ کرے۔۔۔۔ میں اس کا حق ادا کرکے جاؤں گا حق دار اپنا حق مجھ سے لے کر  مجھے آزاد کر دے۔" خیر ایسا تو کوئی نہ تھا جو حق دار ہو یا تقاضے دار ہو۔۔۔پھر سب کو معاف کیا اور  سب سے معافی لی۔۔۔۔  تین بار ہاتھ کے اشارے سے دنیا سے رخصت ہونے کا بتایا ۔۔۔۔اور تھوڑا مسکراۓ پھر ذرا آبدیدہ ہوگۓ۔۔۔۔ آخری ایام میں نقاہت و کمزوری زیادہ ہو گی تھی اور آواز میں بھی کمی واقع ہوگئ تھی، زیادہ تر لکھ کر بات فرماتے تھے۔۔۔ پھر لکھ کر سمجھایا کہ امانتوں پر نام کی پرچیاں لگی ہیں وہ واپس کردینا۔۔۔۔

عمر عزیز کی چھہتر بہاریں اپنے آباء و اجداد کی طرح شرف امامت و بزرگی میں بڑی باوقار گزاری ہیں۔۔۔۔عربی ۔۔۔۔فارسی اور اردو زبانوں پر عبور حاصل تھا۔۔۔۔ علم تفسیر۔۔۔۔علم النحو ۔۔۔ علم فقہ۔۔۔اور علم لغت اور علم تاریخ میں خاص ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔  

1952 میں گورنمنٹ پرائمری سکول اور دارالعلوم محمدیہ بالاکوٹ سے دینی و عصری تعلیم کا آغاز کیا۔۔۔ پھر تاحیات سلسلہ تعلیم و تعلم کے عشاق رھے۔۔۔۔ ہمیشہ تلاوت کلام پاک اور مطالعہ کتب محبوب مشغلہ بنا رھا۔۔۔ اکابر علماء ربانین سے کسب فیض حاصل کیا۔۔۔۔ حصول علم کے لیے پنجاب کے شہروں راولپنڈی ۔۔۔گوجرانوالا اور لاہور میں طویل سفری دورانیہ گزارا۔۔۔۔  شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب ۔۔۔شیخ التفسیر مولانا عبیداللہ انور صاحب ۔۔۔امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب ۔۔۔۔ جامع المعقول والمنقول مولانا حمیداللہ جان صاحب۔۔۔۔رئیس المدرسین مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب۔۔۔۔ رحمہم اللہ جیسے مشائخ عظام سے شرف تلمذ حاصل تھا۔۔۔۔

اپنے گاؤں کی پہلی مسجد کے پہلے امام و مدرس تھے زندگی بھر قرآن وسنت کی ترویج کے لیے کوشاں رہے۔۔۔۔عمدہ معاش کے لیے چند سال کراچی ۔۔۔سعودی عرب اور متحدہ امارات میں بھی گزارے۔۔۔۔لیکن امامت و درس و اصلاح کا سلسلہ قائم رکھا۔۔۔۔ دعاگو معززین میں خاندان کے بیسیوں علماء۔۔۔۔ تیسیوں حفاظ۔۔۔مستفید و مسترشد سینکڑوں صلحاء۔۔۔۔ شاگرد اور متعلقین و متوسلین شامل ہیں۔۔۔

اللہ پاک درجات اخروی بلند فرماۓ اور جنت الفردوس میں مقام عطا فرماۓ۔۔۔

ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔