وقت اور حالات انسان کو کہاں سے کہاں لا پٹختے ہیں ، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا ہے۔ زینت بیگم کا بھی مکافات عمل شروع ہوچکا تھا۔ منہ ،ناک اور کان سے باریک ذرات کے جیسے کیڑے نکل رہے تھے ،ان کی بہوویں بھی پاس آنے سے کترا رہی تھیں۔ انظر صاحب اور افسر صاحب مکمل دستانوں اور ماسک پہن کر ماں کے پاس جاتے اور تسلی کے جھوٹے بول کہہ کر پلٹ آتے
حفصہ محمد فیصل
آخری قسط
عدنان کی ذہنی حالت انتہائی خستہ تھی ،گویا وہ لمحہ اس کی آنکھوں میں رچ بس گیا تھا۔ کونین کا ون ویلنگ کرتے ہوئے توازن بگڑنا سڑک پر لڑھکتے ہوئے فٹ پاتھ سے ٹکڑانا اور پھر سر کا کھل جانا یہ باتیں عدنان کے لیے بھلانا ناممکن ہوگیا تھا، نیند عدنان کی آنکھوں سے روٹھ گئی تھی، ہلکے سے جھونکے کے ساتھ وہ منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا اور عدنان چیخ کر اٹھ بیٹھتا۔
مولوی ثاقب بیٹے کے لیے انتہائی فکر مند تھے ، صبح وشام اسے دم کرتے ،اپنے اساتذہ سے روحانی علاج بھی کروارہے تھے۔ رانیہ بھی بیٹے کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھتی تھی۔ ساجد اور اسد کے والد بھی اب مولوی ثاقب سے رابطے میں تھے ان کے بچے بھی اس ٹراما سے گزر رہے تھے لیکن جتنا گہرا اثر عدنان پر پڑا شاید ان پر اتنا نہ تھا ، مگر زندگی کی بے ثباتی کی حقیقت اب سب پر آشکار ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں لہوو لعب سے تائب ہوگئے تھے بس اس کے اظہار سے کترارہے تھے۔
٭٭٭٭
موسم کی تبدیلی نے سب کی صحت پر اثرات ڈالے تھے، رانیہ کے دونوں چھوٹے بیٹے بخار میں مبتلا تھے ،جب کہ مولوی ثاقب بھی فلو کا شکار تھے۔ رانیہ گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ سب کی تیمارداری میں مصروف تھی،کہ دس بجے کے قریب دروازے پر دستک ہوئی، پردے کی اوٹ سے اس نے آنے والے کا نام پوچھا۔
انظر ۔۔ !
انظر آفتاب۔۔۔
"انظر بھائی!" رانیہ کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
کیا اندر آسکتا ہوں ؟
جی ٹھہریے!
رانیہ ہانپتی ہوئی اندر گئی مولوی ثاقب سے ٹوٹے پھوٹے ساری کیفیت بیان کی ۔
مولوی ثاقب رانیہ کو دلاسہ دے کر بیٹھک کا دروازہ کھول کر مین دروازے کی طرف بڑھے اور انظر صاحب کا استقبال کیا۔
٭٭٭
"آپ کی باتیں سن کر انتہائی دکھ ہوا لیکن آپ رانیہ کی کیفیت کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آپ کی والدہ محترمہ سے اس کی کتنی تلخ یادیں وابستہ ہیں، میں ضرور رانیہ کو تمام صورت حال سمجھا کر ہسپتال حاضر ہوں گا۔ آپ مجھے ہسپتال کانام اور کمرہ نمبر واٹس ایپ کردیجیے۔" مولوی ثاقب نے انتہائی بردباری سے انظر صاحب کو جواب دیا۔
انظر صاحب کے جانے کے بعد مولوی ثاقب نے رانیہ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا، جس پر سدا کی نرم دل رانیہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
"میں جانتا تھا،میری رانیہ کا دل شفاف آئینے جیسا ہے ، جبھی تو رب کریم نے تمہیں میرے لیے چنا ہے۔" مولوی ثاقب نے تہ دل سے رانیہ کو سراہا۔
رانیہ ، شوہر کی بے لاگ تعریف پر روتے ہوئے بھی مسکرا اٹھی۔
٭٭٭٭
زینت بیگم ایک دن میں ہی برسوں کی بیمار لگنے لگی تھیں۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ زندگی میں ایسے بھی کبھی بے بس ہوں گی۔
وقت اور حالات انسان کو کہاں سے کہاں لا پٹختے ہیں ، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا ہے۔ زینت بیگم کا بھی مکافات عمل شروع ہوچکا تھا۔ منہ ،ناک اور کان سے باریک ذرات کے جیسے کیڑے نکل رہے تھے ،ان کی بہوویں بھی پاس آنے سے کترا رہی تھیں۔ انظر صاحب اور افسر صاحب مکمل دستانوں اور ماسک پہن کر ماں کے پاس جاتے اور تسلی کے جھوٹے بول کہہ کر پلٹ آتے۔ایک مستقل نرس ان کی دیکھ بھال کے لیے رکھی گئی تھی۔ مگر زینت بیگم خود اس کیفیت سے پریشان تھیں ، ان کی آنکھیں مسلسل بھیگ رہی تھیں۔ آج صحیح معنوں میں ان کو دوسروں پر کیے گئے مظالم یاد آرہے تھے۔ خصوصا رانیہ کے ساتھ کی گئیں زیادتیاں ان کے دل کو چیرا لگا رہی تھیں۔
٭٭٭
مولوی ثاقب جمعے کی نماز کے بعد گھر آئے کھانے سے فارغ ہوکر رانیہ کو تیار ہونے کا کہا ،وہ زینت بیگم کی عیادت کے لیے جانا چاہ رہے تھے۔
٭٭٭٭
السلام علیکم ورحمۃاللہ ،
وعلیکم السلام! افسر صاحب کھڑے ہوکر مولوی ثاقب سے ملے ،اور رانیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے بھائیوں والا مان دیا ، یہ وہ مان تھا جس کی رانیہ برسوں سے متمنی رہی تھی لیکن کبھی یہ مان اسے نصیب نا ہوسکا تھا۔
دستانے اور ماسک پہن کر اور مختلف سینیٹائیز لوشن لگا کر رانیہ بڑی ممانی سے ملنے کے لیے کمرے کی جانب بڑھی ، اندر داخل ہوکر ایک لمحے کے لیے تو رانیہ کروفر کے اس وجود کو پہچان ہی نہ پائی جس نے کسی وقت میں اس کی زندگی اجیرن کردی تھی ، ایک چھوٹی سی بچی کو اس نے اپنا دشمن سمجھ لیا تھا، اسے لگتا تھا کہ وہ اس کے بچوں کا حق مار رہی ہے، ایک بے ضرر سی بچی سے انہوں نے ایسا بیر ڈالا کہ اسے گھر سے بے دخل کرکے ہی دم لیا اس دشمنی میں انہوں نے مزاجی خدا کو سب سے زیادہ ناراض کیا تربیت کے نام پر اپنی اولاد کو بھی نفرتیں پالنا سکھائیں، آج اس انا اور تکبر کا محل چکنا چور ہوگیا تھا ، قوت ساتھ چھوڑ گئی ،آواز کا طنطنہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور نفرت کے بوئے بیج کیڑوں کی صورت میں جسم سے خارج ہورہے تھے ۔ عجب بے بسی سی کیفیت تھی۔
رانیہ ابھی انہیں ایسی حالت میں دیکھ کر اشک بہا رہی تھی کہ زینت بیگم کی نظر اس پر پڑی ۔ وہ رانیہ کو وہاں دیکھ کر سٹپٹائیں لیکن پھر بلک بلک کر رونےلگیں۔
رانیہ بڑی ممانی کو اس طرح روتا دیکھ ان کی جانب لپکی ان کے بال سہلا کر انہیں تسلی دینے لگی۔
"زینت بیگم ہاتھ جوڑ کر رانیہ سے معافی مانگ رہی تھیں، زبان سے الفاظ ادا نہیں ہورہے تھے مگر ہاتھ اور آنکھیں مسلسل التجا کررہے تھے کہ اس وجود سے ہوئے گناہوں کو معاف کردو۔"
رانیہ ویسے بھی ایک نرم دل کی مالک تھی اور مولوی ثاقب کی سنگت نے اسے درگزر کرنے کا ماہر بنادیا تھا۔
رانیہ نے ان کے جڑے ہاتھوں کو تھام کر چوم لیا اور انہیں تسلی دی ۔۔۔
٭٭٭٭
رانیہ! امی کو معاف کردو اور ان کےلیے اپنا دل صاف کرلو، وہ بہت تکلیف میں ہیں ۔ ہم جانتےہیں کہ ایک وقت میں امی نے تم پر بہت ظلم کیے ۔ ہم اس کے لیے تم سے شرمندہ ہیں ۔ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ دنوں میں ہی امی کی یہ حالت ہوجائے گی۔ تم دیکھ ہی چکی ہو ان کی حالت۔" افسر صاحب رقت آمیز لہجے میں بولے۔
"میرے دل میں بڑی ممانی جان کے لیے کوئی شکوہ نہیں ہے ،افسر بھائی میں نے انہیں معاف کردیا ہے۔" رانیہ کھلے دل سے بولی۔
"جیتی رہو، آباد رہو" افسر صاحب نے رانیہ کو دعائیں دیں۔
٭٭٭٭
اگلے ہی دن زینت بیگم کی روح خالق حقیقی سے جاملی گویا رانیہ کی معافی کی طلب گار ہی تھی۔
مولوی ثاقب کو انظر صاحب نے فون پر اطلاع دی۔
رانیہ ،مولوی صاحب کے ساتھ تعزیت کے لیے پہنچی۔
دس سالوں بعد رانیہ اس گھر میں قدم رکھ رہی تھی جہاں پیار کرنے والے بڑے ماموں رہتے تھے اور وہیں نفرت کرنے والی بڑی ممانی بھی رہتی تھیں لیکن آج وہاں کوئی نہیں تھا مگر محبت کی شیرینی اور نفرت کی تلخی فضا میں رچی بسی تھی۔
٭٭٭٭
زینت بیگم کو سپرد خاک کردیا گیا ،رانیہ آج پہلی بار زینت بیگم کی بہوؤں اور پوتیوں سے ملی تھی۔ صبیحہ آپا اور فریحہ باجی بھی اب بڑھاپے کی طرح قدم بڑھا رہی تھیں اور رانیہ سے وہ دونوں بھی شرمندہ تھیں۔ان کی بیٹیوں اور نواسیوں کو دیکھ کر رانیہ کو بہت خوشی ہورہی تھی۔ مگر ایک من موہنی سی اور نک چڑھی لڑکی کی طرف رانیہ کی نگاہ بار بار اٹھ رہی تھی اور جب افسر صاحب کی بیگم نے لائبہ کہہ کر اس کا تعارف کروایا تو رانیہ کو اس نام نے کچھ یاد دلا دیا۔
بالکل بڑی ممانی کی ہوبہو اور بڑی ممانی کی سب سے زیادہ لاڈلی بھی۔۔۔
عدنان کی نسبت سے کتنے سالوں بعد بڑی ممانی نے اس سے فون پر رابطہ کیا تھا۔ لائبہ ،رانیہ کو بھی پیاری لگی مگر رعب اور طنطنہ بڑی ممانی کا اسے ورثے میں ملا تھا اور رانیہ اپنے بچپن کی طرح اپنا بڑھاپا خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔
"ارے ! یہ میں کیا سوچنے لگی۔" رانیہ نے خود ہی اپنے خیال کو جھٹکا اور دل ہی دل میں مسکرائی۔
٭٭٭٭
"بابا جان مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔" عدنان اب کچھ حد تک نارمل ہورہا تھا۔آج وہ مولوی ثاقب سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔
"جی بیٹا! کہیے"
"وہ بابا آپ نے درس نظامی کے لیے کسی جامعہ کا ذکر کیا تھا۔ " عدنان نظریں جھکا کر ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
مولوی ثاقب پہلے تو سوچ میں پڑگئے اور بیٹے کے چہرے کا جائزے لینے لگے۔۔۔
بابا! عدنان نے انہیں پکارا۔۔
"ہممم ہاں! جامعہ نور العلوم.."
"جی بابا مجھے داخلہ کروا دیجیے۔ ساجد اور اسد بھی اس جامعہ کی معلومات چاہتے ہیں۔" عدنان نے مختصراً کہا۔
"بابا !میں نے آپ کا بہت دل دکھایا مجھے معاف کردیجیے۔" عدنان بلک پڑا۔
"پچھلے دنوں جو کچھ میں کرتا رہا اور پھر موت کو اتنے قریب سے دیکھنا یہ سب کچھ مجھے سکھا گئے ہیں کہ اصل زندگی وہاں کی ہی ہے یہاں تو بس ہم چند دن کے مہمان ہیں۔ لیکن ہم ان چند دنوں کو موج مستی میں گزارنا چاہتے ہیں وہاں کی تیاری کی کوئی فکر نہیں ، اور مجھے دیکھیے کتنا ناشکرا ہوں ،آپ جیسے والد کے ہوتے ہوئے کیسے ناقدرا بن بیٹھا، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کا نور دل میں اتارنے کی توفیق دی اس کی بھی قدر نہیں کی ،پتہ نہیں مجھے کیسے معافی ملے گی؟"
عدنان چھوٹے بچوں کی طرح رو رہا تھا اور مولوی ثاقب نے آج اسے رونے دیا کہ یہ ندامت کے آنسو تھے جس سے اندر کا سارا غبار چھٹ جانا تھا اور پھر عدنان کی شخصیت نکھر کر شفاف ہوجانی تھی جسے رب کریم نے اپنے دین کے لیے چن لیا تھا اور اسے اگلے گھر کی تیاری کی توفیق اور فکر عطا کردی تھی ۔
رانیہ دروازے پر کھڑی پر اشک آنکھوں کے ساتھ اپنے بیٹے کی استقامت والی ہدایت کے لیے دعاگو تھی۔