اچانک ہی کونین کی بائیک کا توازن بگڑ گیا اور وہ ہو گیا ،جس کے بارے میں ان چاروں میں سے کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
پوری سڑک پر خون ہی خون تھا ۔ کونین کی بائیک دائیں جانب لڑھکتی ہوئی گئی جبکہ کونین بائیں جانب گھسٹتا ہوا شدت کے ساتھ فٹ پاتھ سےٹکرایا تھا ،اس کا سر دو ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا
ساتویں قسط
حفصہ فیصل
عدنان ،کونین اور ساجد نے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ تینوں خوب مزے کرتے ،پڑھائی کا ایک بہانہ تھا۔ عدنان کے چہرے پر اطمینان مولوی ثاقب کی نگاہوں میں تھا لیکن ان کی چھٹی حس کچھ انہونی کا اشارہ کررہی تھی۔ وہ ہر وقت عدنان کے لیے دعاگو رہتے تھے ۔ والدین تو ویسے ہی سراپا دعا ہوتے ہیں۔
ہفتے کی صبح فجر کے بعد قرآن مجید کی دہرائی کے بعد عدنان بابا کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا۔
کیا بات ہے ؟
"وہ آج ہفتہ ہے، میں شام دوستوں کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔" عدنان لجاجت سے بولا۔
دوستوں سے کالج میں ملاقات ہوتو جاتی ہے؟
ہاں! مگر ۔۔۔۔؟عدنان ادھور جواب دے کر خاموش ہو گیا ۔
مولوی ثاقب سمجھ گئے کہ عدنان جانا چاہتا ہے۔انہوں نے اثبات میں سر ہلا کر رضامندی کا اشارہ کر دیا۔
عدنان آج بہت زیادہ خوش تھا کیوں کہ اس کے دوستوں نے ون ویلنگ کرنے کاپروگرام بنایا تھا۔ ویسے تو وہ پہلے بھی ون ویلنگ کرتے رہے تھے، لیکن عدنان کے ساتھ آج یہ پہلی دفعہ تھا ،جس کی وجہ سے وہ بے انتہا متجسس تھا۔
شام کو عدنان مقررہ جگہ پر پہنچ گیا۔ تینوں نے خوب سیر سپاٹے کیے ہوٹل میں کھانا کھایا اور اب کھلے مین روڈ پر نکل آئے ، تاکہ ون ویلنگ کر سکیں۔ کونین اور ساجد ون ویلنگ میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ جبکہ عدنان اسد کے ساتھ اس کی بائیک پر سوار ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ خوب شور مچاتے ہوئے یہ عمل کر رہے تھے کہ اچانک ہی کونین کی بائیک کا توازن بگڑ گیا اور وہ ہو گیا ،جس کے بارے میں ان چاروں میں سے کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔
پوری سڑک پر خون ہی خون تھا ۔ کونین کی بائیک دائیں جانب لڑھکتی ہوئی گئی جبکہ کونین بائیں جانب گھسٹتا ہوا شدت کے ساتھ فٹ پاتھ سےٹکرایا تھا ،اس کا سر دو ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا۔ اسد اور ساجد چیختے ہوئے کونین کی جانب لپکے۔
٭٭٭٭
ہر طرف شور بپا تھا ۔عدنان کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا ۔اس نے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے تھے۔ وہ تو اپنے والدین کے دامن میں چھپ کر زندگی گزار رہا تھا جنہوں نے اسے زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر رکھاتھا۔ اچانک ہی یہ سب کچھ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا ،وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟
ساجد اور اسد کونین کو ایمبولینس میں لے کر بھاگے تھے ، مولوی ثاقب کو خبر پہنچ چکی تھی وہ بھی ہسپتال پہنچ چکے تھے۔ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، جو ہسپتال کے باہر اور اندر موجود تھا۔کونین ایک امیر باپ کا اکلوتا سپوت تھا ۔میڈیا میں خبر عام ہو چکی تھی، ہر کوئی اپنی بات کر رہا تھا۔ کوئی ون ویلنگ کی قباحت پر درس دے رہا تھا تو کوئی کونین کی جوان سالہ موت پر افسوس کر رہا تھا۔ کوئی امیر گھرانوں کی بگڑی اولادوں کو کوس رہا تھا تو کوئی والدین کی بے جا آزادی کو مورود الزام ٹھہرا رہا تھا۔
کونین کی والدہ کو بار بار غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ عدنان نے ان سارے حالات میں مکمل چپ سادھ لی تھی۔ مولوی ثاقب بیٹے کی خاموشی سے بہت پریشانی محسوس کررہے تھے۔ مگر اس وقت وہ کونین کے والد کے ساتھ لگے ہوئے تھے وہ اس مشکل گھڑی میں ان کو تسلی دے رہے تھے لیکن نظر بار بار بھٹک کر عدنان کی جانب ہی اٹھ رہی تھی۔
آہ و بکا کا سماں تھا آخر یہ بچے جوانی کے جوش میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ" ان کے ماں باپ اب بوڑھے ہورہے ہیں اور ان کا بڑھاپا ان کے سہارے کی وجہ سے ہی روشن ہے ، اس بڑھاپے میں ان کو ایسے روگ لگا دیتے ہیں جس جی بھرپائی قبروں میں پہنچنے تک نہیں ہو پاتی۔"
کونین کے والد اور والدہ کسی صورت اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں ہورہے تھے کہ ان کا بیٹا انہیں داغ مفارقت دے گیا ہے۔
نعش کی حالت انتہائی خستہ تھی اس لیے ڈاکٹر جلد از جلد سپرد خاک کا مشورہ دے تھے ان حالات میں کونین کے چچا اور ماموں انتظامات میں لگے ہوئے تھے جب کہ ساجد اور اسد کے والد بھی اپنی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ اسد ،ساجد اور عدنان ایک ٹراما سے گزر رہے تھے۔ عدنان کی نگاہوں میں تو گویا وہ منظر ٹھہر سا گیا تھا۔
"کاش! ہم یہ سب کرنے نا جاتے، بلکہ آج جاتے ہی نا! "اسد سسک پڑا۔
ساجد کی بھی ہچکی بندھ گئی۔ان تینوں کی بہت پرانی دوستی تھی ۔ عدنان تو ابھی چند مہینوں پہلے ان کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ لیکن عدنان کو اس آزاد خیال دنیا سے روشناس بھی سب سے زیادہ کونین نے کروا یا تھا۔ اور اب عدنان ہی سب سے زیادہ دھچکے کا شکار تھا۔
٭٭٭٭
مولوی ثاقب نے تدفین کے بعد کونین کے لیےخوب گڑگڑا کر دعائے مغفرت کروائی۔ وہ عصر اور مغرب میں ان تینوں سے ملنے کے عادی ہوگئے تھے۔
"روزانہ یہ چائے پلوائیں گے تو نماز کے لیے آئیں گے" کونین کے الفاظ کانوں میں گونجے اور مولوی ثاقب کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
بچے تو ہر والدین کو پیارے ہوتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی خود سر اور نافرمان ہوجائیں بڑے ان کے لیے دعائیں ہی کرتے ہیں مگر کبھی کبھی بچے اپنی موج مستی میں ایسے نقصان کردیتے ہیں جن کا خمیازہ ساری عمر بڑوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور اخیر صرف تہی دست و داماں ہی رہتے ہیں ۔
کونین کے والدین کے حصے میں بھی ایسے ہی خسارے آئے تھے مگر اس خسارے سے سبق ساجد ، اسد اور عدنان کے والدین اور ان جیسے دوسرے والدین کو لینا تھا تاکہ ایسے خسارے ان کے مقدر نا بنیں۔
٭٭٭٭
زینت بیگم کو ہر وقت بخار کی کیفیت رہنے لگی تھی۔ آج ان کا ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ بھی تھا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد افسر صاحب سے کیمو تھراپی کے ٹریٹمنٹ پر غور کرنے کی بات کی ۔ افسر صاحب کیمو تھراپی کے اثرات اور تکلیف سے خوف زدہ تھے۔ وہ ماں کو اتنی اذیت میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔
زینت بیگم کو متلی جیسا محسوس ہورہا تھا اور پھر یکایک ہی انہیں ڈاکٹر کے کلینک میں ہی خون کی الٹی ہوگئی۔ افسر صاحب ماں کو اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گئے ڈاکٹر نے انہیں تسلی دی اور زینت بیگم کو اسٹاف کے ذریعے بیڈ پر شفٹ کروایا۔ اور فرش صاف کرنے سے پہلے اس خون کا سیمپل بھی اٹھوا کر لیبارٹری بھجوا دیا۔
٭٭٭٭
زینت بیگم کی حالت انتہائی دگرگوں تھی ، ہسپتال میں داخلے کے ساتھ ہی مختلف ٹیسٹ کرکے کیمو تھراپی کی تیاری شروع کردی گئی تھی۔
"افسر صاحب! اب سوچنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے، خون کی الٹی کے ساتھ باریک کیڑے بھی نمایاں تھے جو اس بات کی علامت ہیں کہ کینسر کا کیڑا مکمل حاوی ہوچکا ہے۔ "ڈاکٹر کے الفاظ نے افسر صاحب کو معاملے کی سنجیدگی سمجھا دی تھی انہوں نے انظر صاحب کو فون کرکے کچھ ہدایات دیں اور خود ماں کی پٹی سے لگ کر رب سے ماں کی صحت کے لیے دعا میں لگ گئے۔(جاری ہے)