رانیہ کمرے کے باہر تخت پر سبزی کاٹتی باپ بیٹے کی گفتگو سن چکی تھی، دل عدنان کے لیے پریشان تھا لیکن پچھلے دنوں سے اس میں مثبت تبدیلیاں دیکھ کر کچھ امید بھی بندھی تھی۔ وہ دل ہی دل میں بیٹے کی بہتری کے لیے رب سے دعاگو تھی

حفصہ فیصل

چھٹی قسط

کونین اور اسد جو یہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ؛ کوئی عذر بنا کر پندرہ منٹ بعد کھڑے ہوجائیں گے،ان کو تو اس بیان نے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا ۔اور پھر مغرب کی نماز میں مولوی ثاقب کی قرأت نے ایسا سماں باندھا کہ دلوں کی دنیا ہی زیر و زبر ہوگئی۔ ان تینوں نے آج پہلی بار مولوی ثاقب کی دل سوز قرأت سنی تھی اس سے پہلے وہ عصر کی نماز میں ہی آتے رہے تھے۔ نماز کے بعد دعا میں کونین ،اسد اور ساجد کی ہچکیاں بندھ گئیں ، عدنان جس کے اپنے دامن میں  یہ ہیرے موتی پنپ رہے تھے، جن کی اس نے آج تک ناقدری کی تھی ،آج اس کے دل میں بھی قدردانی کا احساس جاگا تھا۔

٭٭٭٭

زینت بیگم کی دودن سے طبیعت ناساز تھی ، وہ بہت زیادہ نقاہت محسوس کررہی تھیں۔ افسر صاحب نے چھوٹے بھائی انظر کو جلدی گھر جاکر ماں کو چیک اپ کے لیے لے جانے کی تاکید کی۔ زینت بیگم کا رعب و طنطنہ جسے کوئی نہ توڑ سکا تھا اب جان سے عزیز پوتی نے توڑ دیا تھا لیکن وہ مصنوعی بھرم قائم رکھے ہوئے تھیں حالانکہ اندر سے اب کھوکھلی ہوچکی تھیں اور یہی روگ انہیں اندر ہی اندر کھارہا تھا۔

ڈاکٹر نے چیک کے بعد کچھ ضروری ٹیسٹ کروانے کا کہا جسے اسی وقت کروالیے گئے

اور پھر اگلے دن أنے والی ان رپورٹس نے گھر میں تہلکہ مچا دیا ان رپورٹس میں زینت بیگم کے ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کی تشخیص کی گئی تھی۔

افسر صاحب اور انظر صاحب ماں کی اس بیماری کا سن کر ششدر رہ گئے۔ زینت بیگم جو اپنی صحت کا ہمیشہ سے بہت خیال رکھتی تھی ، ان کو ایسی بیماری ہوجائے گی انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔

٭٭٭

رانیہ آج کل عدنان میں مثبت تبدیلی محسوس کررہی تھی ، جس پر وہ بار بار رب کے حضور شکر گزار ہوتی تھی۔ واقعی فرماں بردار اولاد أنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے ۔اور جب یہ نعمت چھنتی محسوس ہوتی ہے تو اس کی قدر شدت سے ہوتی ہے۔ رانیہ نے پچھلے دنوں یہ احساس بہت قریب سے محسوس کیا تھا ،اسی لیے آج عدنان کی تبدیلی دانیہ کو بہت خوشی دے رہی تھی۔ عدنان کی پریشانی کی وجہ سے نعمان اور سلمان کی تربیت پر بھی اثر پڑرہا تھا ،لیکن اب رانیہ کے دل میں بھی سکون کی لہر دوڑ رہی تھی، اور جب رات کو اس نے اس احساس کا ذکر مولوی ثاقب سے کیا تو انہوں نے  بھی ایک پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ رانیہ کو جواب دیا گویا یہ علامت تھی کہ انہوں نے بھی یہ بات محسوس کی ہے۔

٭٭٭٭

عدنان کا میٹرک کا رزلٹ آگیا تھا ،مولوی ثاقب اسے درس نظامی کے لیے شہر کی بہترین جامعہ میں بھیجنے کے خواہش مند تھے۔انہوں نے اس سلسلے میں عدنان کی رائے لینے کے لیے اسے بلوایا۔

جی بیٹا! اب رزلٹ آگیا ہے آگے کا کیا ارادہ ہے؟

"وہ مجھے کالج میں داخلہ لینا ہے،" عدنان نے جھجھکتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا ۔

مولوی ثاقب یہ سن کر تھوڑا پریشان ہوئے لیکن پھر خود کو سنبھال لیا۔

درس نظامی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے تحمل سے سوال کیا۔

"مجھے مولوی نہیں بننا" عدنان کا بے لاگ جواب سن کر مولوی ثاقب سٹپٹا گئے۔

"ہممم یعنی مولوی کا بیٹا افسر بنے گا" مولوی ثاقب کے اس جملے کو سن کر  عدنان گڑبڑا گیا مگر پھر بابا کی مسکراتی شوخ آنکھوں سے اسے اندازا ہوا کہ :

یہ جملہ طنزیہ نہیں ہے۔"

کس کالج میں داخلہ لینا ہے؟

بابا کا ایسا رویہ دیکھ کر عدنان ناقابل یقین نگاہوں سے ان کو دیکھے گیا۔

کیا ہوا؟ مولوی ثاقب نے نارمل انداز سے عدنان کو پکارا۔

وہ بابا ۔۔۔ کچھ نہیں ۔۔۔

آپ سمجھ رہے تھے کہ بابا کالج کا سن کر ناراض ہوں گے، ڈانٹیں گے، اجازت نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔۔

نہیں ، ہاں وہ جی ۔۔۔۔۔ عدنان سے کوئی جواب نا بن پایا۔

ہمممم ! بابا کو تھوڑا سا برا تو لگا کہ آپ نے دین پر دنیا کو ترجیح دی لیکن پھر بابا نے سوچا کہ آپ دنیاوی تعلیمی ادارے میں جاکر دین کے داعی بھی تو بن سکتے ہیں، شاید اللّٰہ پاک آپ سے دین کا کام دنیاوی اداروں میں لے جا کر لینا چاہتے ہیں۔ مولوی ثاقب رسان سے بولے۔

عدنان ،بابا کے مضبوط لہجے اور خواہش کو سن کر نظریں چرا گیا۔

وہ ان کو کیا بتاتا کہ؛ اس نے تو سنا ہے کہ لڑکے کالج جاکر ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں ، کالج تو آزادی کی نگری ہے، پڑھائی کا تو صرف نام ہوتا ہےاندر کی کہانی تو کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

عدنان کا جواب نہ دینا اور نظریں چرانا مولوی ثاقب کو باور کروا گیا کہ عدنان کے دل میں چور ہے لیکن انہوں نے اس وقت اسے نصیحت کرنا مناسب نہ سمجھا۔

اچھا بھئی ! یہ تو طے ہوگیا کہ أپ کالج میں داخلہ لے رہے ہیں ، یہ ہوگئی پہلی بات ،اب دوسری بات یہ ہے کہ کالج داخلے کے لیے دو شرائط ہیں وہ پابندی سے کرنی ہیں۔

"ہں! اب آئے نا اصل مدعے پر ، میں بھی ایسے ہی حیران ہورہا تھا کہ کیسے اتنی آسانی سے مان گئے۔" عدنان نے بدگمانی سے سوچا۔

"پہلی شرط پانچ کی وقت کی نماز کی پابندی، چاہے کہیں بھی ہوں نماز نہیں چھوڑنی، دوسری شرط قرآن کی دہرائی نماز فجر کے بعد روزانہ لازمی۔" مولوی ثاقب نے استفہامیہ نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا گویا دونوں باتو ں کی تصدیق چاہ رہے ہوں۔

خیر ! دونوں باتیں کچھ مشکل نہ تھیں ، دونوں ہی عدنان کے معمولات میں تھیں ، گو اب کچھ ان میں کمی أنے لگی تھی۔

ٹھیک ہے منظور! عدنان نے مثبت جواب دیا۔

رانیہ کمرے کے باہر تخت پر سبزی کاٹتی باپ بیٹے کی گفتگو سن چکی تھی، دل عدنان کے لیے پریشان تھا لیکن پچھلے دنوں سے اس میں مثبت تبدیلیاں دیکھ کر کچھ امید بھی بندھی تھی۔ وہ دل ہی دل میں بیٹے کی بہتری کے لیے رب سے دعاگو تھی۔ واقعی ! ماں باپ سے بڑا اولاد کا کوئی خیر خواہاں نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اولاد اس بات کو سمجھنے میں بہت دیر لگا دیتی ہے۔

٭٭٭

افسر صاحب ماں کے پاؤں دابتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کس طرح ماں کو قائل کریں کہ رانیہ سے ایک بار چل کر معافی مانگ لیں۔

کیا ہوا افسر کن سوچوں میں گم ہو؟

کچھ نہیں بس ایک خیال بار بار آرہا ہے

کیا؟

اماں ایک بار چل کر رانیہ سے مل لیں مجھے یہ سارے حالات مکافات عمل کا پیش خیمہ لگ رہے ہیں ۔افسر صاحب نے ماں کو آخر کہہ ہی دیا۔

زینت بیگم خشمگیں نگاہوں سے بیٹے کو دیکھتی رہیں لیکن کچھ کہا نہیں۔۔

افسر صاحب ماں کی خاموشی کو محسوس کرتے رہے انہیں لگا شاید کچھ ٹھہر کر سہی وہ جواب ضرور دیں گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا

آخر افسر صاحب مایوس ہو کر اٹھ گئے۔

٭٭٭٭

کونین اور ساجد نے بھی عدنان کے ساتھ اسی کالج داخلہ لینے کا سوچ لیا تھا۔

تینوں بہت خوش تھے۔

عدنان نے چھپ چھپا کر کونین سے بائیک چلانا بھی سیکھ لی تھی۔ اسے ون ویلنگ کا کا بہت شوق تھا۔ مولوی ثاقب کبھی اسے ان چیزوں کی اجازت نہ دیتے۔واقعی انسان کی صحبت اس پر گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ مولوی صاحب ان سب باتوں کو محسوس کر رہے تھے لیکن جوان اولاد کو ہاتھ سے نکلنے بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ان کو عدنان کے متعلق اکثر خبریں ملتی رہتی تھیں لیکن وہ ساری باتیں انتہائی تحمل سے سنتے اس پر غور کرتے اس کے سدباب کے لیے سوچتے۔

(جاری ہے )