اب فروا کی دہائیاں ۔۔۔۔ زبیدہ خاتون کا تسبیح گھماتا ہاتھ ساکت ہی رہ گیا ۔۔۔۔ مگر پارہ آسمان پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔ فروا کو تو خوب ’’عزت افزائی‘‘ کے ساتھ حمدہ کے ہمراہ ہسپتال روانہ کیا۔۔۔۔ ’’ہائے ہائے سارا ستیاناسکردیا میری عبادت کے وقت کا ہائے ۔۔۔ میرے نوافل۔۔۔‘‘

عائشہ محبوب

"تو آپ خود دیکھ لیں، جو کمی بیشی ہو بتا دیجیے گا۔‘‘ الفاظ کے برعکس لہجہ تیکھا اور بے زار کن تھا۔ مخاطب نے عینک نیچے کرکے پہلے تو اپنی بہو کو خوب اچھی طرح گھورا ۔۔۔۔

 ’’نا! تم یہ بتاؤ بی بی کہ سات سال کچھ اوپر تمہاری شادی کو ہونے کو آئے مگر میں دیکھ رہی ہوں تین، چار سالوں سے کہ جب بھی رمضان کی آمد ہوتی ہے۔ تمہارے مزاج گرم رہتے اور مل کے نہیں دیتے۔‘‘ جواباً اُم ہانی نے مزید بے زاری سے انہیں دیکھا ۔۔۔۔ ننھے اسعد کو گود میں بھرا اور بغیر جواب دیے کمرے کا رُخ کیا ۔۔۔۔

یہی تو مسئلہ تھا نا سارا کہ وہ بولتی نہیں تھی۔۔۔۔ اسے اپنے لیے بولنا نہیں آتا تھا ۔۔۔۔ پہلی رات کو جو قفل وعدے کی صورت اس کے ہونٹوں پر لگایا گیا ۔۔۔ اس کے اندر اک عجب ڈر بیٹھ گیا تھا کہ اسے لگتا وہ بیٹھ کر بات کرے گی تو یہ بدتمیزی کے زمرے میں آئے گا ۔۔۔۔ سو اندر ہی اندر کلس کلس کر سر درد کے ساتھ خاموش قاتل ہائی بلڈ پریشر سے اس نے نباہ کرلیا تھا ۔۔۔۔ مگر یہ بات اس کے علم میں بھی نہ تھی ۔۔۔ ’’لو! یہ گھنی میسنی پھر چلتی بنی آنے دو معاذ کو، کرتی ہوں بات کہ ویسے بھی منہ میں تالے لگائے بیٹھی رہتی ہے مگر رمضان کے مبارک مہینے کے آتے تو مزید کڑوی ہوگئی ہے یہ!‘‘

٭٭٭٭

’’ہاں سارے رمضان فقط آپ ہی کے لیے آتے ہیں ۔۔۔۔ اب بھی بس آپ کا! جنت بھی صرف آپ نے لی ۔۔۔ عبادات بھی آپ پر فرض ۔۔۔۔ ہم تو بس خدمت ۔۔۔۔ خدمت ۔۔۔۔ خدمت کے غلام۔۔۔۔‘‘ اس کی بڑبڑ جو کمرے میں آکر مسلسل جاری تھی کہ خود ہی اس نے اپنی بڑبڑ روک دی آنکھوں کے سامنے برسوں پہلے کا کوئی منظر دھم سے آ ٹھہرا۔۔۔۔۔

’’اُف بھابھی! آپ کے کون سے بچے ہیں! اور بھئی خدمت سے تو خدا مل جاتا ہے!‘‘ بائیس سالہ اُم ہانی نے بالوں کو پونی میں جکڑتے بڑی بھابھی رفعت کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن نمایاں تھی۔۔۔۔

’’وہ تو ٹھیک ہے چندا مگر ۔۔۔۔‘‘ اگر مگر کچھ نہیں  ۔۔۔۔ غضب خدا کا روزہ دار افطار میں کریں کیا ۔۔۔۔ رمضان میں ہی تو ساری رونقیں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ جتنا وسیع دسترخوان اس ماہ میں ہوگا تو باقی سال خیر ہی خیر ہوگی۔‘‘

جمیلہ بیگم کی تو منطق ہی نرالی تھی جو شادی کے دو سال بعد تیسرا رمضان سسرال میں آجانے پر بھی رفعت کی سمجھ سے باہر تھی ۔۔۔ کیونکہ کچن کا سارا بار رفعت کے کندھوں پر آجاتا تھا ۔۔۔ وہ اکیلی بہو نہیں تھی۔ دو بہوویں اور تھیں مگر ایک پیٹ سے تھی اور دوسری کے دو جڑواں  چھوٹے شیرخوار بچے تھے سو انہیں خاصی رعایت مل جاتی تھی۔۔۔۔ مگر سحری اور افطار کے پکوان کے چکر میں رفعت زندگی کے پچھلے دو رمضان سے ان اوقات کے فیض سے بالکل محروم بلکہ نماز بھی حقیقتاً بالکل اخیر وقت میں ٹھونگے مارنے جیسی پڑھ پاتی تھی ۔۔۔ باقی اوقات کچن سمیٹتے ۔۔۔۔ گھر کے دیگر کاموں میں ملازمہ کی نگرانی اور پھر کپڑے دھونا ۔۔۔۔ اس میں بھی اسے اپنے اپنے شوہر ساس سسر اور کنواری نند اُم ہانی کے کپڑے خود دھونے پڑتے ۔۔۔۔ دونوں دیورانیوں کے شوہروں نے انہیں یہاں بھی بڑی سہولت سے اس ذمے داری سے بری الذمہ کروا رکھا تھا ۔۔۔ اور رہے بڑے بھیا تو ان کو تو ماں باپ بہن بھائیوں نے بڑا بھائی، بھائی جان، بھیا، بڑا لاڈلا ذمہ دار بھیا کہہ کہہ کر گھر سے غافل کرکے بس کاروبار کو دو جمع دو بائیس کرنے پر لگا رکھا تھا!۔۔۔۔

’’اُم ہانی بھابھی! ۔۔۔۔۔‘‘ اُم ہانی ایک دم ہڑبڑا کر ہوش میں آگئی یہاں وہاں دیکھا تو آنکھیں ایک دم بھر آئیں۔ ماضی دور کھڑا گویا ہنس رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ جان گیا تھا کہ اس کے اندر کہیں ماضی میں جانے اور مناظر کو بدلنےکی خواہش کچھ عرصے قبل جنم لے چکی ہے ۔۔۔ سو ماضی بار بار بڑے دھڑلے سے اس سے ملنے آتا تھا، کیونکہ ماضی تو جانتا تھا ناں کہ اب اسے کوئی بدل نہیں سکتا!!!!

ایسا نہیں تھا کہ وہ اکیلی بہو تھی۔ اس گھر میں دو بہویں اور دو کنواری نندیں تھیں مگر گھر کا سارا کام کاج بہوؤں کی ذمہ داری تھا ۔۔۔ وہ منجھلی بہو تھی، رعایت یہاں بہو کو کسی صورت نہیں  ملتی تھی ۔۔۔ اپنے اپنے کمرے، اپنے شوہر بچوں کی ذمہ داری ان کی تھی ۔۔۔۔ ساس سسر کے کپڑے ان کا کمرا نندوں کے ذمہ تھا ۔۔۔۔ مگر کچن تو اس کی صفائی ستھرائی، پکانا کھانا سارا بہووٌں پر تھا ۔۔۔۔ پورا سال تو پھر بھی گزارا ہوجاتا ۔۔۔ مگر رمضان میں تو اخیر ہوجاتی تھی ۔۔۔ اس کے ساس سسر مہمان نوازی کے شوقین اور بانٹنے میں بڑے سخی تھی اسی طرح ایک سے ایک طعام کے شوقین پھر انہیں بنانا، کم تیل میں مخصوص مسالا جو گھر میں ساس خود ہی تیار کرواتیں ۔۔۔۔۔ اُم ہانی اور اس کی جیٹھانی، دیورانی کو ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ کی طرح عصر کی نماز تو رمضان جیسے ماہ میں بھی کبھی کبھار مل ہی نہ پاتی ۔۔۔ افطار بس کچن کے بکھیڑے سمیٹتے اور میدان جنگ سے کچن کو باغ بنانے کی طرف اٹکے دماغ میں گزرتا ۔۔۔۔ ساتھ عشاء سے پہلے کی چائے پھر بعد کے کھانے میٹھے وغیرہ وغیرہ ۔

’’بھابھی کب سے آواز دے رہی ہوں یار!‘‘ یہ فروا تھی اس کی دیورانی۔۔۔۔۔۔

’’ہم ۔۔۔ م ۔۔۔ کہو!‘‘ اس نے اسعد کو بستر پر آہستگی سے لٹاتے فروا کی طرف رُخ موڑا۔ ’’آج کا کیا مینو کرنا، بارہ بج گئے ہیں ۔۔۔ اُلفت پھوپھی مع عیال اور اکبر چاچا مع عیال 5 بچے تک آجائیں گے!‘‘ فروا کا لہجہ آخری میں ذکر کردہ خاندانوں کو کچا چبانے جیسا تھا۔۔۔۔ ’’ہاں افطار کروانا تو بڑا ثواب کا کام ہے۔‘‘ اُم ہانی کا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔۔۔ ’’چھوڑیں بھابھی نفل کی اہمیت فرض کے بعد آتی ہے۔۔۔ ہماری تو پورا سال نمازیں چھوٹتی ہونی والی صورت قرآن کی تلاوت تو محال مگر رمضان جیسے مہینے کی روٹین بھی ہمیں نصیب نہیں ہوتی اس میں بھی نمازیں قضا، روزے تک قضا اتنی گرمی میں، سحری افطاری کے فرمائشی پروگراموں کی تیاری! پھر دو دودھ پیتے بچے ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ’’امی اضافی خدمات جو ہمیں گرمی کی حالت میں شدید بے حال کردیتی ہیں ہم روزے اس لیے چھوڑتے ہیں تاکہ ’’خدمت خلقِ روزہ دار‘‘ ہو ۔۔۔ ناجی پٹ سے ساسو ماں پر آئے گئے کو بتاتی ہیں، دودھ پیتا بچہ ہے اس لیے روزہ نہیں رکھتی، قضا کرلے گی۔‘‘ ہوں۔۔۔ ارے بچوں کے ساتھ روزہ رکھنا کہاں مشکل ہاں خدمت خلق روزہ دار میں ناممکن۔‘‘ فروا اُم ہانی کے طنز سمجھے بغیر جو شروع ہوئی تو اُم ہانی کے ہاتھ دبانے پر ہی رکی۔۔۔۔ اور اُم ہانی فروا کی بات کے دوران ہی کوئی فیصلہ کر بیٹھی تھی ۔۔۔تھکن روم روم میں تھی ۔۔۔ مگر کوئی قرض چکانا تھا ۔۔۔ تین سال قبل جھٹکا قدرت کی طرف سے ملا تھا۔ ۔۔۔ مگر قرض چکانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی ۔۔۔۔ مگر اب تو اس کی بس ہوچکی تھی ۔۔۔ ڈپریشن سر کندھوں کا درد اب برداشت سے باہر ہوا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ قرض چکانا چاہتی تھی رفعت بھابھی کا!

’’فروا تم اور حمرہ بھابھی دونوں منہ سر لپیٹ کمرے میں پڑ جاؤ یا میکے روانہ ہوجاؤ۔۔۔۔ میں تو جارہی ہوں!‘‘ لہجہ قطعی سے زیادہ باغی تھا۔

فروا بیٹھے سے سچ مچ کھڑی ہوگئی۔ ’’بس ۔۔۔۔ بس بھابھی!اش ۔۔۔ کچھ نہ بولنا بس جاؤ اپنے کمرے میں!‘‘

’’اماں میں جارہی ہوں! اپنی امی کے گھر!‘‘ ننھے اسعد کو گود میں اٹھائے مصعب کا ہاتھ تھامے اور رومیصاء کے ساتھ اس نے اماں کے سامنے حاضری دی تھی۔۔۔ ’’ایں ۔۔۔۔ ایں ۔۔۔ آج تو چھٹا روزہ ہے ۔۔۔۔۔ تم تو سولہویں روزہ میں جاتی ہو ۔۔۔۔ اب دو دن کے لیے بھیجتی ہوں۔‘‘

’’ہاں ۔۔۔ عین افطار کے وقت اور دوسرے دن عشاء سے پہلے واپسی ۔۔۔۔’’

’’چھوڑیں اماں ۔۔۔۔ بس میں جارہی ہوں ۔۔۔ آپ کے بیٹے آئیں تو بتادیجیے گا!‘‘ پہلے طنز اور آخری میں بےزاری سے سرد لہجے میں کہتے وہ رکی نہیں تھی۔

اور زبیدہ خاتون تو آواز بھی نہ دے سکیں، تسبیح گھماتے ہاتھ ساکن اور نگاہیں دروازے پر ٹھہر گئیں ۔۔۔۔۔ ضمیر نے بڑا چابک دے مارا۔

’’ارے بیاہ کر لائی تھیں ۔۔۔ خریدا تھوڑا نا تھا تم لوگوں نے ۔۔ اتنا بوجھ تو پیدا کرنے والا نہیں ڈالتا جتنا تم انسان ایک دوسرے پر ڈالتے ہو پھر توقع کرتے ہو کہ سامنے والا ’’اُف‘‘ تک نہ کرے نہیں تو جنت جہنم کے فیصلے تیار ہوتے ہیں تمہارے پاس۔۔۔۔

٭٭٭٭

’’ارے ہوا کیا ہے کچھ بتاؤ تو سہی!‘‘

جمیلہ خاتون نے سامان کو دیکھتے تیسری بار کوئی یہ جملہ دہرایا ۔۔۔ اب کہ اُم ہانی نے ان کی آنکھوں میں جھانکا ۔۔۔ اور جمیلہ خاتون لرزیں ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں خشک ویران لگ رہی تھیں ۔۔۔ ’’اللہ خیر کرنا‘‘ دل میں ورد کیا۔ ’’کچھ نہیں ہوا! کیا بیٹیاں ماؤں کے پاس کچھ ہو تبھی آسکتی ہیں!‘‘ بھابھی کہاں ہیں!‘‘ ’’یہیں ہوگی۔‘‘

جمیلہ خاتون نے پھر بغور اکلوتی دختر کو دیکھا ۔۔۔ ’’بھابھی!‘‘ رفعت کو آتے دیکھ کر اُم ہانی بڑھ کر اس کے پاس پہنچی ۔۔۔۔ ’’مجھے معاف کردیں ۔۔۔ بس مجھے معاف کردیں۔‘‘ یہ کہتے ساتھ جو دھواں دھار وہ روئی ہے ۔۔۔ ایک دم گر گئی۔۔۔۔

ہوہو کار مچ گئی ۔۔۔۔ بھابھی ہاتھ سہلانے لگیں دو ہی خواتین گھر پر تھیں باقی دو بہوؤیں پانچ سال قبل الگ ہوچکی تھیں، رفعت کی اولاد اب بھی نہیں تھی شادی کو 11 سال سے زائد ہوچلے تھے ۔۔۔۔

٭٭٭٭

’’ارے فون لگاؤ! ہاشف، معاذ اور ابا کو بلاؤ۔۔۔۔۔۔

زبیدہ خاتون نے ضمیر کو ڈپٹ کر ایک طرف کیا اور باقی گھر پر نظر دوڑائی، یہ وقت اُم ہانی سے الجھنے کا نہ تھا۔۔۔ باقی دو کو حکم دے کر کام کروانے کا تھا ۔۔۔ بڑی بہو حمدہ تو مارکیٹ گئی تھی یاسمین بوا کے ساتھ سو فروا بی بی کی تلاش میں اس کے کمرے میں گئیں تو ۔۔۔۔۔

’’ارے بی بی اٹھو۔۔۔۔!‘‘

’’ارے اماں ۔۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔۔ بڑا درد ہورہا ہے پیٹ میں۔۔۔۔‘‘ فروا کی حالت واقعی خراب تھی ۔۔۔ پہلے ہی دو دن سے طبیعت گری گری تھی مگر شوہر نے زیادہ توجہ نہ دی ۔۔۔۔۔ اس کے حصے کا کام میں اُم ہانی بہت ساتھ دیتی تھی ۔۔۔۔ رہی حمدہ بھابھی تو وہ تو خاتون تھیں جو چار بیٹوں کی ماں جس میں دو نوجوانی میں داخل ہوچکے تھے پھر بھی بے حس بس چلتی سانسوں کا نام رہ گئی تھیں ۔۔۔۔ سو اُم ہانی کا انداز اور پھر بیگ سمیت میکے سدھارنے نے فروا کو بالکل ہی اَدھر موا کردیا ۔۔۔۔ پہلے ہی شادی کے4 سال بعد وہ خوشی ملی جس نے پانچواں ماہ کراس کیا ورنہ اس سے پہلے دو حمل تین تین ماہ میں ضائع ہوئے ۔۔۔۔

اب فروا کی دہائیاں ۔۔۔۔ زبیدہ خاتون کا تسبیح گھماتا ہاتھ ساکت ہی رہ گیا ۔۔۔۔ مگر پارہ آسمان پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔ فروا کو تو خوب ’’عزت افزائی‘‘ کے ساتھ حمدہ کے ہمراہ ہسپتال روانہ کیا۔۔۔۔ ’’ہائے ہائے سارا ستیاناس کردیا میری عبادت کے وقت کا ہائے ۔۔۔ میرے نوافل۔۔۔‘‘ بیٹیوں کو آوازیں دیتے بیٹوں خاص کر پہلے معاذ کو فون کھڑکا کر اس کی بیگم کا کارنامہ سنانے کے ساتھ شام افطار کے لیے لوازمات کی فہرست لکھوائی پھر چھوٹے ۔۔ نمیر کو فون کرکے فروا کا بتایا

 (جاری ہے )