(پہلا باب زخرف)
مسفرہ سحر کراچی
پانچویں قسط
"آپ کو بارش کیسی لگتی ہے مس مومل" میسج سوالیہ تھا ہممم سوال تو سب کو مجبور کرتا ہے جواب دینے کے لیے۔ اس نے بھی دے دیا مجبور جو ٹھہری۔ دل کے ہاتھوں ہاں دل پلٹ رہا تھا ۔
کیا دل پلٹتا بھی ہے ؟
بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ دل پلٹتا ہے ۔
خاتم النبیین فرماتے ہیں:
بنی آدم کے دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کے مانند ہیں وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹ دیتا ہے
پھر آپ نے یہ دعا فرمائی:
اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ
اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔
٭٭٭٭
(صحیح مسلم )
"جی سب کی طرح بارش مجھے بھی اچھی لگتی ہے "ایک پکوڑہ پلیٹ میں سے اٹھا کر وہ موبائل پر نظر جمائے کچن سے باہر نکل آئی اور اب رخ چھت کی جانب تھا جہاں بارش کے بعد کا منظر اجلا اجلا تھا۔ چمکتا نیلا آسمان، صاف ستھرے ہرے بھرے درخت، بارش کے بعد مٹی سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو، ہاتھ میں بارش کا موسمی پکوان اور ساتھ صنف مخالف کے دل میں اترتے میسج۔
خوش ہونے کے لئے اور کیا چاہئے تھا اسی لئے وہ خوش تھی۔
"اچھا پھر کیسے انجوائے کرتی ہیں آپ اس موسم کو؟“
پھر سوال۔
"کچھ خاص نہیں بس امی کے ساتھ پکوڑے بنوا کر اور پھر کھا کر۔“ بات سے بات نکلی ۔
"امی کے ہاتھ کے پکوڑے واہ واہ۔"
"کیوں؟ کیا آپ نے نہیں کھائے کبھی؟“
"کھائے ہیں کھائے ہیں جبھی تو تعریفی انداز میں واہ واہ کہا۔" کم از کم وہ خود کو اتنا پاگل نہیں سمجھتا تھا کہ ہر ایری غیری لڑکی سے اپنا خالی پن بیان کر سکے یہ حق تو صرف ایک عورت ذات کو دیا تھا اس نے اب وہ نہیں رہی تو اسے کوئی اور عورت ذات اعتبار کے قابل نہیں لگتی بلکہ اب تو وہ ہر لڑکی کو محض دل لگی کے لئے استعمال کرتا تھا۔
"اور کیا کرتی ہیں آپ؟" اب وہ میسج کرتے کرتے کمرے سے باہر لاونج میں آ گیا تھا جہاں عتبہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں تو اس کے چہرے پر سرد مہری کی ایک لہر آئی البتہ عتبہ اسے لنچ کے لئے بلانا چاہتی تھی لیکن وہ اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اسے اگنور کرتا باہر نکل گیا۔
اب موبائل پر مصروف دونوں نفوس باتوں میں لگ کر موسم سرما بھول چکے تھے اب تو اپنی باتیں تھیں دل لگی کی شروعات تھی۔ یہاں بھی اور اب وہاں بھی۔
٭٭٭٭
شہر کی معروف یونیورسٹی کے داخلی دروازے سے مسلسل طالبات اور طالب علموں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد کلاسز کا آغاز ہوا۔ تھرڈ ائیر کے اسٹوڈنٹس اپنے اگلے پیریڈ کے لئے سر حسین کے منتظر تھے چونکہ نئے سمسٹر کا۔ آغاز تھا سو اسی لحاظ سے آج تھرڈ ائیر کا تھرڈ ڈے تھا۔ پہلا دن مضامین اور اساتذہ کی تعارفی کلاس میں گزر گیا اور دوسرا دن اسٹوڈنٹس کے تعارف میں لیکن ان دو دنوں میں ہی سر حسین اپنی نرم مزاجی، اپنائیت بھرے انداز اور اچھے اخلاق کی وجہ سے ہر کلاس کی طرح اس کلاس کے ہر اسٹوڈنٹ کے دل میں اپنی جگہ بنا چکے تھے ۔
سورہ فاتحہ کی پہلی آیت ہمیں کیا سکھاتی ہے۔
الحمدللہ رب العالمین۔
تمام تعریفیں تمام حمد تمام شکریہ کلمات اس اللّٰہ واحد کے لئے جو تمام جہانوں کا واحد رب ہے۔
اس نے اپنے پاک کلام کی ابتدا ہی اپنے شکر سے کی ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ اس کلام کا پڑھنا، سننا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا اسی لئے وہ فرما رہا ہے شکر کرو میرا کہ میری رحمت کی بدولت تم دنیا کی سب سے سچی کتاب کو پڑھنے کے لائق ہوئے ہو۔
پھر سورہ ابراہیم کی آیت نمبر سات میں وہ رب العالمین دوبارہ فرماتا ہے ۔
اگر تم شکر ادا کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دیا جائے گا(سورہ ابراہیم 7)
مزید در مزید ہم سب ہی کی چاہت ہے کہیں آ کر رکتی نہیں ہماری خواہش۔ بس سمپل سے فارمولا ہے زیادہ زیادہ اور زیادہ پانے کا شکر کرتے جائیں اس کا وہ جس چیز میں خیر چاہے گا آپ کو دیتا جائے گا۔
علم پر شکر ادا کریں گے علم ملے گا۔
رزق پر شکر ادا کریں گے رزق ملے گا۔
محبتوں پر شکر ادا کریں گے محبتیں ملیں گی۔
غرض یہ کہ اس فارمولے کو اپنا لیں شکر کرتے جاؤ پلس پلس پلس لیتے جاٶ۔
"سر اگر اب دن میں دس بار کسی نئے شخص سے ملاقات ہو اور وہ پوچھے کیسے ہو تو کیا اب ہر بار الحمدللہ بولیں آئی مین از اٹ مسٹ؟" دوسری سیٹ پر بیٹھے حارث نے سوال کیا۔
"الحمدللہ کہنے میں کیا پیسے لگتے ہیں یا پھر آپ کے موبائل سے بیلنس کی کٹوتی ہوتی ہے پروفیسر حارث صاحب " وہ اپنے تمام شاگردوں سے حس مزاح میں مشہور تھے۔ وجہ کچھ جوان بھی تھے عمر کی تیسری پیڑھی میں تھے دوسری وجہ زندگی کا ہر سکھ اللّٰہ نے انہیں دیا تھا ماں باپ ، اچھی جاب ، اور سب سے بڑھ کر دین کی راہ پر گامزنی وہ اندر تک خود بھی پرسکون تھے اور دوسروں میں بھی یہی سکون پھیلانا چاہتے تھے۔
"اس بات کے لئے میں آپ کو ایک ایسے شخص کی مثال دوں گا جو اس دنیا کے سب سے کامل ترین شخص تھے۔ حدیث عائشہؓ ہمیں بتاتی ہے کہ آپ کے شوہر مبارک ساری ساری رات سجدے میں رہ کر اللّٰہ کا شکر ادا کیا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے جب ان سے کہا جاتا آپ کیوں اتنا بےقرار ہیں کیا آپ کے رب نے آپ کو بخش نہیں دیا تو وہ فرماتے :
افلا اکون عبدا شکورا.
تو کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(صحیح بخآری).
جانتے ہیں میں کس عظیم شخصیت کی بات کر رہا ہوں؟"
سب نے یک زبان ہو کر کہا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
"جی بالکل جب وہ ہر گناہ سے پاک ہو کر بھی ساری رات اپنے رب کا شکر ادا کیا کرتے تھے تو ہم پر تو ان سے زیادہ واجب ہے کہ اپنے رب کا شکر ادا کریں۔“ مسکرا کر حارث کو دیکھا جس نے اثبات میں سر ہلایا ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگے تھے جب فورتھ لاسٹ رو میں بیٹھی ایک لڑکی کا ہاتھ بلند ہوا۔
"سر مے آئی آسک آ کوئسچن؟ " جینز پر لانگ شرٹ پہنے گلے میں دوپٹہ ڈالے وہ کھڑی ہوئی ۔
"یس شیور "
"سر جس کے پاس کچھ ہو ہی نا جو ہر چیز ہر خوشی ہر احساس سے محروم ہو وہ کس بات پر شکر ادا کرے کیوں کرے اور کیسے کرے؟" اس کے سوال پر جہاں سر حسین نے اسے چونک کر دیکھا وہیں ساتھ اسٹوڈنٹس بھی اس کی سمت گھوم گئے کچھ اسٹوڈنٹس جنھوں نے صبح اسے آتے دیکھا تھا آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔
"کیا نام ہے آپ کا۔ مجھے شاید یاد نہیں یا غالبا آپ کل تھیں نہیں؟" وہ کوشش کرتے تھے کہ انہیں اسٹوڈنٹس کے نام یاد رہیں۔
"جی سر عتبہ مصطفٰی نام ہے میرا"
"ماشاءاللہ بہت پیارا اور یونیک نیم ہے عتبہ۔ بیٹھ جائیے آپ ۔ اچھا مجھے یہ بتائیں عتبہ آپ صبح کس طرح یونی آئی تھیں آئی مین واک کر کے، کیب سے، آٹو سے یا اپنی کنوینس سے ؟" وہ اسے اس کے سوال کا جواب اسی کی کنڈیشن سے دینا چاہتے تھے انسان اسی سے سیکھ سیکھتا ہے جس حالت میں وہ خود ہو۔ امیر کو غریب کی مثال سے سمجھائیں گے وہ نہیں مانے گا غریب کے سامنے امیر کو مثالی پیش کریں گے وہ کان ہی نہیں دھریگا ۔ سکھانا چاہتے ہیں تو سامنے والے کو اس کے معیار پر رکھ کر سکھائیں۔
"سر اپنی کار ہے میرے پاس۔" عتبہ نے پراعتمادی سے جواب دیا جو اس کی طبیعت کا خاصہ تھی۔
"ماشاءاللہ عتبہ آپ کے پاس اپنی پرسنل کار ہے۔ یہاں پر سب کے پاس نہیں ہے اپنی کار ہونے کا مطلب آپ کے پاس اپنا گھر اپنی زمین اپنی چھت سب کچھ ہے۔ یہ سب کچھ سب کے پاس نہیں ہوتا عتبہ تو کیا آپ کو اس پر اللّٰہ کا شکر نہیں ادا کرنا چاہیے۔ آپ کو صبح یہاں کے بہت سے اسٹوڈنٹس کی طرح کیب کا ویٹ نہیں کرنا پڑتا بہت سی باقی لڑکیوں کی طرح آٹو آپ کے گھر آ کر ہارن نہیں دیتا کیا یہ شکر کے لئے بہت بڑی وجہ نہیں ہے۔" سر حسین نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں عتبہ کی طرف دیکھا لیکن اس کے جواب دینے سے پہلے بات کو جاری رکھا۔
کیا آپ میں سے کسی نے "دا میجک" پڑھی ہے۔ رہونڈا بائرن کی کتاب دا میجک۔ "
شاگردوں کے نفی میں سر ہلانے پر انہوں نے بات کو جاری رکھا۔(جاری ہے)