(پہلا باب زخرف)

وہ کچن میں امی کے ساتھ مل کر موسم کے مزے لینے  کیلئے پکوڑے وغیرہ بنارہی تھی ۔ جب سلیپ پر رکھے اس کے موبائل نے وائبریٹ کیا ۔ اس نے موبائل اٹھایا تو میسنجر پر افنان کا میسج تھا۔ اس نے چور نظروں سے ماں کو دیکھا اور میسج ڈیلیٹ کر کے دوبارہ کام میں لگ گئی

 مسفرہ سحر کراچی

چوتھی قسط

السلام علیکم یا حبیبی“ جوں ہی کال ریسیو کی گئی کال کرنے والی نے فورا سلام کیا۔

"وعلیکم السلام یا حبیبتی سب خیریت ہے نا صبح سے اتنی کالیں کیا بات ہے بھئی؟" وہ حیران ہوا کیونکہ وہ اسے اس کے جاب پر نکل جانے بعد کم کم ہی یوں تنگ کرتی تھی۔

"جی خیریت تو سب ہے بس آپ مجھے یاد آ رہے تھے اسی لیے سوچا آپ کو کال کر لوں حبیبی " اس کی آواز میں گھلی محبت اور خوشی موبائل کے اس پار باآسانی محسوس کی جا سکتی تھی۔

"لاحول لڑکی ایک ذرا یاد آنے پر آپ نے مجھے اتنا تنگ کر دیا ۔ سات کالیں اور سات میسج لاحول ۔" تعداد پر زور دیتے ہوئے بولا ۔

"ہممم اس سات کے ہندسے پر غور کیجئے نا۔ سات کالز اور سات ہی میسج کیوں حبیبی۔ غور تو کیجئے ویسے بھی تفکر میں آپ ماہر ہیں۔ " وہ ہونٹوں کے کنارے کو دانتوں تلے دباتے ہوئے بولی۔

"یار اب آپ کی یہ پہیلیاں بوجھنے کے لیے تو لمبا ٹائم چاہیے جو فی الحال ابھی ہے نہیں زوجتی " وہ جانتا تھا اس کی مصروفیت کا سن کر اس کا دل تو ٹوٹے گا لیکن اس کے بغیر وہ شاید ایک گھنٹے سے پہلے کال نہیں کاٹے گی۔

"آپ بہت برے ہیں عابر ۔ آپ جب اپنی سیکنڈ وائف کے پاس ہوتے ہیں تو یوں ہی میرا دل توڑ دیتے ہیں۔ میں خود ہی بتا دیتی ہوں زوجی سیون منتھ اسٹارٹ ہو گیا ہے الحمدللہ ۔ اسی لیےسیون کالیں سیون میسج " وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ۔

"اووو اب سمجھا میں ۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ۔ اللّٰہ تعالیٰ یہ چند دن بھی جلدی سے خیر کے ساتھ گزر جائیں آمین۔ پھر آپ مما میں بابا " وہ خود کو تصور کی آنکھ سے ایک باپ کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔

" ان شاءاللہ ان شاءاللہ۔ بس یہی بتانا تھا اب آپ جائیں سیکنڈ وائف کے پاس لیکن جانے سے پہلے کچھ کہتے تو جائیں۔" وہ گلنار چہرہ لئے اپنی بات کے آخر میں کھلکھلا اٹھی تھی۔

" انا احبک فی اللہ یا زوجتی۔ " وہ جذب سے اپنی محبت کا اظہار اپنی نصف بہتر سے کر رہا تھا۔

"وایاک منے کے ابا اللّٰہ حافظ ۔" اسے معلوم تھا یہ خطاب عابر کو بلکل اچھا نہیں لگتا ۔

کال کٹ گئی تھی اور وہ موبائل کو گھورتا ہوا ہنس پڑا۔

٭٭٭٭

"السلام علیکم ۔ وہ کچن میں امی کے ساتھ مل کر موسم کے مزے لینے  کیلئے پکوڑے وغیرہ بنارہی تھی ۔ جب سلیپ پر رکھے اس کے موبائل نے وائبریٹ کیا ۔ اس نے موبائل اٹھایا تو میسنجر پر افنان کا میسج تھا۔ اس نے چور نظروں سے ماں کو دیکھا اور میسج ڈیلیٹ کر کے دوبارہ کام میں لگ گئی۔

"ایسے اچھے موسم میں اللّٰہ کی نعمتوں کا کتنا شکر ادا کرنے کو جی چاہتا ہے ۔" اگلا میسج

 

مومل نے میسج پڑھا تو اسے بھی اللّٰہ کی اس عظیم نعمت کا احساس ہوا کہ واقعۃ بارش خداوند باری تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے یہ نہ برسے تو گویا ایک نعمت کبریا ہم سے چھین لی جائے۔ وہ اس کے میسج سے ایک انوکھے احساس میں گھر گئی تھی۔

"ہر کوئی اس بارش کے برسنے پر خوش ہو جاتا ہے بچہ ہو یا بوڑھا سب اپنے دکھ درد بھول کر بس بارش کے مزے میں  گم ہو جاتے ہیں"۔ افنان ترپ کے پتے پھینکنے کا فن خوب جانتا تھا۔ وہ اس کھیل کا ماہر کھلاڑی تھا اسے معلوم تھا کس شکاری کے لئے کیسا جال پھینکنا ہے کس کو دولت کی دھاک سے قابو کرنا ، کس کو پیار و محبت کی باتوں سے ، کس کو ہمدردی کے چند بولوں سے تو کس کو اچھی اور دین کی باتوں سے اپنا گرویدہ بنانا ہے ۔

یہ کام بالکل ایسا ہی ہے جیسے شیطان نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے مہلت دے کہ پھر میں ان کے آگے سے آ کر انہیں بہکاٶں گا اور ان کے پیچھے سے بھی، ان کے دائیں سے بھی اور ان کے بائیں سے بھی ۔ شیطان آگے سے آتا ہے اور ہمیں مستقبل کے سہانے خوابوں میں الجھا کر دنیا کی عیش و عشرت میں گم کر دیتا ہے وہ پیچھے سے آتا ہے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو بڑھا کر پیش کرتا ہے اور ورغلاتا ہے کہ بھلا تم کیسے اچھے اور نیک انسان بن سکتے ہو تم تو بہت بڑے گناہگار ہو۔ وہ دائیں سے آتا ہے مستیوں میں رنگینیوں میں بے حیائی میں گم کر دیتا ہے۔ وہ بائیں سے آتا ہے ہر نیکی چھین کر بدی کو ہمارا ہمزاد بنا دیتا ہے۔ گویا وہ کوئی راہ چھوڑتا ہی نہیں تمہارے لئے۔ ہاں اگر کوئی راستہ ہے جس کے سالک بن کر تم ان ڈگمگاتے اونچے نیچے راستوں سے بچ سکتے ہو تو وہ "صراط مستقیم "ہے۔

مومل میسج پڑھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہی تھی۔ حیران تھی کہ آج کے دور میں بھی کوئی اتنی اچھی باتیں کر سکتا ہے ۔

"السلام علیکم کلاس کیسے ہیں آپ سب؟" نگاہ طائرانہ نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

"وعلیکم السلام آل فائن سر ۔۔۔ "اسٹوڈنٹس نے جواب دیا سر حسین مسکرائے۔ ان کی پر خلوص مسکراہٹ ہر ایک کے لیے مسکراہٹ کا پیغام کھینچ کھینچ لاتی تھی۔

"ہمممم تو دو دن کیسے رہے آپ کے؟

بہترین استاد سوال کرتا ہے سوال سے ہر طالب علم کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے وہ سوال حال احوال کا بھی ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی ۔

"زبردست سر۔“

 

"چلیں گڈ یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ کو ہمارے اس علمی گلشن میں دو دن اچھے لگے آگے بھی امید ہے یہ سفر اچھا رہے گا چونکہ میں آپ کو انگلش پڑھاٶں گا سو ہمارا انگلش کا جو سلیبس ہے وہ ان شاءاللہ ہم اگر آج نہ بھی پڑھیں یا اپنے ایک گھنٹے کے مخصوص وقت میں سے کچھ وقت انگلش کو ہٹا کر کچھ سیکھ لیں گے تب بھی ان شاءاللہ وقت پر ہمارا سلیبس مکمل ہوجائے گا ۔ تو آج میں آپ کو بتاؤں گا جب کوئی پوچھے کیسے ہیں تو کیا کہنا چاہئے۔"

سر حسین جو پوری یونی میں اپنی دین داری کی وجہ سے مشہور تھے ہر ایک کے لئے ایک انسپائرہشن تھے وہ صرف کلاس میں آ کر طالب علموں کو سلام نہیں کرتے تھے یونی میں جس جگہ سے گزرتے سلام کو پھیلاتے جاتے ہر ایک ان کے اچھے اخلاق کی وجہ سے ان کا گرویدہ تھا۔ وہ یونی میں بہت سے لوگوں کے آئیڈیل تھے اور ان کا آئیڈیل صرف ایک ذات تھی مجسم اخلاق حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ وہ ذات صرف قولی طور پر ان کی آئیڈیل نہ تھی بلکہ ان کا ایک ایک عمل اپنے نبی کے قول و فعل کے مطابق تھا۔

پر نور چہرہ۔

جھکی نگاہیں۔

بڑوں کا ادب

 چھوٹوں پر شفقت۔

بہترین با عمل معلم۔

چہرے پر موجود ڈاڑھی کا مزید پرنور بنانا۔

 

"جی اگر آپ سے کوئی آپ کا حال پوچھے تو اسے جسٹ یہ نہ کہیں آئی ایم فائن ، میں ٹھیک ہوں کہیں یہ بھی کہیں لیکن اگر آپ ٹھیک ہیں خوش حال ہیں تو پہلے اس کا شکر ادا کیجئے جس کی رحمت کی بدولت آپ ٹھیک ہیں "الحمدللہ " کہیں وہ ذات باری تعالٰی حق رکھتی ہے کہ ہم بار بار اس کا شکر ادا کریں۔ وہ نہ چاہتا وہ نہ رکھتا تو کیا ہم ٹھیک حالوں میں ہوتے نہیں یہ اس کی چاہت ہے کہ میں اور آپ فٹ اینڈ فاٹ ہیں۔" وہ اپنے نرم لہجے میں گویا تھے اور ساری کلاس خاموشی سے سن رہی تھی۔

 

"اور پھر آپ دیکھیں یہ تو دنیا کا اصول ہے نا کہ ہر وہ شخص جو کسی دوسرے پر احسان کر رہا ہو کسی کی مدد کر رہا ہو کسی کے ساتھ رحم کا معاملہ کر رہا ہو وہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے فقط ایک لفظ تشکر سامنے والے کو خوش کر دیتا ہے وہ خوش ہو جاتا ہے اور مزید عنایتیں کرنے پر آ جاتا ہے تو کیا وہ ذات اقدس جس نے ہم پر سب سے زیادہ عنایتیں کیں ہیں جو ہم پر سب سے زیادہ رحیم ہے جس کی کرم نوازیوں کی کوئی حد نہیں کیا وہ نہیں چاہتا ہو گا کہ ہم اس کا شکر ادا کریں لفظاً بھی اور عملاً بھی."

چوتھی رو میں بیٹھے یاسر نے ہاتھ بلند کیا گویا کوئی سوال کرنا چاہتا ہو۔

"سر وہ تو بےنیاز ہے پھر وہ ہم سے شکر کیوں چاہے گا اسے بھلا ہمارے شکر کی کیا ضرورت وہ تو اس کے بغیر بھی دیتا ہے۔"

"اچھا سوال ہے یاسر اور مجھے خوشی ہوگی اگر آپ لوگ اسی طرح مجھ سے سوال کرتے رہیں گے۔ وہ چاہتا ہے یاسر کہ اس کا بندہ بار بار اس کا شکر ادا کرے جبھی تو اس نے کلام پاک کی ابتدا ہی لفظ شکر سے کی ہے۔

(جاری ہے)