(پہلا باب زخرف)
کمرے کے چاروں طرف مختلف ممالک کی تاریخی اشیاء کے ترتیب سے رکھے ماڈل تھے۔ ایفل ٹاور ، اہرام مصر، گولڈن گیٹ برج ، برج خلیفہ ، تاج محل، ٹائکل، الحمبرا، پیسا ٹاور، ٹوکیو ٹاور ،لندن ائی، ماؤنٹ ایورسٹ، برج العرب ، دا وائٹ ہاؤس، پیٹروناس ٹوئن ٹاور ، اسپیس نیڈل اور بہت سی جگہوں کے قیمتی نمونے اس کے کمرے کی چمک بڑھا رہے تھے۔
مسفرہ سحر کراچی
تیسری قسط
"آپ نے یہ کس ایپ سے بنایا ہے "۔ افنان مصطفیٰ کا میسج تھا۔
"میں نے کمپیوٹر پر سافٹ وئیر سے بنایا ہے ۔“ جواب فورا دے دیا تھا کیونکہ کام کا ہی تو جواب دیا تھا نا کوئی فضول بات تھوڑی کی تھی آہ وسوسہِ ابلیس۔
"اوکے اوکے۔ اگین تھینکس مس مومل۔ "
“یہ دیکھئے یہ میں نے کچھ ایڈیٹس بنائے ہیں آپ چیک کریں پھر تھوڑا گائیڈ بھی
کردیں۔“ ساتھ میں کچھ پکچرز اٹیچ کی گئی تھیں۔
مومل نے ان تصویروں کو دیکھا اسے کوئی گربڑ نہ لگی (ہوتی بھی کیسے مسٹر افنان مصطفیٰ نے وہ ایک آئی ٹی انجینئر کی وال سے کاپی کر کے یہاں سینڈ کی تھیں، جو بنا لوگو کے تھیں)۔
"جی ٹھیک ہیں بیسٹ ہیں۔ رائٹ سائڈ پر لوگو فکس کر لیں باقی سب بیسٹ ہے"۔ میسج جلدی سے سینڈ کر کے ساری کنورزیشن یہ سوچ کے ڈیلیٹ کر دی کہ اب نہیں کروں گی آئندہ کبھی بھی میسج ۔
آہ انسان کیسے سمجھ لیتا ہے نا اتنی آسانی سے کہ اپنے کئے گئے گناہوں کا اپنی کی گئی خطاؤں کا ڈیٹا اگر اپنے پاس سے ڈیلیٹ کر دیا تو کیا وہ رب کے سیو شدہ اکاؤنٹ سے بھی اتنی آسانی سے ڈیلیٹ ہوجائے گا۔ نہیں اس کے پاس تو سب سیو ہے۔ وہ رب فرماتا ہے نا!!
اور (عملوں کی) کتاب (کھول کر) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو۔ (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جوعمل کئے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ ( سورہ کہف 49)
رب العالمین فرما رہا ہے کہ وہ جو اعمال کی کتاب ہے ہم نے اس میں ہر چھوٹا بڑا ہر صغیرہ ہر کبیرہ سب لکھا ہے جو بھی ایک انسان اپنی زندگی میں چھوٹے سے چھوٹا اچھا یا برا عمل کررہا ہے رب کونین وہ سب اس میں درج کررہا ہے۔ یہاں جو لفظ صغیرہ ہے جس کے معنی ہیں ہر چھوٹی بات بھی اس کتاب اعمال میں لکھی جا رہی ہے مفسر عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں ‘’چھوٹے عمل سے مراد کسی کے گر جانے پر ہماری ہنسی کا نکل جانا ہے “ اتنا چھوٹا عمل بھی ہمارا چھوڑ نہیں دیا جائے گا جب اس بے ساختہ ہنسی کو ہمارا رب ہمارے اعمال کے رجسٹر میں لکھ رہا ہے تو بھلا ماں باپ کے ساتھ کی جانے والی خیانت کو وہ رب کیوں نہیں لکھ رہا ہوگا۔
اس شام افنان مصطفیٰ نے مومل عباس سے صرف اتنی بات کی وہ پرانا اور شاطر کھلاڑی تھا، جانتا تھا معصوم عصمتوں کو شیشے کے پیرائے میں کیسے اتارنا ہے پھر کیسے ان سے کھیلنا ہے پھر کیسے انہیں چھوڑ دینا ہے۔
٭٭٭٭
آج جمعہ تھا سورہ کہف کی تلاوت کرتے ہوئے ایک آیت اسے بہت اچھی لگی تو سوچا آج اسی پر پیاری سی ایڈیٹنگ کروں گی۔ تلاوت سے فارغ ہوتے ہی وہ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ چکی تھی۔ میوزک پلیئر آن کیا نظم لگائی اور ایڈیٹنگ شروع کر دی۔ کام کے ساتھ ساتھ وہ اس آیت پر غور بھی کررہی تھی۔
وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا۔(سورہ کہف 23 )
اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ۔
اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ(سورہ کہف 24)
مگر ساتھ ہی ان شا اللہ کہہ لینا۔
یہ آیات کریمہ اس موقع پر نازل ہوئی تھیں جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس اہل کتاب نے آکر تین چیزوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔
1۔اصحاب کہف کے بارے میں۔
2۔ سکندرذوالقرنین کے بارے میں۔
3۔روح کے بارے میں۔
تو اس پر پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جواب دیا تھا کہ کل بتاؤں گا۔ آپ نے ان شاءاللہ نہیں کہا تھا تو اللّٰہ رب العالمین کی طرف سے فورا آپ ﷺ کی اصلاح کی گئی ہے کہ جب بھی یہ کہو کہ میں یہ کام کل کروں گا تو اس پر ان شاءاللہ کہنا نہ بھولا کرو ۔ ان شاءاللہ ایک طرح سے اس بات پر لگایا گیا لاک ہے کہ میں بے شک یہ کام کل کروں گا لیکن اگر اللّٰہ نے چاہا تو۔ یوں اگر وہ رب اس کام کو تم سے کروانا چاہے گا تو لازمی کروا دے گا ورنہ اس کام سے تمہیں دور کر دیا جائے گا۔
وہ سوچتے ہوئے آیت کا فونٹ چینج کر رہی تھی جب دروازہ ناک ہوا ۔اور ساتھ ہی ارتضیٰ کی آواز بھی آئی ۔
"میرا آف ہے آج اور تم کمرے میں گھسی بیٹھی ہو ۔ چلو باہر آؤ ایک لڈو ہو جائے مما بابا بھی فری بیٹھے ہیں۔"
"جی جی بالکل میں ابھی آئی دو منٹ میں۔ بس آپ لوگ ہارنے کے لئے تیار ہو جائیں" مومل نے بنائی ہوئی پکچر کو سیو کیا سسٹم شٹ ڈاؤن کیا اور کمرے سے باہر نکل آئی جہاں ارتضیٰ کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔
مما بابا اور اپنے اکلوتے لاڈلے بھائی کے ساتھ لڈو کھیلتے وہ شہزادی جیسی لڑکی جو ابھی تک اپنے بابا کی شہزادی تھی، بھائی کی گڑیا اور مما کی مومی لیکن بہت جلد وہ ان سب سے دور ہو جائے گی نہ اسے خود معلوم تھا نہ باقی گھر کے مکینوں کو۔ لڈو کے پانسے پھینکتی وہ ہمیشہ چھ آنے پر خوشی سے چلاتی تھی اور ساتھ ساتھ ارتضیٰ کو زبان نکال کر منہ چڑاتی۔ یہ چلانا یہ چڑانا کوئی چھین لے گا جلد یا بدیر کب ، کون اور کیسے ابھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
دوستوں کی محفل برخاست ہوئی تو وہ کلب سے اٹھ کر گھر کی طرف چل دیا۔ موبائل اسٹینڈ پر اٹکائے کانوں میں ہینڈ فری لگائے وہ اپنی کسی پرانی گرل فرینڈ سے باتوں میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ گاڑی بھی چلا رہا تھا ۔ ویڈیو کال پر ایک حسینہ اپنے حسن کا غلط استعمال کرتی ایک مرد کو بہکانے کیلئے پوری تیار تھی وہ ایک وقت میں اتنی لڑکیوں کے ساتھ اٹیچڈ تھا کہ کسی بھی وقت ممکن تھا کہ اس کے قدم مکمل طور پر راہ راست سے بھٹک جاتے لیکن ابھی تک وہ اس کام سے دور تھا کیونکہ اس دنیا میں ابھی ایک ایسا فرد موجود تھا جو اپنی ہر دعا میں اس کے بھٹکنے سے حفاظت کے لئے دعا کرنا نہ بھولتا تھا ۔ اسی کی دعاؤں کا اثر تھا کہ وہ لاکھ خود چاہنے ، دوستوں کے بہکانے اور صنفِ نازک کے خود بھی تیار ہونے کے باوجود بار بار اس راہ کے قریب جاتا لیکن پھر کسی غیبی طاقت کے اثر سے واپس آ جاتا۔
گھر کے گیٹ کے سامنے کار روک کر کال کٹ کی۔ گارڈ نے گیٹ کھولا۔ گاڑی پورچ تک لایا۔ آج پھر ہمیشہ کی طرح مصطفیٰ ولا خاموشی میں ڈوبا تھا یہ خاموشی پچھلے چار سال سے یہاں پر راج کر رہی تھی عجیب وحشت اور بے سکونی تھی اس خاموشی میں۔ یہ سی ویو کے ساحل سے کچھ پہلے خیابان اتحاد کا ایک بڑا بنگلہ تھا گھر میں ہر چیز موجود تھی سوائے سکون ، خوشی ، رشتوں کی اپنائیت اور اپنوں کی محبت کے ۔
وہ گاڑی لاک کر کے اندر آیا تو عجیب سی وحشت ہونے لگی دل چاہا واپس چلا جائے باہر کی رنگین دنیا میں دوستوں کے درمیاں یا پھر کسی کلب میں یا کسی لڑکی کے پاس لیکن اس کی طبیعت بڑی عجیب تھی اسے زیادہ وقت کسی بھی چیز میں سکون نہیں ملتا تھا۔ گھر پر ہوتا تو اکیلا پن اور تنہائی کاٹتی جب کے وہ تنہا اس گھر میں نہیں رہتا تھا دو مکین اور تھے لیکن اس کے لئے ان کا ہونا نہ ہونا برابر تھا جس تیسرے مکین سے اسے محبت تھی وہ اب رہا نہیں تھا ۔ گھر میں رہتے رہتے اکتا جاتا تو باہر دوستوں کے پاس چلا جاتا لیکن جلد ہی اس کی اندرونی طبیعت دوستوں کی قہقہے بھری محفل سے بھی اکتا جاتی پھر کسی لڑکی سے بات شروع کر لیتا لیکن اس کام میں بھی اس کو زیادہ وقت سکون نہیں ملتا، اسی لئے آئے دن وہ ایک نئی لڑکی کو اپنی گرل فرینڈ بناتا محبت کے جھوٹے دعوے کرتا اور جب کسی سے دل بھر جاتا تو اسے چھوڑ کر اگلی کی تلاش شروع کر دیتا ۔ غرض یہ کہ اسے کہیں سکون نہ تھا نہ قہقہوں میں، نہ تنہائیوں میں، نہ خاموشی میں، نہ سب کے درمیاں، نہ اکیلے اور ملتا بھی کیسے اسے ان جگہوں پر سکون۔ سکون جہاں تھا وہاں وہ کبھی گیا نہیں تھا سکون جس کے پاس تھا اس سے اس نے کبھی ملاقات ہی نہ کی سکون جس آواز میں تھا اسے کبھی اس نے توجہ سے سنا ہی نہیں تو بس بے سکونی ، وحشتیں اور ذہنی خلفشار کے ساتھ افنان مصطفیٰ کی زندگی کٹ رہی تھی ۔
اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے اپنے پیچھے اسے ایک اور گاڑی کے رکنے کی آواز آئی وہ جانتا تھا وہی ہوں گے اوپر جانے لگا لیکن بس یونہی انہیں دیکھنے کے لیے رک گیا ۔ ریلنگ پر ہاتھ رکھ کر ایک ٹانگ موڑے دوسری ٹانگ سیدھی رکھ کر کھڑا آنے والے شخص کو دیکھ رہا تھا۔
٭٭٭٭
" آپ کی طبیعت ٹھیک ہے افنان صاحب آج آپ ہمیں دیکھ کر رک کیوں گئے؟ ویسے تو آپ ہم پر ایک نگاہ ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔ مصطفیٰ صاحب نے اندر آ کر میز پر اپنا موبائل اور چابیاں رکھتے ہوئے اس کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔
وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا، پھر واپس مڑ کر کمرے کی طرف چل دیا۔ کسی کی دی ہوئی تربیت اسے ہر بار ان سے بدتمیزی کرنے سے روک دیتی تھی۔
بنگلے کے اوپری حصے میں دائیں ہاتھ پر اس کا کمرہ تھا جبکہ بائیں ہاتھ پر عتبہ کا کمرہ تھا۔ کمرے میں داخل ہوں تو یہ ایک کمرہ نہیں بلکہ نایاب و نادر نمونوں کی دکان ضرور لگتی تھی۔ جس کی وجہ کمرے کے چاروں طرف مختلف ممالک کی تاریخی اشیاء کے ترتیب سے رکھے ماڈل تھے۔ ایفل ٹاور ، اہرام مصر، گولڈن گیٹ برج ، برج خلیفہ ، تاج محل، ٹائکل، الحمبرا، پیسا ٹاور، ٹوکیو ٹاور ،لندن ائی، ماؤنٹ ایورسٹ، برج العرب ، دا وائٹ ہاؤس، پیٹروناس ٹوئن ٹاور ، اسپیس نیڈل اور بہت سی جگہوں کے قیمتی نمونے اس کے کمرے کی چمک بڑھا رہے تھے۔ وسط میں فل سائز بیڈ دیوار پر لگی ایل۔سی۔ڈی اور سب سے بڑھ کر اس کمرے اور اس کمرے کے مکین کی سب سے محبوب چیز۔ افنان مصطفیٰ کا اسٹیریو۔ ہر چیز بتاتی ہے کہ کمرہ کسی خاص کا ہے۔
وہ کمرے میں آیا اور اور آتے ہی اسٹیریو آن کیا۔ ایک انگلش سانگ فل آواز میں گونجنے لگا۔ کانوں میں گانے کی آواز پڑی تو ساتھ ہی ایک لفظ کی بازگشت چاروں طرف سے سنائی دینے لگی۔
پگھلا ہوا سیسہ۔۔۔۔
پگھلا ہوا سیسہ۔۔۔۔۔۔
پگھلا ہوا سیسہ۔۔۔۔۔۔
وہ اسٹیریو کی آواز مزید تیز کرتا اپنے ضمیر سے اٹھتی آواز کو دبا گیا۔ رحمان کے بندے کی آواز دب گئی شیطان کے چیلے کی آواز گونج رہی تھی۔
(جاری ہے)