جو دھوکے عظیم لڑکیوں کو دیتا انھی میں سے ایک دھوکا پلٹ کر اس کے گھر آ پہنچا تھا۔  گھر والے ایک بیٹی کے فرض سے سبک دوش ہو کر سکون کی نیند سو رہے تھے جب کہ اس گھر میں ان کی دوسری بیٹی کسی نامحرم لڑکے سے فون پر رومانس بھگارنے میں  مگن تھی

تنزیلہ احمد

آٹھویں قسط

 "کیا مطلب ہے بہن۔۔۔ کیسا اعتراض؟ ہم سے کھل کر بات کریں۔" فرزانہ کی خالہ نے روکھے انداز میں پوچھا جب کہ فرزانہ اور اس کی امی تو عجیب شش و پنج کا شکار تھیں۔

شگفتہ کی چاچی کا تماشا بس شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ چہرے پر بے چارگی سجاتے ہوئے انھوں نے مہمانوں کے چہرے دیکھے وہ سب ان کی طرف متوجہ تھے۔

"کیا بتاؤں بہن، پیٹ سے کپڑا اٹھائیں تو اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ گھر کی عزت کی بات تھی اس لیے آج تک میں نے کسی کو اس کی ہوا تک نہ لگنے دی۔۔۔" انھوں نے روہانسی پن سے آغاز کیا۔

"شگفتہ ہے تو اس گھر کی بیٹی مگر اس کے لچھن میری دونوں بیٹیوں سے ہٹ کر ہی۔"

"یہ آپ کس طرح کی باتیں کر رہی ہیں؟" فرزانہ کی امی نے انھیں ٹوکا۔ صاف ظاہر تھا انھیں ان کی باتیں ناگوار گزر رہی ہیں۔

"شگفتہ نے اپنی ماں کے مرتے ہی رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کر دیے تھے۔ ایسی بدتمیز اور منہ زور لڑکی ہے کیا بتاؤں۔ میں اس کی حرکتوں پر نظر رکھتی تھی روک ٹوک کرتی تھی تو اس کے سر پر شہر جا کر رہنے کا بھوت سوار ہو گیا تاکہ ہر طرح کی کھلی آزادی ملی رہے اسے۔"

خالہ کی تیوری چڑھ گئی۔ "کس قسم کی لڑکی کا رشتہ لینے آ گئی تم؟ کچھ معلوم نہ تھا کیا تمھیں۔۔۔" انھوں نے ناگواری سے اپنی بہن کو مخاطب کیا جو حیران پریشان بیٹھی تھی۔

"ارے جب ہم نے اپنی عزت کی خاطر گھر سے باہر بات نکلنے ہی نہ دی تو کسی کو کیسے پتا چلتا اور۔۔۔" ان کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب انھوں نے ثمینہ کو لوازمات سے بھری ٹرے تھامے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا اس کے پیچھے پیچھے ریحانہ تھی اس نے چائے کے کپ والی ٹرے اٹھا رکھی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بہنوں نے پلیٹیں میز پر رکھ کر اسے کھانے پینے کی اشیا سے بھر دیا۔ رول، سموسے، کیک، چاٹ، نمکو بسکٹ سب کچھ ہی میز پر سج چکا تھا۔ یہ سب دیکھ کر خالہ کی نظروں میں ستائش جھلکی۔ ثمینہ نے سلیقے سے ایک ایک خالی پلیٹ مہمانوں کے سامنے رکھ دی۔

"بہن سچ بات تو یہ یے کہ شگفتہ تو میرے جاوید کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔ نہ اسے کوئی شرم ہے نہ حیا۔ کوئی سال دو چھوٹا ہے میرا جاوید اس سے، پر وہ تو کسی کے کہنے سسنے میں نہیں تو پھر ہم کو ہی قربانی دینی پڑے گی۔ آخر کو بڑے جو ہوئے۔ اس خودسر اور منہ زور لڑکی کو قبول کرنا ہماری مجبوری ہے کہ عزت بھی تو بچانی ہے۔ ہم تو جیسے تیسے اسے برداشت کر لیں گے مگر جیسے اس کے لچھن ہیں وہ دوسروں کے خاندان میں جا کر پھوٹ ہی ڈلوائے گی۔" انھوں نے روہانسی آواز میں بات مکمل کی۔ مہمان حیران پریشان بیٹھے تھے۔

"توبہ توبہ، ایسی بدبخت لڑکی میں تو اسے یتیم اور نیک سمجھ  کر رشتہ لینے آئی تھی۔ میرا خیال ہے ہمیں چلنا چاہیے۔" فرزانہ کی امی نے ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔

"ارے ارے بہن یہ کیا کر رہی ہیں، ہم آپ کے کچھ نہیں لگتے کیا؟ اس طرح میں آپ کو جانے نہیں دوں گی۔ میری ثمینہ کو تو آپ کے آنے کا چاؤ ہی بہت تھا صبح سے ہلکان ہو گئی باورچی خانے میں کام کرتے ہوئے۔ آپ کی خاطر تواضع کے لیے دیکھیے میری بیٹی نے کتنی محنت کی ہے۔ اب آپ اس طرح چلی جائیں گی تو میری بیٹی کا دل ٹوٹ جائے گا۔" ان کی بات پر مہمانوں نے لگاوٹ سے انگلیاں مروڑتی ثمینہ کو دیکھا۔ اماں کی باتیں ان کے دل پر اثر چھوڑ گئی تھیں۔ اگلے کچھ لمحوں میں ثمینہ معصومیت سے مسکراتے ہوئے انھیں چیزیں پیش کرنے لگی۔

"یہ تو واقعی بہت مزے کے ہیں۔۔۔"

فرزانہ کی امی اور خالہ نے تعریف کی۔

"بہت سگھڑ ہے میری ثمینہ۔۔۔ خوش شکل، معصوم، کم عمر اور تمیز دار۔  خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کی یہ بہو بنے گی۔"

ماحول یکسر بدل گیا تھا۔ کچھ دیر پہلے کا تناؤ دم توڑ چکا تھا۔ خوش دلی سے باتیں کرتی اور چائے کے لوازمات سے انصاف کرتی خواتین بھول گئیں کہ وہ یہاں کس کے رشتے کے لیے آئی تھیں۔ شگفتہ کی چاچی اس بار بھی اپنی چال میں کامیاب رہی۔

توقع کے عین مطابق آنے والے چند دنوں میں خوشی کی خبر انھیں موصول ہوئی۔ فرزانہ کے گھر والے اپنے اکلوتے کماؤ پوت کا رشتہ ثمینہ کے ساتھ کرنے کو بخوشی تیار تھے۔ اماں نے رشتہ بنا کسی حیل و حجت کے قبول کر لیا بل کہ وقت ضائع کیے بنا انھوں نے سادہ سی گھریلو تقریب میں منگنی کی رسم بھی ادا کر دی تھی۔

٭٭٭٭٭

"میرے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں۔۔۔" عظیم کی اماں اندر باہر بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی تھیں۔ آج شام کو گھر کے سامنے مہندی کی چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی۔

"اماں فکر نہ کریں سب کچھ ہو تو رہا ہے۔" عظیم نے ان کی ہدایات سنتے ہوئے جواب دیا۔

تمام انتظام انھوں نے گھر کے سامنے گلی میں ہی کرنا تھا۔ حسینہ بھی مصروف انداز میں ادھر ادھر بھاگی پھر رہی تھی۔ جہیز کے تمام جوڑے اس نے آپا کے ساتھ مل کر ٹانک لیے تھے۔ جہیز کا چھوٹا موٹا سامان پہلے ہی پھوپھی کے گھر پہنچا دیا گیا تھا مگر کپڑے وغیرہ مہمانوں کو دکھانے کے لیے گھر میں ہی سجائے گئے تھے۔

آپا کا کمرے سے باہر نکلنا ممنوع تھا کہ وہ مایوں بیٹھی تھی۔

"خبردار جو باہر نکلی اب، ورنہ روپ نہیں آتا نئ نویلی دلہنوں پر۔۔۔" آپا کو بازار میں تھوڑا کام تھا مگر اماں نے ڈپٹ دیا۔ حسینہ نے اپنی خاص تیاری پہلے ہی مکمل کر لی تھی۔ جب سے اسے پتا چلا کہ ان سے ملاقات ہو گی اس کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ دل میں نئی امنگیں چھپائے وہ چہچہاتی پھر رہی تھی اور دیکھنے والوں کو لگ رہا تھا کہ بہن کی شادی کے چاؤ ہیں۔

شام ڈھلتے ہی گھر میں لگائے برقی قمقمے روشن کر دیے گئے۔ گھر میں رنگ برنگی بولیاں سنائی دے رہی تھیں۔ لڑکیوں کو اپنی تیاریوں کی پڑی تھی جب کہ ابا اور عظیم انتظامات میں مگن رہے۔ حسینہ کی کزن آپا کو مہندی لگانے اور تیار کرنے کے لیے کمرہ بند کر چکی تھی۔ موبائل تو اس نے اپنی جان سے چپکا رکھا تھا اور تھا ہی کون موبائل پر بات کرنے والا۔ صبح سے وقفے وقفے سے اسے پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ وہ انتہائی بے تابی سے وقت کٹنے کا انتظار کر رہا تھا کچھ ایسا ہی حال حسینہ کا بھی تھا۔ اپنے کپڑے تھامے وہ گنگناتی ہوئی تیار ہونے چل دی۔

"کیسا ہے یار تو؟" وہ نائی کے سر پر کھڑا دیگ بنوا رہا تھا جب اس نے مانوس سی آواز سنی۔ سامنے ہی حسن اور الیاس کھڑے نظر آئے۔

"ارے یار آ گئے تم لوگ" ان سے گلے ملتے ہوئے عظیم نے خوشی کا اظہار کیا۔

"بڑی تیاری کی ہے بھئی، آج تو شہزادہ لگ رہا ہے۔" مصروف سا عظیم عام سے حلیے میں تھا۔ اس نے حسن کی تیاری کو کھلے دل سے سراہا۔ نیا کرتا شلوار صاف ستھرا چہرہ اور جیل لگا کر سلیقے سے بنائے گئے بال۔۔۔

"اچھا اب کام کرواؤ میرے ساتھ، اکیلا کھپ رہا ہوں صبح سے۔۔۔" عظیم دونوں دوستوں کو کام سمجھانے لگا۔

حسن نے چپکے سے اس نے حسینہ کو ٹیکسٹ کیا: "سرپرائز کے لیے تیار رہو۔"

پیغام پڑھ کر میک اپ کرتی حسینہ کے ہاتھ لرزے۔ دل علیحدہ زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

"حسینہ تمھارے گال کتنے گلابی ہو رہے ہیں۔۔۔ پاگل اتنا پلش آن کیوں لگا لیا۔" اس کی کزن نے ٹوکا۔

"کیا؟" بے ساختہ اس کی نظریں شیشے میں نظر آتے اپنے عکس پر ٹھہر گئیں۔ اس کے گال دہک رہے تھے۔ بلش آن تو کیا اس کے حسن کی لو کسی میک اپ کی ہرگز محتاج نہ تھی۔ گلابی رنگ کا شرارہ  اور مناسب لمبائی کی ہرے رنگ کی قمیص جس پر سنہرے ستارے ٹانکے گئے تھے۔ اور ساتھ سنہرے رنگ کا جالی دار چمکتا دمکتا ڈوپٹہ، وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔

"حسینہ میرے جوتے نکال دے، وہ جو پچھلی عید پر پہنے تھے۔" اماں کی آواز سنائی دی تو وہ ان کے جوتے نکالنے چل دی۔ ادھر حسن کی نگاہیں با بار کھلے دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں مگر دشمن جان کی اک جھلک بھی بے تاب نگاہوں کو میسر نہیں ہوئی۔

"یار حسن ادھر آ ذر،ا دیگ پر نظر رکھنا، میں یہ مٹھائی کا ڈبا اندر چھوڑ آؤں۔ ادھر تو بچے اس سے چھیڑ خانی کرتے رہیں گے۔۔۔" عظیم نے اسے بلایا۔

"تو فکر نہ کر، اسے میں دیکھ لوں گا۔ اماں کو ہی دینی ہے نا۔۔۔" اس نے سادگی سے کہا۔

"نہیں تم رہنے دو میں خود ہی دے آؤں گا۔"

"ارے، کیا ہو گیا ہے۔۔۔ دیگ مجھ سے نہیں ہینڈل ہو گی، شادی والا گھر ہے لوگ آ جا رہے ہیں، میں چلا جاؤں گا تو قیامت نہیں آ جائے گی۔" اس نے عظیم کی بات اچک کر منہ بنایا۔

"اچھا ٹھیک ہے لے جا۔۔۔" عظیم نے قائل ہوتے ہوئے اسے اجازت دی۔

حسن کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ ڈبا اٹھائے وہ محتاط نظروں سے ارد گرد کا جائزہ لیتا کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ گھر میں عجیب سی گہما گہمی تھی۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بچے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

"پتا نہیں کہاں ہو گی وہ؟" اس نے دل ہی دل سوچا۔ تب ہی وہ اسے کمرے سے نکلتی نظر آئی۔ ایک پل کے لیے تو اس کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ وہ خوب صورت کی مورت سراپا حسین ہو گی اور وہ اسے اس انداز میں دیکھے گا یہ تو اس کے گمان میں بھی نہ تھا۔ سنہرا ڈوپٹہ سنبھالتی وہ آسمان سے اتری کوئی حور پری تھی۔ مہندی کے لیے سجانے والی پلیٹیں ہاتھ میں تھامے وہ سہج سہج قدم اٹھاتی نجانے کس طرف جا رہی تھی۔ یہ اس سے بات کرنے اور ملنے کا اچھا موقع تھا۔ وہ فورا اس کے پیچھے ہو لیا۔

"حسینہ۔۔۔" گہرے دھیمے لہجے میں حسن نے پکارا۔

شناسا آواز اور لہجہ۔۔۔ اپنا نام سن کر وہ پلٹی اور جیسے سانس لینا بھول گئی۔

٭٭٭٭٭

"اٹھ بھی جاؤ یار۔۔۔ لڑکیاں کب کی تیار ویار ہو کر ٹی وی لاؤنج پہنچ چکی ہیں اور تم ابھی تک بستر میں پڑی ہو۔" "اٹھ جاؤں گی، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ سارا دن تو کام کاج کی نذر ہو گیا۔ ابھی تو موقع ملا ہے آرام کرنے کا۔۔۔" شگفتہ، صائمہ کی بات کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لائی تھی۔

"بڑے کام کیے ہیں تم نے۔۔۔ بس اپنے چند کپڑے ہی تو دھوئے ہیں۔ جلدی اٹھو اب تو میوزک کی آواز بھی آنے لگی ہے۔" صائمہ نے اس کی توجہ باہر سے آتی آوازوں کی طرف مبذول کروائی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔" کسلمندی سے وہ بستر سے نکلی۔ صائمہ کپڑے بدل چکی تھی جب کہ شگفتہ نے ابھی تیار ہونا تھا۔ پندرہ منٹ بعد جب وہ اچھے حلیے میں اپنے کمرے سے باہر نکلیں تو شگفتہ کو صائمہ کی بات کی صداقت کا یقین ہو گیا۔ جس لڑکی کے پاس جو فینسی لباس ہاسٹل میں موجود تھا اس نے زیب تن کر رکھا تھا۔

"ایسا لگ رہا ہے جیسے اصل میں مہندی چل رہی ہے اور ہمیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے مفتے کھانا کھانے آئے ہیں۔۔۔" شگفتہ کی رائے پر صائمہ بے ساختہ قہقہہ لگا اٹھی۔ 

ٹی وی لاونج کا منظر قابل دید تھا۔ سامنے ہی بڑے صوفے پر میڈم گولا گنڈا کی طرح سجی بیٹھی تھیں شوخ رنگ کا جھلملاتا سوٹ اور میک اپ۔۔۔ وہ کافی خوش لگ رہی تھیں۔ ان کے وہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی صالحہ کی دوستیں  ڈوپٹہ تانے دلھن کو لے آئیں۔ پیلے رنگ کے جوڑے میں صالحہ ہمیشہ کی طرح عام ہی لگ رہی تھی۔ چہرہ بھی سپاٹ سا تھا۔ پتا نہیں کیوں مگر شگفتہ کو بہت تلاش کے بعد بھی اس کے چہرے پر وہ خوشی نظر نہیں آئی تھی جو عام طور پر دلہنوں کے چہرے پر ہوتی ہے۔

"ہم لڑکیاں کتنی عجیب ہیں۔ اپنی زندگی کا اہم تر فیصلہ سمجھوتے کی نظر کر دیتی ہیں۔ ساری زندگی سسک سسک کر اور قربانی دے کر گزار دیں تو بھی آخر میں پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی ہم سے خوش نہیں۔۔۔" شگفتہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔

میڈم نے سب سے پہلے صالحہ کی ہتھیلی پر دھرے پیپل کے پتے پر مہندی رکھی پھر باری باری اس کی قریبی دوستوں نے۔۔۔ یوں تیل مہندی کی رسم ادا ہو گئی۔ شگفتہ سمیت بہت سی لڑکیوں کا دھیان کھانے کی طرف تھا جس کی ابھی تک بیل نہیں ہوئی تھی۔ مگر خوشبوؤں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کھانا بس جلد کھلنے والا ہے۔

لذیذ قورمہ زردہ اور سرخ لوبیے کا سلاد۔۔۔ کھانا لگتے ہی شگفتہ سب بھول بھال گئی۔

"صالحہ جانے اور اس کی زندگی ہمیں کیا۔۔۔" کھانے سے انصاف کرتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔

٭٭٭٭

"آپ؟" اسے دیکھ کر وہ بے حد حیران رہ گئی تھی۔

"ہاں میں۔۔۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ تم میرے رو برو ہو۔" حسن نے رومانوی انداز اپنایا۔

"آپ تو بھائی کے دوست۔۔۔" حسینہ کے منہ سے الفاظ جیسے پھسلے تھے۔

"شش، آہستہ بولو۔" حسن نے اس کی بات کاٹی۔

"اب میں صرف تمھارا عاشق ہوں۔ تم بے حد حسین ہو جیسے آسمان سے اتری حور۔۔۔" وہ مکمل طور پر اس کی بے باک نگاہوں کے حصار میں تھی۔

"لڑکیوں جلدی کرو۔ کتنا وقت اور لگے گا تیار ہونے میں..." اماں نے کمرے سے نکلتے ہوئے جھنجھلائی آواز میں لڑکیوں کو گھرکا۔

عجلت میں مٹھائی کا ڈبا اسے تھما کر وہ الٹے پاؤں باہر بھاگ گیا۔ تقریبا سب لڑکیوں کی تیاری بس مکمل ہونے کو تھی۔ اپنے حواس بحال کرتی وہ آپا کو دیکھنے چل دی۔

"ماشاءاللہ آپا تم تو بہت خوب صورت لگ رہی ہو، کتنا روپ چڑھا ہے۔"

"ہاں بالکل!" سبھی نے اس کی تائید کی۔

آپا کو سرخ رنگ کے گوٹا کناری والے ڈوپٹے کی چھاؤں میں باہر لایا گیا۔ رسمیں ادا ہوئیں، کھانا کھایا گیا اور اس سب کے دوران وہ مستقل کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرتی رہی۔ کس کی؟ اس کا جواب حسینہ کو اچھے سے معلوم تھا۔ اس کی حقیقت جان کر اسے دیکھ کر حسینہ نے اسے ناپسند نہیں کیا تھا۔ حسینہ کے تاثرات دیکھ کر حسن کے دل سے کانٹا نکل گیا تھا۔

اگلے روز بارات کا انتظام بھی گلی میں لگے ٹینٹ میں کیا گیا۔ حسینہ کو دوہری خوشی تھی۔ آپا کی شادی کی اور محبت کی سرشاری کی بھی۔ محلے کی اک لڑکی آپا کو گھر میں تیار کرنے آئی تھی۔

حسن مچل رہا تھا فون پر حسینہ سے بات کرنے کو مگر اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا۔

آسمانی رنگ کے ہلکے سے کام والے جوڑے میں ملبوس حسینہ بہت دمک رہی تھی۔ شاید اندر کی خوشی تھی جس نے اس کے انگ انگ میں سرشاری بھر دی۔ بارات آنے پر مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے چند لمحوں کے لیے اس کا سامنا حسن سے ہوا۔ اس کی والہانہ نگاہوں میں چھپے پیغام کو وہ باآسانی سمجھ گئی مگر مہمانوں کی بدولت جلد ہی اس کا دھیان بٹ گیا۔ شفیق بھائی دلھے کے روپ میں بہت سج رہے تھے۔ ان کی اور آپا کی جوڑی بہت کمال کی تھی۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے فرائض نبھاتی وہ گھن چکر بن گئی۔ عظیم کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ گھر کی پہلی شادی کی ذمہ داری نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ ابا اور اماں اس سے بہت خوش تھے  کہ بیٹے نے کام اور انتظامات سنبھالنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ وہ یک دم سے اتنا ذمہ دار اور مصروف کیسے ہو گیا اس کی وجہ سے وہ خود بھی ٹھیک سے واقف نہ تھا تو دوسرے لوگ کیسے ہو سکتے تھے۔ ہاں وہ بدل رہا تھا۔

نکاح ہونے سے لے کر رخصتی تک سب کچھ فٹافٹ ہوتا گیا۔ عظیم کو آپا کا سچا اور دو ٹوک انداز اکثر نہیں بھاتا تھا مگر وہ دل سے مانتا تھا کہ وہ اس کی ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔ رخصتی کے وقت اماں اور ابا کے گلے لگ کر روتی آپا کو دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا۔ ان کے رخصت ہونے پر اس کا دل بھی اداس تھا مگر وہ اور ابا اماں اور بہنوں کی طرح رو کر اپنا دل ہلکا نہیں کر سکتے تھے۔

"بھرجائی فکر نہ کریں، آسیہ میری بیٹی ہے اب۔۔۔ بہت خوش رہے گی میرے شفیق کے ساتھ۔" پھوپھی نے روتی ہوئی اماں کے کندھے لگ کر انھیں دلاسا دیا تو وہ روتے روتے مسکرا دیں۔ دعاؤں کے سایے میں آپا کو رخصت کرنے کے بعد وہ دھیرے دھیرے پرسکون ہوتے گئے۔ ڈھلتی عمر کے والدین کے نزدیک جوان بیٹیوں کے فرض بخوبی  ادا کرنے سے بڑھ کر شاید اور کوئی خوشی نہیں ہوتی۔

"اماں مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپا اس گھر سے رخصت ہو چکی ہے۔" چائے کا کپ اماں کو تھماتے ہوئے حسینہ اداس سی لگ رہی تھی۔ ابا اور عظیم کو چائے وہ پہلے ہی دی چکی تھی۔ شام ڈھلنے تک گھر میں جو چند رشتے دار تھے وہ بھی اپنے گھر سدھار چکے تھے۔

"ہاں دیکھو گھر کتنا سونا اور خالی خالی لگ رہا ہے۔" اماں نے گہری سانس بھری۔

"اماں پہلے تجھے کتنی جلدی تھی آپا کی شادی کی اب اتنی اداس ہو گئی ہو۔ ویسے اماں گھر خالی خالی مہمانوں کے جانے سے لگ رہا ہے، آپا کے جانے سے نہیں۔۔۔" حسینہ نے خوش دلی سے جواب دیا۔

"اچھا چل زیادہ باتیں نہ کر۔ چھوٹی کو ساتھ لگا گھر جتنا سمیٹا جا سکتا ہے سمیٹ لے۔ سب کچھ بکھرا پڑا ہے کل پھر ولیمے کے لیے بھی جانا ہے۔ اپنے ابا اور عظیم کے کپڑے رات میں ہی استری کر کے رکھ دینا، تم دونوں بہنیں بھی اپنی تیاری مکمل کر لینا وقت سے۔۔۔ میں تو بہت تھک گئی ہوں، آرام کرنے جا رہی ہوں۔" چائے ختم کر کے اماں ہاتھ جھاڑتے ہوئے سونے کے لیے کمرے کی طرف چل دیں۔

بستر پر لیٹے لیٹے بھی وہ اسے ہدایات دیبا نہ بھولی تھیں۔

"اچھا اماں ٹھیک ہے، سب کر لوں گی۔۔۔" کام سیمٹتے سمیٹتے اسے دس بج گئے۔ اوپر والے کمرے کی بتی بھی گل تھی شاید تھکا ہارا عظیم بھی نیند کی وادی میں کھو چکا تھا۔ موبائل تھام کر وہ پرسکون ہو کر اپنے بستر پر دراز ہو گئی۔ موصول ہوئے پیغامات جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی اس کا چہرے کی لالی بڑھتی گئی۔ شادی پر ہونے والی سرسری ملاقاتوں کے بعد تو حسن اس کا دیوانہ بن چکا تھا۔ حسینہ کو اتنی پذیرائی مل رہی تھی وہ تو جیسے ہوا‎ؤں میں اڑنے لگی۔ موبائل کی ٹون بند کر کے اس نے ایک جوابی پیغام بھیجا اور موبائل روشن ہو گیا۔ وہ اسے کال کر رہا تھا۔ لمبی رات اور بات بھی لمبی۔۔۔ وہ بے خوفی سے دھیمی آواز میں اپنے عاشق سے باتیں کرتی رہی۔ فون رومانس کیا ہوتا ہے، عظیم کی بہن بھی اس سے روشناس ہو چکی تھی۔

جو دھوکے عظیم لڑکیوں کو دیتا انھی میں سے ایک دھوکا پلٹ کر اس کے گھر آ پہنچا تھا۔ بے شک انسان بہت خسارے میں ہے۔ تمام گھر والے ایک بیٹی کے فرض سے سبک دوش ہو کر سکون کی نیند سو رہے تھے جب کہ اس گھر میں ان کی دوسری بیٹی کسی نامحرم لڑکے سے فون پر رومانس بھگارنے میں اتنی مگن تھی کہ یکسر بھول گئی کہ وہ شریف والدین کی بیٹی ہے۔

٭٭٭٭٭

"ثمینہ تو بڑی خوش قسمت ہے، اماں دیکھو تو سہی کیسے مہنگے مہنگے تحفے آئے ہیں اس کے لیے دوبئی سے۔۔۔" ریحانہ ندیدوں کی طرح تحفے بستر پر پھیلائے انھیں الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی۔

"اے لڑکی! میری بات سن یہ مقدر یہ تقدیر یہ خوش قسمتی کچھ نہیں ہوتی۔ انسان اپنی اچھی قسمت اپنی کوشش اور تدبیر سے خود بناتا ہے۔ تجھے اپنی بہن اتنی خوش قسمت لگ رہی ہے نا جو آج یہ سب میری تدبیر اور معاملہ فہمی کا نتیجہ ہے۔" اماں نے بستر پر ٹانگیں پسارتے ہوئے کہا۔ ثمینہ زیر لب مسکراتی رہی۔ چاہے جیسے بھی ہوا ہو وہ اس رشتے سے بہت خوش تھی۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیسے باتوں باتوں میں ہی سب اس کے حق میں ہو گیا تھا۔ وہ اٹھ کر ماں کے پاس آ بیٹھی۔

"ہاں سچ کہا اماں، اگر سارے معاملے کو اتنی ہوشیاری اور سمجھ داری سے نہ چلاتی تو یقینا یہ سب ممکن نہ تھا۔" ان کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے ثمینہ نے لگاوٹ سے کہا۔

"میری تو ساری دوستیں جل بھن گئیں میرے رشتے کی بات سن کر، منہ دیکھنے والے تھے ان کے جب انھیں ساری بات بتائی۔" ثمینہ نے مزے لیتے ہوئے ماں کو آگاہ کیا۔

"مگر اماں، اب شگفتہ آپی کا کیا کریں گے؟ انھیں تو کہہ دیا تم نے کہ شگفتہ کا سلسلہ جاوید بھائی سے چل رہا ہے مگر وہ تو جب کی یہاں سے ہو کر گئی اس نے تو چپ سادھ رکھی ہے۔" ریحانہ نے ماں کی توجہ اس معاملے کی طرف دلائی جسے وہ اپنے ذہن سے محو کیے بیٹھی تھیں۔

"ارے ہاں یہ تو ٹھیک کہا تو نے۔ آج ہی بات کرتی ہوں تیرے باپ سے کہ پوچھے مہارانی نے کیا فیصلہ کیا۔ تیرے ابا نے ہی اسے سر پر چڑھا رکھا ہے ورنہ میں تو دو دن میں اس کے سارے کس بل نکال دوں۔" بستر سے اٹھتے ہوئے انھوں نے کروفر سے کہا۔

شام میں وہ بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے جب وہ ان کے سر پر آ دھمکیں۔

"تو نے بات کی شگفتہ سے۔۔۔ دوبارہ رشتے کے سلسلے میں؟"

"تجھے تو ایسی جلدی پڑی ہے جیسے اگلے مہینے تو نے ویاہ کرنا ہو اس کا۔۔۔" چاچا نے ناگواری سے جواب دیا۔ "اس کا صاف مطلب ہے کہ تیری جرآت ہی نہیں ہوئی ان سے پوچھنے کی۔" ہاتھ نچاتے ہوئے انھوں نے شوہر کو آڑے ہاتھوں لیا۔

"فضول بک بک نہ کیا کر ہر وقت۔۔۔" انھوں نے ناگواری سے جواب دیا۔

"ہاں تجھے تو میری باتیں بک بک ہی لگیں گی۔ تجھے کون سا لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ بھگتنا تو مجھے پڑتا ہے نا۔۔۔ اپنی ثمینہ کا خدا کے فضل سے اچھا رشتہ ہو چکا ہے۔ شگفتہ بڑی ہے سب سے لوگ منہ بھر بھر کے ہوچھتے ہیں کہ اس کا رشتہ پہلے کیوں نہیں کیا۔ فرزانہ کی ماں اور خالہ نے بھی سوال کیا تھا۔ یتیم کی کفالت کر رہے ہیں مگر نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔" ان کا ڈراما شروع ہو چکا تھا۔ اپنی بیٹی کا رشتہ انھوں نے کیسے کیا؟ یہ بات انھوں نے اپنے شوہر سے چھپا رکھی تھی کبھی نہ ظاہر کرنے کے لیے۔۔۔

"اچھا اچھا، اس سے آج کل میں بات کر لوں گا، زیادہ شوشا نہ بنا چھوٹی سی بات کا۔۔۔" ناگواری سے کہہ کر وہ پھر ٹی وی کی جانب متوجہ ہو گئے تو وہ تن فن کرتی وہاں سے اٹھ کر بیٹیوں کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

٭٭٭٭

شگفتہ اپنی معمول کی ڈیوٹی پر تھی۔ مختلف ریکس کے درمیان چکر لگا کر اس نے اشیاء اور گاہکوں کا جائزہ لیا، سب ٹھیک تھا۔ ابھی تک کسی کو اس کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ مطمئن ہو گئی۔ چند لڑکے، لڑکیاں اور چند ایک جوڑے ہاتھ میں لسٹ تھامے مطلوبہ چیزیں نکالنے میں مگن تھے۔ کچھ دیر بعد وہ ایک جوڑے کی جانب متوجہ ہوئی۔ لڑکی نے گاؤن پہن رکھا تھا اور مرد نے شلوار قمیص۔ چہرے پر موجود ڈاڑھی اسے اور شریف ظاہر کر رہی تھی۔ مرد شیلف میں پڑی چیزوں کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا شاید اسے مطلوبہ چیز نہیں مل رہی۔

وہ اس کی طرف بڑھی۔ "سر میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہوں؟"

"جی اصل میں مجھے وہ نہیں مل رہی۔" شے کا نام بتاتے ہوئے مرد  نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ اس سے کچھ فاصلے پر موجود اس کی بیوی اپنی ذاتی استعمال کی اشیا کو دیکھ رہی تھی۔

"میں لا دیتی ہوں سر، وہ بیک والی شیلف پر موجود ہے۔" پروفیشنل انداز میں کہہ کر کچھ سیکنڈ بعد وہ مطلوبہ شے نکال لائی تھی۔

"شکریہ۔" مسکراتے ہوئے مرد نے پیکٹ تھاما۔ شگفتہ کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ نامحسوس طریقے سے پیکٹ تھامتے ہوئے مرد نے قریبا اس کا پورا ہاتھ ہی چھو لیا تھا۔ شگفتہ نے الجھی نظروں سے مرد کی جانب دیکھا۔ وہ عجیب انداز میں مسکرا رہا تھا اور اس کی نظروں کا تاثر۔۔۔

"اففف" شگفتہ کا خون کھول اٹھا۔ شرافت کے لبادے میں ملبوس وہ ایک بدنیت مرد تھا۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی وہ فورا پلٹا اور اپنی بیوی کی طرف بڑھ گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔

"لعنت ہے منحسوس، شکل پر شرافت طاری کر کے کیسے کیسے شیطان پھرتے ہیں ہمارے اطراف۔ ان کے کرتوت تو دیکھو ۔" بڑبڑاتے ہوئے وہ تب تک اسے شرر بار نگاہوں سے گھورتی رہی جب تک وہ ادھر سے ہٹ نہیں گیا۔

گھر سے باہر نکلنے پر قدم قدم پہ شگفتہ کو زمانے کے دوہرے معیار اور منافقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ روز نہ جانے کتنی لڑکیاں اس سب سے گزرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شرافت کو ظاہری حلیے سے پرکھا جاتا ہے۔ جس مرد کے چہرے پر ڈاڑھی ہو، شلوار قمیص میں ملبوس ہو اسے ہم اسلامی نیک اور شریف سمجھتے ہیں۔ اور کسی لڑکے نے مضحکہ خیز مغربی لباس زیب تن کر رکھا ہو تو اسے دیکھتے ہی ہم اندازہ باندھ لیتے ہیں کہ ضرور کوئی لوفر آوارہ ہے۔ یہ ہی حال لڑکیوں کا ہے۔ مکمل لباس، گاؤن اور ڈوپٹہ اوڑھنے والی لڑکی شریف اور پاک پاز جب کہ ماڈرن لباس، کھلے بالوں اور بنا ڈوپٹے کے لڑکی بے حیا اور قابل مذمت۔ یہ کتنے شکر کی بات ہے کہ لباس اور چہرہ نیت کی غمازی نہیں کرتا ورنہ تو پتا نہیں کتنے نام نہاد شرفاء سرعام رسوا ہوتے۔

شگفتہ کا کام ختم ہی ہونے والا تھا جب اس کی ایک دوست نے اسے سے کہا:

"یار مجھے چند دن کے لیے چھٹی لینا پڑے گی۔" وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔

"کیوں خیریت؟"

"خیریت ہی تو نہیں۔۔۔" اس نے دھیمی اواز میں جواب دیا۔

"کیا ہوا، وجہ تو بتا‎ؤ؟"

"امی کی طبیعت آج کل ناساز ہے۔ وہ خود اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہیں۔ میرا سارا دن یہاں گزر جاتا ہے پیچھے ان کا خیال رکھنے والا تو کوئی بھی نہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ انھیں مکمل آرام چاہیے۔" اس نے بھیگی آواز میں کہا۔ وہ بہت شکست خوردہ لگ رہی تھی۔

"اور تمھارا بھائی، وہ نہیں آتا۔۔۔ اسے ذرا خیال نہیں ماں کی صحت کا؟" شگفتہ نے اس کے اکلوتے بڑے بھائی کا حوالہ دیا جو اسی شہر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ علیحدہ گھر میں رہائش پذیر تھا۔

"خیال، کیسا خیال۔۔۔" وہ استہزائیہ ہنسی ہنس دی۔

"ماں کو کہتا ہے اپنی حالت اور ان حالات کی ذمے دار آپ خود ہیں۔ بیوی بچوں کے علاوہ اسے کہاں کچھ دکھائی دیتا ہے۔ سوچو امی کا دل کتنا دکھتا ہے جب وہ سگی ماں کو پوچھتا تک نہیں پر اس کے ساس سسر میں سے کوئی بیمار ہو تو صبح شام سسرال کے چکر کاٹتا ہے۔" اس کی آواز میں چھپا گہرا دکھ شگفتہ کا دل بوجھل کر گیا۔

"اچھا تم اپنے ناہنجار بھائی کی باتیں دل پر نہ لو۔ امی ٹھیک ہو جائیں گی فکر نہ کرو۔" شگفتہ نے اسے دلاسا دیا۔ "مسئلہ یہ ہے کہ اب پتا نہیں سپروائزر چھٹی دیتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔" وہ روہانسی انداز میں بولی۔

"کہہ تو ٹھیک رہی ہو۔ چھٹی مانگ لیں تو جیسے اسے موت پڑنے لگتی ہے۔ چلو اکٹھے چلتے ہیں میرے سامنے بات کرنا دیکھتی ہوں کیسے چھٹی نہیں دیتا۔" شگفتہ اسے ساتھ لیے سپروائزر سے بات کرنے چل دی تھی۔

٭٭٭٭

عظیم کی آپا کا ولیمہ بھی خیر خیریت سے ہو گیا تھا۔ شادی کے ہنگامے ختم ہونے کے بعد عظیم کی زندگی معمول پر آ گئی تھی مگر حسینہ کی معمول سے یکسر ہٹ چکی تھی۔ سب سے بڑا بدلاؤ تو اس کی زندگی میں آیا تھا۔

"اماں کالج میں داخلے شروع ہو گئے ہیں۔" سلائی مشین پر جھکی اماں کو اس نے ایک روز اطلاع دی۔

"اچھا تو پھر؟ تو پھر یہ کہ مجھے آگے پڑھنا ہے۔ اماں میرا کالج میں داخلہ کروا دو۔" اس نے عام سے انداز میں کہا مگر اماں چونک اٹھی۔

"دیکھ حسینہ! تیرے پڑھنے پر ہمیں اعتراض نہیں مگر ابھی کل ہی تو بڑی بیٹھی بیاہی ہے۔ عظیم اور فضیلہ پڑھ رہے ہیں۔ ایک ساتھ سب بچوں کی پڑھائی کا خرچ اٹھانا ابھی ہمارے لیے ممکن نہیں۔ تیرے سامنے تو ہے کہ آسیہ کی شادی پر کتنے خرچے ہوئے ہیں۔" اماں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی اور پھر سے سلائی مشین پر جھک گئیں۔

"مطلب یہ کہ اماں میرا کالج میں ابھی داخلہ نہیں کروایا جائے گا؟"

"یہ ہی سمجھ لے۔ گھر بیٹھ کر پرائیویٹ پڑھ لینا۔"

"یہ کیا بات ہوئی اماں۔ سارے خرچے میری بار یاد آ رہے ہیں۔ عظیم بھائی بھی تو کالج میں جاتا ہے پڑھنے، حالانکہ وہ کتنا نالائق ہے سب کو پتا ہے۔ اسے تو نہیں کالج سے ہٹایا گیا۔" حسینہ نے بے خوفی سے ماں کو جواب دیے۔ کالج جانے کے بہانے ہی تو وہ اپنے عاشق سے جی بھر کر باتیں اور ملاقاتیں کر سکتی تھی۔ اس نے کیا کیا نہیں سوچ لیا تھا۔۔۔ مگر اماں نے تو اسے ٹکا سا جواب دے دیا۔

"حسینہ زبان لپیٹ کر رکھا کر اپنی ورنہ دو لگاؤں گی۔ میں دیکھ رہی ہوں تو منہ پھٹ اور بدتمیز ہوتی جا رہی ہے۔" اماں نے اسے ڈپٹا۔

"بس باتیں سننے کو میں ہی رہ گئی ہوں۔" پیر پٹختی وہ اندر کمرے میں چل دی تو اماں نے سر جھٹکا۔ حسینہ کے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل چکے تھے اس لیے کہ وہ اب تک پکڑی نہیں گئی تھی۔ مگر کون جانے آگے کیا ہونے والا تھا۔ (جاری ہے)