ساجدہ حسین
عید الاضحٰی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔اس عید کا آغاز 624 عیسوی میں ہوا۔ عید الاضحٰی 10 ذو الحجہ کو اس وقت منائی جاتی ہے،
جب عازمینِ حج، حج کے واجبات ادا کر رہے ہوتے ہیں۔عید الاضحٰی ایک انتہائی بامقصد اور یادگار دن ہے۔ اس دن کی دعاؤں کا عندیہ حضورِ پاکﷺ کی طرف سے دیا گیا ہے،لہٰذا اس دن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کی دعائیں خوب گڑگڑا کر مانگنی چاہییں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہ عید ہمارے پیغمبر اور باپ ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کے نتیجے میں منائی جاتی ہے اور سنتِ ابراہیمی کو سرانجام دیا جاتا ہے۔ عید الاضحٰی (قربانی کی عید) صرف جانوروں پر چھری پھیرنے کا نام نہیں، اس کے لیے تقویٰ اور خلوص کی ضرورت ہے، جیسے اللہ کا فرمان ہے کہ مجھے تمہارا خون اور گوشت نہیں چاہیے، صرف تمہارا تقویٰ اور پرہیزگاری چاہیے کہ کوئی کتنے خلوص اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں جانور قربان کرتا ہے۔ قربانی سنتِ ابراہیمی کو زندہ کرنے اور رب تعالیٰ کی محبت کا نام ہے اور اگر اس کے پیچھے اسوۂِ ابراہیم علیہ السلام کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کتنی آزمائشیں جھیلیں اور کیا کچھ قربان کیا اپنے رب کی خاطر! جب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کہا:”اے ابراہیم! مطیع اور فرماں بردار ہو جا۔“ تو آپ نے کہا:”میں نے سر تسلیمِ خم کر لیا ہے یا رب!“ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار، برگزیدہ پیغمبر تھے، جو حنیف تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ارض و سماوات کی نشانیاں دیکھ کر اپنے رب کو پہچانا تھا اور ہر آزمائش پر اترنے کی بنا پر اب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے گہرے دوست یعنی خلیل اللہ کہلائے۔ ابراہیم علیہ السلام کو توحید کا پرچار کرنے اور بُت شکنی کی پاداش میں نمرود نے آگ میں ڈالا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ آگ گلزار بن گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے آگ !ٹھنڈی ہو جا ابراہیم پر‘‘
اس کے بعد آپ کو اپنی جوان بیوی اور کمسِن بچوں کو بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کی خاطر چھوڑنا پڑا اور ساتھ ہی دعا کی کہ ’’یا اللہ! اس وادی کی جانب لوگوں کو مائل کر دے۔ ‘‘اس دعا کے نتیجے میں لوگ دور دراز حج کی غرض سے آتے ہیں، پھر ابراہیم علیہ السلام نے نیک اولاد کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحبِ اولاد کیا، جب وہ بچہ بلوغت کو پہنچا تو ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو کہا:’’ میرے بچے! میں نے خواب میں تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے تو بتا تیری کیا رائے ہے ؟‘‘اسماعیل علیہ السلام نے کہا:’’ ابا جان! جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لاییے، یقینًا آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ ‘‘یہ خواب ابراہیم علیہ السلام نے متواتر تین مرتبہ دیکھا، پھر یقین کر لیا کہ خواب اللہ کی طرف سے ہے، کیوں کہ انبیا علیہم السلام کے خواب اکثر سچے ہوتے ہیں۔جب دونوں مطیع ہو گئے تو ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اُسے منہ کے بل لٹا دیا کہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر وہ ڈگمگا نہ جائیں، جب چھری گردن پر رکھی تو اچانک اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ایک مینڈھابھیج دیا اور آواز آئی: ”اے ابراہیم !یقینًا تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا یہ مینڈھے کو ذبح کر اور قربانی دے۔ “ ابراہیم علیہ السلام اپنی ہر قربانی پر پورے اترے اور خلیل اللہ بن گئے۔ اسی سنتِ ابراہیمی کی یاد میں ہم عید الاضحٰی یعنی عیدِ قربان مناتے ہیں۔ اس قربانی میں اللہ تعالیٰ ہمارا اخلاص اور تقویٰ دیکھتے ہیں کہ ہم کتنے پرہیزگار ہیں، لہٰذا قربانی کے لیے خالصتًا نیت اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور رضاحاصل کرنے کی ہونی چاہیے نہ کہ ریاکاری کی۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہمیں اپنی توفیق سے رضا والی قربانی کرنانصیب فرمائے،آمین!