عائشہ محبوب

(آخری حصہ)

’’ارسلان یہ کیا ۔۔۔ پہلے عمرے میں پہلے امی سے ملنے چلیں تھوڑا فریش۔۔۔۔‘‘ بس اب یہاں کوئی اماں نہیں جو تمہاری مرضی چلتی، آواز بند رکھو، میری ماننی پڑے گی!‘‘ ارسلان کے چہرے پر دو ٹوک سختی تھی ۔۔۔ شاید وہ یہ کرنے پر مجبور تھا، ورنہ شادی کے چودہ پندرہ سال بعد تین بیٹیوں، دو بیٹوں کے ہوتے اس کا من دوسری شادی پر زور پکڑ رہا تھا ۔۔۔ وجہ صرف ایک عدینہ کی خود پر سے عدم توجہی، بڑھتے وزن نے اس کے چہرے کے نقوش تک بگاڑ دیے تھے ۔

۔۔۔ وہ سوچتا رمضان میں کچھ افاقہ ہوگا، مگر رمضان تو آتا ہی خوب ڈٹ کر لذیذ سحری کرنے اور پھر خوب لگ کر لاجواب افطاری کرنے کے لیے ۔۔۔ اسے حج کی بہت خواہش تھی خاص کر جوانی کے حج کی ۔۔۔ شادی سے پہلے ایک کرچکا تھا۔۔۔۔ شادی کے فوراً بعد بیوی کے ساتھ کرنا چاہا تو پہلے بچوں کی پیدائش کے مراحل دیکھ ریکھ پھر گرمی میں آتا ہے حج کا بہانہ عدینہ کرتی رہی ۔۔۔۔ پانچ سالوں سے تو خوب کوشش میں تھا، جب سے اس کے سالے نے اپنا کاروبار  مکہ میں سیٹ کر کے اپنے ماں باپ بیوی بچوں سمیت وہاں رہائش کرلی تھی ۔۔۔ عدینہ اور عظیم دو ہی بہن بھائی تھے ۔۔۔ مگر عدینہ ان کے جانے کے بعد پہلے آخری بیٹی راحمہ کی پیدائش اور پھر گرمی گرمی کرتے تیار نہ ہوتی ۔ اس بار ارسلان نے سب کرواکر اسے اطلاع دی کہ وہ نہ کہہ ہی نہ سکتی تھی ۔۔۔۔۔

٭٭٭٭

’’اب یہ نئی پخ ڈالی آپ نے کہ پہلے  عمرہ کرنا ہے، ارے پہلے بھیا کے گھر چلیں۔ امی ابو سے مل کر پھر کرتے ہیں نا!! ۔۔۔۔ دو قدم پر مسجد الحرام ہے ان کے گھر سے!‘‘ عدینہ کو ہاتھ استعمال کرنے کی عادت تھی، بات کرتے  ،سو ہاتھ سے دو قدم کرکے بتایا۔۔۔۔

’’اوہ ۔۔۔ تم نے کہاں کب نقشہ دیکھ لیا ۔۔۔ چلو اب تم ہی قدم کہتی ہو، تو پھر اب اس ’’دو قدم‘‘ پر قائم رہنا!‘‘ ارسلان نے ہاتھ سے اس کے دوقدم کی نقل اتار کر سراسر اسے مزید تپایا تھا۔۔۔۔ ’’ہاں کیا دو قدم پکڑ لیا آپ نے تو!‘‘

’’نا، پکڑ نہیں لیا دو قدم پکڑ لیے!‘‘ اب کہ ہونٹوں پر دل جلانے والی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔ ’’ہوں ں ۔۔۔۔۔۔‘‘ کہہ کر منہ پھلا کر پھیر لیا گیا ۔۔۔۔

٭٭٭

’’یہ کیا امی آپ اور ابو بھی لینے آئے۔۔۔ ارے ہم آجاتے یہ تو آپ کے داماد کی پخ تھی کہ پہلے عمرہ کرنا ہے، پھر آپ کے گھر جانا ہے!‘‘ عدینہ نے امی کے گلے سے کافی دیر لگنے کے بعد نم آنکھیں صاف کرکے انہیں بغور دیکھتے سوال کیا۔

’’ارے یہ میں نے اور تمہارے ابو نے ہی کہا تھا ۔۔۔ میقات پر ہم آئیں گے ساتھ ہی عمرہ کرکے پھر گھر چلیں گے!‘‘ میمونہ خاتون نے مسکرا کر بیٹی کو دیکھا جو بدستور انہیں غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ’’کیا ہوا، کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہوں کیا؟‘‘

’’ارے تمہاری امی ہی ہیں ۔۔۔ تبدیل نہیں کرلیا!‘‘ اب کے ابو نے بھی پھلجھڑی چھوڑی ۔۔۔ عدینہ اب ابو کو بھی مزید غور سے دیکھتے ماشاء اللہ ماشاءاللہ کہا پھر دل میں والدین کی سلامتی کی دعا مانگ کر گویا ہوئی ۔۔۔۔ ’’نہیں ابو وزن بہت کم لگ رہا ہے آپ  اور امی کا مگر کمزور تو نہیں لگ رہے  آپ دونوں!‘‘

’’بس اللہ کا کرم کہ اس نے عقل دے دی!‘‘

٭٭٭٭

عدینہ کا ایک ہی طواف بڑی ہی مشکل سے ہانپتے کاپنتے پھولی سانسوں سے مکمل ہوا ۔۔۔۔ امی  تو اس سے بہت پہلےطواف مکمل  کر کے سعی بھی  مکمل کرنے والی تھیں جب کہ بھیا بھابی کا عمرہ مکمل تھا ۔۔۔ امی ابو بھی بس آیا چاہتے تھے ۔۔۔ ارسلان بھی عمرہ مکمل کرکے امی ابو کے ساتھ آتا دکھائی دیا ۔۔۔ بچے بھی فارغ ہوچکے تھے ۔۔۔ بس وہی تھی ،جس کا سب انتظار کر رہے تھے  اللہ اللہ کرکے عمرے کے باقی مراحل مکمل کرکے گھر پہنچتے ہی عدینہ نے دو گولی درد کی پھانک کر بستر پکڑ لیا ۔۔۔

٭٭٭

شوربے والا سالن، نرم پتلے پھلکے اور بغیر نمک چینی کے دہی کی لسی ۔۔۔ دودھ کے گلاس دسترخوان پر صبح کے ناشتے کی زینت تھے ۔۔۔ عدینہ کا تو سانس ہی رُک گیا ۔۔۔ رات بغیر کھائے پیے سو گئی تھی ۔۔۔ اب بھوک ناقابل برداشت اور سامنے رکھے لوازمات اسے لگا بھوک مر ہی گئی ۔۔۔ مگر پیٹ نے خوب دُہائی ،دی خاموش رہ کر صبر شکر کرکے کھالے، پہلا ہی دن ہے ۔۔۔ ابھی تو تیل دیکھ تیل کی دھار دیکھ پھر عدینہ نے شکر تو نہیں مگر صبر کرکے لیکن انتہائی رغبت سے کھا لیا ۔۔۔ اور پھر تو اسی طرح کی ہلکی پھلکی صحت مند غذائیں صبح بعد فجر اور مغرب کی نماز سے پہلے ملتیں ۔۔۔۔  مغرب  کے بعد چائے ہلکی چینی لیکن زبردست ۔ دن تیزی سے گزرنے لگے عدینہ کے بقول اس کے امی سے بات  ہی نہ کر پائی کہ اتنا اچھا چلتا کاروبار اور یہ ’’غریبوں والا‘‘ مینو کیوں؟ ۔۔۔

 رمضان شروع ہوگیا۔۔۔۔ عدینہ نے سوچا رمضان میں سحر، افطار تگڑا ہوگا ۔۔۔ اس نے ارسلان کے ساتھ بھی بات  کی اس موضوع پر ۔۔۔ ارسلان نے تو اسی کے گھر والوں کو ٹھیک قرار دیا کہ ’’میں تو یہاں آکر پرسکون ہوں ۔۔۔۔ میرا تو اتنے دنوں میں چار کلوتقریباً وزن کم ہوا ہے۔۔۔۔‘‘

’’ہاں خود تو طواف خوب کرتے ہیں، مجھے بھی تو گھسیٹ رہے ہیں ۔۔۔ تین وقت غضب خدا کا پھر کھانا تو دیکھیں!‘‘ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں پہلے دن کے اور اب کے طواف میں فرق محسوس ہوا؟‘‘ عدینے کے سر اثبات میں ہلانے پر آگے مزید سوال کیا۔ ’’بھابی تمہیں پھلکے کم دیتی ہیں یا سالن کم یا پھرد ہی نہیں ہوتا ۔۔۔۔ یافروٹ میں کوئی کمی ،، سلاد کم پڑ جاتا ہے؟‘‘

’’نہیں ۔۔۔۔ مگر یہ چیزیں زیادہ نہیں کھائی جاتیں، خصوصاً دودھ تو اتنا خالص ہے کہ وہ پی لو تو پانچ چھ گھنٹے کھانے کی طلب ہی نہیں ہوتی  ، سلاد اور یہ چیزیں مناسب  مقدار ہی کافی  ہوتی ہے!‘‘

’’بس یہی تو ہے یہاں ہم زندہ رہنے، زندگی گزارنے اعمال کی طاقت حاصل کرنے کے لیے کھا رہے ہیں، وہاں اپنے گھر میں لذیذ سے لذیذ تر تیل میں تر بتر چیزیں کھانے کے لیے زندہ تھے ۔۔۔۔‘‘ ارسلان نے اسے دیکھا جسے اب تک یہ نہیں پتا چل پایا تھا کہ اس کا وزن بھی کم ہورہا ہے ۔۔۔۔ ارسلان کا اس کے انتہائی بڑھتے وزن پھر خود سے لاپروا ہوتے رہنا ،نہ کوئی کپڑا اس پر جچنے لگا تھا نہ جوتا، بلکہ اب تو سائز کے  بھی مسائل آنے لگے تھے۔ اور ارسلان اس بات سے پریشان تھا، سمجھا سمجھا کر تھکنے کے بعد دوسری شادی پر غور کررہا تھا ۔۔۔ میاں بیوی کا رشتہ صرف نان نفقے تک نہیں، بلکہ ظاہر سے بھی ہے، ظاہر بھی صاف ستھرا اورپُرکشش جاذب نظر ہو کہ فریقین کا دل کسی اور طرف آئے ہی ناں ۔۔۔۔ مگر ہمارا معاشرہ الٹ چل پڑا ہے!!!

٭٭٭

آج شام عدینہ کو اعتکاف میں بیٹھ جانا تھا، اس کے لیے بھی امی ابو، ارسلان، بھابی بھیا سب پیچھے پڑے تھے ۔۔۔ عدینہ کو مسجد میں عورتوں کی طرف بیٹھنا تھا جبکہ ارسلان اور ابو بھی بیٹھ رہے تھے ۔۔۔۔

’’بھابی یار مجھے بات تو کرنے دیں پاکستان!‘‘

’’بالکل نہیں  ان شاء اللہ اعتکاف سے  اٹھ کر ہی!‘‘ عدینہ نے انہیں گھورا۔ جواباً مزینہ بھابی نے اسے منہ بنا کر چڑایا۔

’’اچھا امی مجھے ایک شکایت ہے آپ لوگوں سے، پانچ سال بعد ملی آپ سے، آپ نے ’’مریضوں والا‘‘ کھانا کھلا کر مجھے کمزور کردیا!‘‘ عدینہ نے اوپر اوپر سے آخر اُگل ہی دیا، ورنہ اپنا وزن کم ہونے اور طواف کی تعداد بڑھنے نے اسے سکون دیا تھا ۔۔۔ اندر وہ قائل ہوگئی تھی کہ زندگی ہی ہے اس طرح سے۔۔۔۔ مگر ہائے وہ حسرت !!!

’’تم بھی تو جب آئی تھیں خوب موٹے غبارے کی طرح پھولی ہوئی خاتو ن تھیں، جس میں میری وہ پیاری سی عدینہ گم ہوگئی تھی۔۔۔‘‘ امی نے اسے چپت لگائی۔ ’’ویسے یہ کایا پلٹ ہوئی کیسے! ورنہ مجھے پتا ہے کہ چٹورے تو آپ سب بھی تھے ۔۔۔ یہاں آنے کے بعد ایسا کیا ہوا؟‘‘

’’بہت پہلے کیا جانے والا سوال اب کررہی ہو۔۔۔۔ تمہارے بھیا کے جوانی میں دل کے ایک والو کا بند ہوجانا ۔۔۔ اماں ابا ۔۔۔ کا عمرہ حج نہ کرنا پانا ۔۔۔ پھر شوگر، بی پی ۔۔۔ میرا اپنا بڑھتا وزن اور شوگر کے مرض کے قریب پہنچنا ان سب نے مجھے میدان میں اتروایا۔۔۔۔ ڈیڑھ سال لگے سب نارمل ہوا ۔ ۔۔۔ میرا وزن تو ابتدا ہی میں کم ہونا شروع ہوا۔۔۔۔ عظیم کا بھی مگر امی ابو کو کچھ وقت لگا ۔۔۔ باقی بیماریاں بھی آہستہ آہستہ مگر اس صحت مندانہ طرز زندگی سے قابو میں آگئیں ۔۔۔۔ یہاں آنے کے تین سال بعد امی ابو خود چل کر عمرہ اور اپنے ہی پیروں پر چل کر اکیلے حج کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ الحمد للہ رب العالمین ورنہ پہلا حج ویل چیئر پر کروایا تھا پیسے دے کر اور عمرہ بھی! ۔۔۔۔۔  اور میرا اور عظیم کا پہلا حج بھی بس اللہ  اللہ تے خیرسلا کرکے ہوا تھا ۔۔۔ بیماری تھکن کے برکات سمٹنے ہی ناں دی ذرا چلتے سانس پھول جاتی ۔۔۔!

یہ المیہ بن گیا کہ ہم مسلمان اب کھانے کے لیے ہی زندہ ہیں بس ۔۔۔۔ پورا سال تو سال رمضان جیسے مہینے کی روح اب بس کھانا پکانا کھانا کھلانا ڈاٹ کام رہ گیا ہے!!‘‘ بھابھی نے گہرا سانس لیا ۔۔۔ عدینہ دل سے متفق تھی ۔۔۔۔۔

٭٭٭

’’بھابھی یہ چیٹنگ ہے۔‘‘ بالکل نہیں فون پر آڈیو بات کرو ۔۔۔ ویڈیو کال حج بعد ۔۔۔‘‘

’’ٓآخر عدینہ  بات کرنے میں مگن ہوگئی۔

’’بھابی ویڈیو کال پر کیوں نہیں آتیں آپ!‘‘

’’چندا تمہارے بھائی اور میرے بھائی بھابی نے حج کے بعد تک ویڈیو کال سے منع کرکے و عدہ لے لیا ہے پکا والا!‘‘ ویسے بھابی آپ کی آواز شادی کے شروع میں جو انتہائی پیاری تھی ا ابھی کچھ کچھ ویسی لگ رہی ہے ۔۔۔۔۔ آخر آپ کیا کرررہی ہیں جو بھیا شکل نہیں دیکھنے دے رہے اور آواز بھی پیاری ہوتی جارہی ہے، کہیں سرجری ورجری تو نہیں ۔۔۔‘‘

’’ارے توبہ کرو در عدن ۔۔۔۔ اللہ بچائے ایسی حرکتوں سے ۔۔۔ بس تم دیکھتی جاؤ ۔۔۔۔!‘‘

حج کی عافیت سلامتی سے تکمیل کے بعد تبوک، جدہ ریاض مدینہ منورہ اور دوسرے مقامات کی سیر خوب سیر ہو کر کرنے میں عدینہ ارسلان اور بچوں کا صفر کا مہینہ بھی گزر گیا ۔۔۔ اب در عدن سمیت باقی گھر کی خواتین عدینہ سے ناراض ہوچلی تھیں آخر عدینہ نے دیدار کروا ہی دیا ۔۔۔۔

’’پہلے تو سب کی ۔۔۔۔ مشترکہ چیخ ۔۔۔۔ اتنا کم وزن بھابی ۔۔۔ مگر آپ کمزور تو نہیں لگ رہیں ۔۔۔۔ کیسے ہوا یہ سب؟ کیا کرتی ہو؟ کیسے کسی دوا کا جادو؟‘‘ وغیرہ وغیرہ ساس نے اپنی در عدن کو دیکھا عدینہ ٹین ایج میں داخل ہوگئے بیٹوں کی ماں ہو کر بھی اب در عدن سے کم عمر اور پیاری دکھ رہی تھی ۔۔۔۔ جب کہ بیٹی کا وزن انتہائی زیادہ نہیں تو عمر کے حساب سے زیادہ تھا، ٹھوڑی کے نیچے گوشت گردن اور چہرے کے نقش بھی دب رہے تھے ۔۔۔۔ وہ تو عدینہ سے مکمل تفصیل سب سے معلوم کرکے عزم کرکے اٹھیں اور سیدھی کچن کی راہ لی ۔۔۔۔ ارے بھئی کچن کو درست کرنے اور کس لیے ۔۔۔۔

’’اچھا در عدن امی کو بتاؤ کہ ۔۔ارسلان نے میرے بھیا کے ساتھ کاروبار کی جو سیٹنگ بنائی تھی الحمد للہ مکمل ہوگئی ہے ۔۔۔ ہمارے کاروبار کی ایک برانچ یہاں بھی شروع ہونے والی ہے ۔۔۔ بہت جلد تم سب یہاں عمرہ کرنے آؤ گے!‘‘

’’سچ بھابی ۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بالکل۔‘‘

پھر یوں ہوا کہ اگلا رمضان عدینہ کے سسرال کا بڑا بابرکت صحت مند گزرا ۔۔۔ عدینہ بھی نہیں آئی اخیرکے روزوں میں ۔۔۔۔

۔۔۔۔

تو اب بتائیں آپ کو خواب لگا یہ قصہ ۔۔۔۔ چلیں خواب ہی سہی مگر آپ سے کہنا ہے جیسے عدینہ کی ساس نے اسے تعبیر کرکے دیکھا اس سے قبل جیسے مزینہ بھابی نے ہمت کی ۔۔۔  میں اور آپ بھی اس خواب کو ’’چلو تعبیر کرکے دیکھتے ہیں!‘‘