ماہم کرن
"کیا ہوا ؟"
"کچھ نہیں ؟"
"کچھ نہیں تو پھر ایسے منہ کیوں اُترا ہوا ہے ؟"
"نہیں کچھ نہیں ہوا؟" اُداس مسکراہٹ چہرے پر سجائے گویا ہوئی۔
"! ہممم اچھا "
"شادی کب ہے ؟"
"اگلے ماہ کی 20 تاریخ کو ہے ۔اور سنو کان کھول کر!" .
"تم نے لازمی آنا ہے ۔ آخر کار میری اکلوتی بیسٹ فرینڈ ہو"
خوشی اُس کی آواز سے جھلک رہی تھی
"ہاں آؤں گی"
"آؤں گی نہیں ! لازمی آنا ہے ۔"
"اچھا !میں چلتی ہیں بہت ساری شاپنگ کرنی ہے ۔"
"اللہ حافظ "
"اللہ حافظ "
اب وہ اسے دور جاتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔سر جھٹک کر اب اس نے پھر سے اپنے سامنے رکھی کتاب پڑھنا پھر سے شروع کر دی۔۔۔۔
٭٭٭٭
"تم میری آنکھوں کا نور ہو "
" اچھا"
" ہاں نہ تمہیں یہ آنکھیں نہ دیکھیں تو بے چین سی رہتی ہیں" ۔
وہ اُسے اسے دیکھ رہی تھی جيسے وہ کوئی جادوئی چیز ہو اگر وہ پلکیں بھی جھپکے گی تو وہ
اچانک سے غائب ہو جائے گا ۔
٭٭٭٭
"وہ دیکھو"
"کہاں ؟"
"ارے پاگل! وہاں آسمان پر"
"اچھا دیکھ رہی ہوں اب "
"اب وہ دیکھو "
"اُس نے آسمان میں ایک ستارے کی طرف اشارہ کیا '
"وہ میں ہوں "
"ہممم اچھا جی" بڑی مشکل سے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔
"ہاں نا سنو تو ذرا"
وہ ناراض ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا "اب وہ اُسی ستارے کے ساتھ والے ستارے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا
"وہ تم ہو "
وہ اُس کی بات پر کھلکھلا اٹھی
اور وہ اُسے دیکھ کے مسکرانے لگا
"ویسے تمھیں کیوں لگتا ہے یہ ستارے ہم دونوں ہیں؟ "
سوال کیا گیا ۔
"کیوں کے یہ ستارے ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں ".
جواب دیا گیا
اب وہ دونوں اُن ستاروں کو دیکھنے لگے ۔۔۔
٭٭٭٭
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اب اپنے کانوں میں جھمکے پہن رھی تھی۔ اور کہیں دور ریڈیو میں گانا لگا ہوا تھا ۔( لائیں لائیں میں تیرے نال )
ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں پہنتے ہوئے جب اُس کی نظر آئینے میں اپنا عکس پر پڑی تو کچھ تھا جو دل میں چبھا تھا
تم پر یہ سُرخ رنگ بہت جچتا ہے۔ ایسے ہی تیار کیوں نہیں ہوتی ہو ۔
"ہا ہا ہا اچھا "
اب یہ ہنسنے والی بات کیا ہے
اچھا نہ اب ایسے ہی تیار ہوا ہی کروں گی ۔اب منہ صحیح کرلو
"ڈولنرا ایک دل سے ریا میرے کول نہ ہائے میں لوٹی گئیں " گیتگار نے آگے کا مصرع گایا ۔۔
وہ سر جھٹک کر پھر سے اپنی تیاری میں مصروف ہو گئی ۔۔۔
اور گانے کی آواز کہیں پیچھے ہی رہ گئی
٭٭٭
میں نے کہا تھا نا جو میرا ہے و میرا ہی رہے گا" طنز سے کہہ کر وہ ہنسی ۔
"سوہا ایسا کیا کرنے والی ہو تم " سارہ نے سوہا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
" سینڈ " فون پر کچھ تصاویر سینڈ کرتے ہوئے بولی ۔
"Now wait and watch "
٭٭٭٭
"نور وہ کون تھا ؟" وہ غصے میں لگ رہا تھا
"کون ؟ "
"نور میں نے پوچھا تمھارا اس سے کیا تعلق ہے !!!" اب کی بار اُس نے نور کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا
"کس کی بات کر رہے ہو" ۔ نور نے بےیقینی سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
"اوہ اتنی جلدی بھول گئیں اپنے پرانے عاشق کو" .
اب کی بار وہ ہنسا تھا اور اس کی ہنسی میں کچھ ایسا تھا جس نے نور کو اندر سے ہلا دیا تھا۔۔
"ي ي یہ کیا کہہ رہی ہو ! "نور نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا ۔
اب وہ دونوں یونیورسٹی کی آڈیٹوریم میں موجود تمام افراد کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے ۔
٭٭٭
وہ مہرون عروسی لباس میں ملبوس دلہن بنی اسٹیج پر بیٹھی سب سے حسین لگ رہی تھی۔
ہال میں موجود تمام افراد اُسی کی ہی باتیں کر رہے تھے ۔
وہ آج سُرخ لانگ فراک میں گولڈن جیولری پہنے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی ۔کھلے بال اس کے حسن کو اور بھی چار چاند لگا رہے تھے ۔
جیسے ہی دونوں کی نظریں ملیں وہ فوراً اسے دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
"بہت جلدی آئی ہو تم" ۔
"اوہ مجھے پتا نہیں تھا میں جلدی آگئی اوہو!!" ۔ وہ اُسے دیکھ کر معصومانہ سا منہ بنا کر کہہ رہی تھی۔
"اب یہ اداکاری مت کرو" ۔ وہ ابھی بھی اس سے ناراض تھی ۔
"اچھا ناسوری". وہ ایک ہاتھ سے کان پکڑ کر کہہ رہی تھی ۔
"جا تُجھے معاف کیا "۔ ایک ادا سے کہا
"ویسے نور بی بی لگ بہت پیاری رہی ہو ۔"
"اور تم بھی بہت خوبصورت لگ رہی ہو ہماری حسین سی دلہن" ۔نور نے زارا کی بلائیں لیتے ہوئے کہا ۔
اور اب تمام ہال کو یہ سن گن تھی کہ دلہن کون سی والی ہے وہ سُرخ جوڑے والی یا مہرون والی
٭٭٭
جیسے جیسے قاضی صاحب نکاح پڑھا رہے تھے نور کو لگ رہا تھا کہ اُس کا دم گٹھنے لگا تھا ۔
نور میں تم جیسی لڑکی سے کبھی شادی نہیں کر سکتا
"حسن علی ولد احمد علی کیا آپ کو زارا شیخ دختر محمد شیخ اپنے نکاح میں قبول ہے ؟ "
حسن کی نظریں سامنے بت بنی نور پر تھیں جن نظریں میں التجا تھی جیسے کہہ رہیں ہوں نا بول دو ۔
"حسن ! "پیچھے کھڑے بڑھے بھائی نے پکارا ۔
"جی!" اس کے منہ سے صرف یہی نکل پایا ۔
"مولانا صاحب آپ دوبارہ سے کہہ دیں شاید بچے نے سنا نہ ہو "۔ احمد صاحب نے کہا۔
_حسن علی ولد احمد علی کیا آپ کو زارا شیخ دختر محمد شیخ اپنے نکاح میں قبول ہے ؟"
"قبول ہے ! "اس نے خود کو کہتے سنا ۔
٭٭٭٭
یہ ڈھونگ نہ کسی اورکے سامنے کرنا تم محبت کی قسم کسی کے ساتھ اور شادی کسی اور سے واہ کیا کہنے آپ کی
"قبول ہے کے ! "
تم جیسی لڑکی محبت کے لائق ہی نہیں تھی جسے میں نے اتنی محبت دی
تم جیسی لڑکی محبت کی لائق ہی نہیں تھی جیسی میں نے اتنی محبت دی ) نور کو لگا آپ کبھی سانس نہیں لی پائے گی ۔
پورے ہال میں مبارک ہو مبارک ہو کی صدائیں گونجنے لگیں۔
٭٭٭٭
"یہ دیکھو !" حسن نے نور کی طرف اپنا فون کے کی ایک تصویر دکھائی۔
نور کبھی بے یقینی سے حسن کو دیکھتی اور کبھی تصویر کو ۔
تصویر میں نور تھی اور اس کا ساتھ فرحان نے تھام رکھا تھا ۔
نو ر نے اپنی صفائی میں کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ حسن نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا ۔
نور کو لگا سامنے کھڑا شخص وہ نہیں ہے، جیسے وہ جانتی تھی یہ تو کوئی اور ہے ۔
٭٭٭
کیفے میں آج معمول سے زیادہ رش تھا فرحان بھی کافی کا کپ تھامے جلدی میں اپنی جگہ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک اس کی ٹکر کسی سے ہوئی اور کافی کپ سے چھلک کر سامنے والے انسان کے ہاتھوں پر گری۔
اہ سو سوری ۔ فرحان نے پریشان ہوتے ہوئے سامنے والے کو دیکھا جس کا ہاتھ کافی کے گرنے سے بری طرح متاثر تھا ۔فرحان نے نے جلدی سے رومال لیا اور سامنے والے انسان کا ہاتھ صاف کرنے لگا ۔
٭٭٭٭
سب صحیح کہتے تھے تمھارے بارے میں جیسی ماں ويسی بیٹی
تھپڑ کی گونج ساری یونيورسٹی میں گونجی تھی ۔
"اب بس مسٹر حسن اب بس ماں پر مت جانا "۔ وہ جانے کی لیے مڑی ۔
اب ان کی منزل اک دوسرے سے جدا تھیں ۔