(پہلا باب زخرف)
جی عکاش، عکرمہ اور حذیفہ کی مما۔ اب سو جائیں کیونکہ آپ کو بیشک صبح کہیں نہیں جانا پر مجھے اپنی سیکنڈ وائف کے پاس جانا ہے۔ اس لئے چلیں اب بستر کی طرف۔" اس نے اس کی گود سے کتاب لے کر میز پر رکھی۔
مسفرہ سحر کراچی
ساتویں قسط
آج کی رات بھی ہر رات کی طرح اس کمرے کا وہی منظر ہے۔ جائے نماز بچھی ہوئی ہے اور اس پر آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دعا و فریاد کرتا لرزتا ہوا وجود۔ ہر رات وہ اپنے ان گناہوں کی معافی مانگتا ہے جو ماضی قریب میں اس کی ذات کا حصہ بنے رہے ۔ معافی اور دعاؤں کا یہ سلسلہ بچھلے دو سال سے چل رہا ہے مگر اسے نہ قلبی سکون ہے نہ ذہنی۔
دنیا پر جب رات کا سکوت چھا جاتا ہے ،عین اسی وقت اس کا اندرونی خلفشار اور اضطراب اسے بستر سے اٹھا کر جائے نماز تک لے آتا ہے۔ پھر وہ اپنے خدا سے مغفرت اور سکون کا طالب ہو کر زار و قطار رو پڑتا ہے۔ اور ہر رات چلنے والا یہ سلسلہ پھر نماز فجر پڑھ کر ہی ختم ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
وہ کمپیوٹر پر نظم لگائے ایڈیٹس بنانے میں مصروف تھی، جب اس کے موبائل نے وائبریٹ کیا اس نے جلدی سے ماؤس چھوڑ کر موبائل اٹھایا۔ میسنجر نوٹیفیکیشن تھی۔ آن کیا تو دیکھا افنان کا میسج ہے مسکراتے لبوں سے اسے جواب دینے لگی۔
"کیا کررہی تھیں آپ؟ "
"ایڈیٹنگ کررہی تھی۔"
"اوہ سوری میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا۔"
"نہیں نہیں آپ کیجیےبات میں یہ بعد میں کر لوں گی۔“
"آپ اپنے بارے میں بتائیں نا کچھ مومل۔"
اب وہ اسے اپنے بھائی ماما بابا اور اپنی پڑھائی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس نے افنان سے پوچھا تو بس افنان نے یہی بتایا کہ امی ابو اور ایک بہن ہے بس۔ باتوں کے دوران افنان نے ڈی پی چینج کی اور اپنی ایک بہت جاذب نظر تصویر لگائی۔
وہ پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ آپ کی اپنی تصویر ہے لیکن ہمت نہ کر سکی وہ باتوں میں مگن تھے لیکن مومل تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کی ڈی پی کھولتی جہاں اب لوگوں کے تعریفی تبصرے آ رہے تھے یوں اسے پتا بھی چل گیا کہ یہ افنان کی اپنی تصویر ہے۔ وہ کتنے ہی لمحے بے خودی کے عالم میں اس تصویر کو دیکھتی رہی اس کی دھڑکنوں نے نا ہموار ہونا شروع کیا اور اسے لگا اس تصویر کے ذریعے وہ تصویر میں نظر آنے والے مرد پر اپنا دل ہار بیٹھی ہو۔ افنان کے میسج آ رہے تھے لیکن اب وہ اس کی پروفائل سے اس کی پچھلی ساری تصاویر دیکھ رہی تھی۔ ایک ایک تصویر اس کی وجاہت کا ثبوت تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اللّٰہ نے اسے بہت خوبصورتی سے نوازا تھا۔کہیں وہ مسکراتا ایک پاؤں دیوار سے ٹکائے کھڑا تھا تو کہیں صرف سائیڈ پوز۔ کہیں ٹانگ کو ٹانگ پر چڑھائے بیٹھا تھا تو کہیں کوک کین ہاتھوں میں لئے بیٹھا تھا۔ کہیں دوستوں کے ساتھ تھا تو کہیں کمرے میں شیشے کے سامنے۔ لیکن ہر تصویر جہاں اس کی خود کی وجاہت کو عیاں کر رہی تھی وہیں اس کا قیمتی لباس جوتوں کا اعلی برینڈ اور ہاتھوں میں چمکتے ڈائل کی برینڈڈ گھڑی بھی اس کی وجاہت کو بڑھا رہے تھے۔
ایک لڑکی کو سہانے خواب پروان چڑھانے کے لئے اور کس پرکشش چیز کا ہونا چاہئے۔ وہ ہر ہر چیز جس سے ایک صنف نازک محبت کے بھنور میں جا پھنستی ہے سب یہاں موجود تھا۔ وہ کتنی دیر سے ایک ہی پوزیشن پر بیٹھی بس اس کی تصاویر دیکھتی جا رہی تھی۔ نہ کمپیوٹر پر نظم ختم ہو جانے کا احساس ہوا تھا نہ میسنجر نوٹیفیکیشن کا بس سامنے نظروں کے کچھ تھا تو صنف مخالف کے حسن کا چڑھتا نشہ۔
٭٭٭٭
سر حسین کی پر خلوص محبت اور محنت سے تھرڈ ایئر الحمد للّٰہ کہنا سیکھ گئی تھی۔ شکر گزاری بے شک انہوں نے ابھی پوری طرح نہ سیکھی ہو لیکن ابھی کے لئے یہی بہت تھا کہ لفظ تشکر ان کے لبوں پر تو آیا تھا۔ صرف الحمدللہ کہنا ہی نہیں بلکہ سر حسین نے انہیں دین کی چھوٹی چھوٹی باتیں یوں ہی پڑھائی کے دوران سکھا دی تھیں۔ کسی کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا تو اس پر ایک لمبی اور پیار بھری وضاحت، کوئی ایک دوسرے کو تمیز سے مخاطب نہیں کر رہا تو پھر ایک لمبی مگر پر خلوص وضاحت یوں کلاس نہ صرف ان سے مثبت طور طریقے سیکھ رہی تھی بلکہ ہر نئے دن کے ساتھ اسٹوڈنٹس کے دلوں میں ان کی محبت مزید سے مزید تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔
عتبہ نے اس کے بعد سے ذاتی نوعیت کا کوئی سوال نہیں کیا تھا لیکن اس نے خود سے عہد کیا تھا کہ سر حسین کے ذریعے بھولا ہوا ایک ایک سبق پھر سے یاد کرے گی۔ وہ انہیں بہت غور سے سنتی، ان کی باتیں نوٹ کرتی اسے گھر جاکر اسی ڈائری میں لکھتی جس میں وہ مرحا کی باتیں لکھا کرتی تھی۔ صبح یونی میں ہونے والی باتوں کو سوچتی اور پھر صرف سر حسین کو سوچتی چلی جاتی۔ اسے لگتا وہ جو بھی سکھاتے یا پڑھاتے ہیں اس کے لئے ہوتا ہے وہ ان کی باتیں سوچتی، انہیں سوچتی اور مسکرا دیتی۔ اس کا دل چاہتا انہیں بتائے کہ وہ ان کی وجہ سے اتنے سالوں بعد مسکرا اٹھی ہے۔ اس کا دل چاہتا اکیلے بیٹھ کر ان سے بہت ساری باتیں کرے انہیں اپنے بیتے ایام کی تلخیاں بتائے اور ان کے لفظوں کے مرحم ان خون رستی جگہوں پر لگائے جہاں سے رات کی تنہائی میں آج بھی خون رستا ہے۔ تقریبا ایک ماہ ہو گیا تھا سر حسین کی کلاسز کو۔ اس دوران کئی بار سر حسین نے اسے نام سے مخاطب بھی کیا ہر بار وہ ان کے نام پکارنے پر چونک جاتی کیونکہ اس سے پہلے وہ انہیں دیکھنے سوچنے میں محو ہوتی۔ اس ایک ماہ میں کئی بار اس کے ذہن میں ایک سوال بھی آیا وہ کیوں انہیں اس قدر سوچ رہی ہے؟ جواب جو دل دیتا وہ اسے چپ کرا دیتی اور خود کو خود سے جواب دیتی کہ وہ اور ان کی باتیں اسے دین کے دوبارہ قریب لائی ہیں اسی لئے وہ انہیں اس قدر سوچتی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک تھا کہ واقعی عتبہ نے دوبارہ خشوع و خضوع کے ساتھ دل جمعی سے نماز شروع کر دی تھی ہر نماز کے بعد مرحا کی سلامتی اور اس کے واپس آ جانے کی دعاؤں میں اب دوبارہ شدت آگئی تھی۔ وہ بدل رہی تھی کسی کا مل جانا اسے بدل رہا تھا لیکن یہاں اس کا دل اپنی زندگی کی سب سے بڑی خطا کرنے جا رہا تھا اس کا دل چاہتا تو سر حسین کی صرف ایک استاد کی حیثیت سے عزت کر سکتا تھا لیکن دل باغی ہو گیا اور وہ راہ چن لی جو پر خطر تھی، پر آزمائش تھی۔
٭٭٭
وہ دونوں ہی محبت کا امرت پی چکی تھیں ۔ دونوں کی زندگی میں آنے والے واحد نا محرم مردوں نے ان دونوں کا دل چرا لیا تھا۔ محبت ایک ایسا فطری عمل ہے جو خود ہوتی ہے اسے کیا نہیں جاتا۔ کہیں بھی، کبھی بھی، کسی سے بھی ہوجاتی ہے۔ کبھی اپنے استاذ سے تو کبھی فیس بک پر ملنے والے انجان سے۔ محبت کا ہو جانا اور اسے اپنے رب سے مانگا کر اس کے حصول کے لئے جائز کوششیں کرنا نہ حرام ہے نہ منع لیکن محبت کی لذت کو قبل از نکاح چکھ لینے کے لئے اس انسان سے رات رات بھر بیٹھ کر باتیں کرنا حرام بھی اور گناہ بھی۔
ایک کو اس کی محبت دین سے قریب کر رہی تھی کیونکہ اس نے ابھی تک کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا تھا لیکن دوسری بہک گئی تھی بھٹک گئی تھی۔
٭٭٭
وہ کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی تو عابر کو ہنوز لیپ ٹاپ میں مگن پایا۔ اس کے پاس آ کر اس کے ہاتھوں سے لیپ ٹاپ لیا اور پاس ہی بیٹھ گئی۔
" عابر آپ گھر آتے ہی کیوں ہیں؟" ماتھے پر شکنیں ڈال کر سوال کیا گیا۔
"ہائیں کیا مطلب بندہ اپنے گھر نہیں جائے گا تو پھر کہاں جائے گا۔ " حیران ہونے کی فل اداکاری کی گئی۔
"آپ پورے دن کے بعد آتے ہیں پھر گھر آ کر بھی سیکنڈ وائف کی ہی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں تو کیا فائدہ گھر آنے کا۔" شکووؤں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور پھر اس کے شکوے سننے والا بھلا عابر کے سوا اور تھا بھی کون۔
"اصل میں اچھی لگتی ہے نا مجھے اپنی سیکنڈ وائف اسی لئے۔“ وہ مسکرا کر اسے تنگ کررہا تھا ۔
" عابر "
"مرحا"
" اچھا میری بات سنیں ناں۔ آج میں محمود احمد غضنفر کی جرنیل صحابہ پڑھ رہی تھی۔ آپ کو پتا تو ہے کہ وہ میں پہلے پڑھ چکی ہوں لیکن آج میں اسے صحابہ کرام کے ناموں کا انتخاب کرنے کے لیے پڑھ رہی تھی۔ ہم اپنے بچے کا نام ان شاءاللہ بہت اچھا رکھیں گے کسی نبی یا صحابی کے نام پر۔ آپ جانتے ہیں ناں نام کا شخصیت پر کتنا اثر پڑتا ہے اسی لئے۔ اور میں چاہتی ہوں ہمارے بچے میں ہر وہ اچھی کوالٹی ہو جو کسی بھی نبی یا صحابی میں موجود تھی۔" وہ بات مکمل کر کے دائیں جانب رکھی کتاب اٹھا لائی تھی۔
" میں آپ کی سوچ سے بالکل متفق ہوں منے کی اماں لیکن مرحا بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے ناں اور آپ تو صرف صحابہ کے نام دیکھ رہی ہیں۔ بیٹی کا رکھنا ہے تو صحابیات کے بارے میں بھی پڑھیں ناں۔“ عابر نے اسے پاس بٹھا کر کتاب دیکھتے ہوئے کہا۔
"بالکل بالکل۔ لیکن اب ساری ذمے داریاں میرے کمزور کاندھوں پر نہ ڈالیں کچھ آپ بھی کر لیں۔ ڈھائی ماہ رہ گئے آپ صحابیات کے ناموں پر غور کیجئے میں صحابہ کے۔ پھر جب رات کو ہم ساتھ ہوں گے تو انہیں ڈسکس کر لیں گے کیوں ٹھیک منے کا ابا؟" آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا۔
" اف یہ منے کا کوئی نام رکھ ہی لو تو اچھا ہے تاکہ یہ منے کے ابا تو ختم ہو۔" عابر نے مصنوعی تیوری چڑھائی۔
مرحا کتاب کھول رہی تھی تاکہ ناموں کے بارے میں بات کر سکے۔ اب وہ ناموں کی فہرست کھول چکی تھی۔ عابر نے دیکھا کہ اس نے چند ناموں کے آگے ستارہ بنایا ہوا تھا ۔
"امممم سب سے پہلے حضرت عکرمہ، کتنا پیارا نام ہے ناں عکرمہ۔ بتائیں عابر۔" اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو عابر کو خود پر نظریں جمائے مسکراتا پایا۔
" عکرمہ ۔بہت پیارا نام ہے اور سب سے بڑھ کر حضرت عکرمہ میں پائی جانے والی خصوصیات۔ بعد از قبول اسلام جب جب آپ قرآن پڑھتے تو یہ کہتے کہتے بے ہوش ہو جاتے یہ میرے رب کا کلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے۔ جبکہ حضرت عکرمہ قبول اسلام سے پہلے ایک سخت گیر مشرک تھے ۔ آپ بھاگ بھاگ جانا پسند کرتے تھے لیکن اسلام قبول کرنا نہیں۔ اور پھر دیکھو جب ایمان کی چاشنی چکھی تو اس چاشنی میں ایسے گم ہوئے کہ اللّہ کے کلام کو چھوڑتے ہی نہ تھے۔“ عابر کے لہجے میں صحابہ کرام کی محبت نمایاں تھی۔
"یہی سوچ کے تو اس نام کو بھی پک کیا کہ اگر یہ نام رکھوں گی تو ان شاء اللّٰہ وہ بھی حضرت عکرمہؓ کی طرح قرآن سے محبت کرنے والا ہوگا۔" وہی محبت مرحا کے ایک ایک لفظ میں بھی پنہاں تھی۔
"ان شاءاللہ۔ اچھا باقی اور نام بتائیں جو آپ نے دیکھے۔“ اسے اچھا لگ رہا تھا ہمیشہ کی طرح مرحا کے ساتھ بیٹھ کر اپنے اصحاب کی باتیں کرنا۔
جعفر۔ یہ بھی پیارا ہے نا!! حضرت جعفر بن ابی طالب کے نام پر ۔ آپ کو یاد ہے نا حضرت جعفرؓ کا جھنڈے والا واقعہ ۔ "مرحا نے سوال کیا۔
"ہاں بالکل یاد ہے الحمدللہ لیکن میں چاہوں گا آپ مجھے سناؤ۔ ہم ان کی اس بہادری کا ذکر کریں گے اور ان کے نام کی خیر اپنے بیٹے کا نام رکھ کر اس کے لئے طلب کریں گے۔" عابر کو ہمیشہ سے ہی حضرت جعفر کی وہ بہادری چونکا دیتی تھی وہ حیران ہو جاتے تھے کہ کوئی بشر کیا اس قدر ہمت والا ہو سکتا ہے۔
"تو سنئے، اپنی شہادت سے قبل لڑے جانے والے آخری غزوہ میں جب آپ کو سپہ سالار بنایا گیا۔ آپ آگے بڑھے جھنڈہ دائیں ہاتھ میں لیا اور مقابلہ شروع کیا سامنے کھڑے مشرک نے تلوار کا وار کیا آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔ آپ نے تکلیف کی شدت کے باوجود زخم کی پروا نہ کرتے ہوئے جھنڈا گرنے نہ دیا اور اسے بائیں بازو میں تھام لیا مشرک نے دوبارہ وار کیا اور بایاں بازو بھی جدا کر دیا۔ حضرت جعفرؓ جھنڈے کو گرنے نہیں دینا چاہتے تھے اسے سنبھالنے میں لگے تھے کہ سامنے کھڑے مشرک نے ان کے سر پر وار کیا اور ان کی روح جنت میں پرواز کر گئی۔" مرحا نے ان کی شہادت کا واقعہ مکمل کیا۔
"اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ جنت میں وہ دو پروں کے ساتھ گھومتے پھریں گے کیونکہ ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کی جگہ اللّٰہ انہیں دو پر عنایت فرمائے گا اسی لئے تو حضرت جعفر کو اللہ کے رسول صلی اللّہ علیہ وسلم کی جانب سے ذوالجناحین کا لقب ملا۔"
"ہممم کتنے خوش نصیب ہیں نا وہ دو پروں والے صحابی رسول کہ جن کو اللہ کی طرف سے دنیا میں رضی اللّہ کی بشارت مل گئی اور آخرت میں ملنے والا تحفہ بھی پہلے ہی بتا دیا گیا، دو پر ۔" وہ مسکرا کر کہتے دوبارہ کتاب کی فہرست پر انگلی پھیر رہی تھی ۔
"حضرت حذیفہؓ"
"رازدان رسول۔ کتنی محبت ہوگی نا مرحا اللّٰہ کے رسول کو حضرت حذیفہؓ سے جو آپﷺ نے اتنے صحابہ کو چھوڑ کر اتنے گہرے راز کی بات صرف حضرت حذیفہؓ کو بتائی۔" اس کی نظریں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں گویا تصور کی آنکھ سے حضرت حذیفہؓ کو دیکھ رہی ہو۔
"آپ کی محبت کی بات سو فیصد درست ہے عابر لیکن بات یہاں صرف محبت کی نہیں بلکہ بات یہ بھی ہے کہ اللّٰہ کے رسول نے ان میں وہ صفات دیکھی ہوں گی جو ایک راز رکھنے والے کے پاس ہونی چاہیے۔ یعنی وہ رازوں کی حفاظت کرسکتا ہو اس راز کو فقط اپنے سینے کی زینت بنا سکتا ہو۔ لوگوں کے درمیان فخریہ اس کا استعمال نہ کرنے والا ہو۔ یہ کوالٹی اللّٰہ کے رسولﷺ نے حضرت حذیفہؓ میں پائی ہوگی اسی لئے انہیں اپنا رازدان بنایا۔" مرحا خود بھی تو تخیل میں رازدان رسول کو دیکھ رہی تھی۔
"میں بھی رازوں کی حفاظت کر سکتا ہوں مرحا آپ مجھے اپنا رازدان بنا لو۔" سرگوشی میں کہا گیا۔ مرحا جو اگلا نام بتانے کے لئے کتاب پر نظریں جھکا گئی تھی اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھنے لگی۔
"میری زندگی تو کھلی کتاب کی طرح آپ کے سامنے ہے عابر اب اس میں کوئی راز ہے ہی کب جو آپ کو بتاؤں۔ آپ تو میری زندگی کی پرت در پرت سے واقف ہیں عابر۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتی گویا ہوئی۔
"اب بھی انہیں یاد کرتی ہو۔" وہ اکثر ہی اس سے یہ سوال کر لیتا تھا۔
"بھولی ہی کب ہوں عابر جو یاد کروں گی۔ وہ تو ہر وقت خیال بن کر میرے ساتھ رہتے ہیں۔“ آنکھیں نم ہونے لگیں۔
"اچھا چلو اگلا نام بتاؤ اگلا کون سے جرنیل صحابی کا نام دیکھا ہے مستقبل کی مما نے۔" وہ بیشتر اوقات اچانک سے وہ ذکر کر جاتا تھا لیکن پھر مرحا کی کیفیت دیکھ کر فورا بات کو بدل دیتا ۔ وہ اسے دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
جی آخری ہے حضرت عکاشہ بن محصنؓ۔ یعنی نام عکاشہ یہ بھی کتنا پیارا ہے ناں۔ شارٹ فارم بھی کر سکتے اس کی عکاش۔ یہ وہ صحابی رسول ہیں جن کو غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار کے ٹوٹ جانے پر ایک کھجور کی چھڑی تھما دی تھی اور وہ حضرت عکاشہؓ کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار کی مانند دشمن کا صفایا کرتی گئی۔“ وہ اب کتاب بند کر رہی تھی۔
"ہممم اور یہی وہ صحابی رسول ہیں جن کو آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے ان ستر ہزار لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے باقی سب پر سبقت لے جانے کی بشارت دی تھی جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے۔" وہ دلکشی سے مسکرایا۔
"ہممم کتنے خوبصورت کلمات کہے تھے نا اللّہ کے رسول نے کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گیا۔" سبقت کی بشارت حضرت عکاشہؓ کو ملی تھی اور خوشی ان دونوں کو یوں تھی جیسے انہیں ملی ہو۔ صحابی رسولﷺ سے محبت کی علامت ہے ان کی بشارتوں پر خوش ہونا۔
"جی عکاش، عکرمہ اور حذیفہ کی مما۔ اب سو جائیں کیونکہ آپ کو بیشک صبح کہیں نہیں جانا پر مجھے اپنی سیکنڈ وائف کے پاس جانا ہے۔ اس لئے چلیں اب بستر کی طرف۔" اس نے ا س کی گود سے کتاب لے کر میز پر رکھی۔ اس کا ہاتھ تھاما اور مسہری تک لے آیا۔ پھر خود لائٹ بند کرنے واپس مڑ گیا۔
"یہ آپ نے مجھے اتنے سارے ناموں کی مما کیوں کہا بھئی۔ فی الحال ایک ہی ہے تو ایک ہی نام رکھنا ہے ناں۔" وہ مسہری پر اپنی مخصوص جگہ پر آ کر بیٹھتے ہوئے بولی۔
"کیونکہ جب تک کوئی نام سلیکٹ نہیں ہو جاتا منے کی مما کہنے سے بہتر میں آپ کو سارے ناموں سے پکار لوں منے کی اماں۔" اسے چھیڑ کر لائٹ بند کرتا وہ بھی واپس مسہری پر آ گیا تھا۔
(جاری )