اے بنت حوا! ہے کوئی؟ جو اپنے سر اور سینے کو اپنی خوشی سے رضائے الٰہی جان کر اجر و ثواب کی نیت و شوق سے ڈھانپ لے۔ قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر عمل کروانے کے لیے آپ کو زبردستی اس راہ پر لے آئیں؟ کہ پھر یہ مجبوری بن جائے اور کف افسوس ملنا پڑے
مہوش کرن
بہت سالوں پہلے ایک دن پتا چلا کہ بنتِ حوّا کو وہ جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے، جس کا صرف نام سن کر بھی کسی عورت کی جان نکل جاتی ہے۔۔ رپورٹس میں صاف صاف لکھا تھا اور تقدیر کا لکھا کوئی ٹال نہیں سکتا تھا۔
اب سوال بنتا تھا کہ اس جوانی کی عمر میں چھوٹے بچوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ مگر حل ایک ہی تھا۔ جان بچانے کے لیے اُسے تکلیف دہ آپریشن سے گزرنا پڑا، جس نے اُس کا نسوانی وقار چھین لیا اور پھر کیموتھراپی کا تکلیف دہ عمل شروع ہوا، جو نہ صرف اُس کی ملائم چمکتی جلد بلکہ سب سے بڑھ کر اُس کے گھنے اور کالے سیاہ بال بھی لے گیا۔
سبحان اللٰہ! بس ایک اللٰہ تعالٰی ہی ہر برائی سے پاک ہیں اور ایک وہی الہٰ ہیں جنہیں کسی علاج کی ضرورت نہیں۔۔۔ البتہ ہم انسان ہیں، گنہگار ہیں اور ہمیں آزمائشوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم توبہ سے علاج کر کے پاکیزہ ہو سکیں۔ البتہ یہ آزمائش صرف اُس بنتِ حوّا کی ہی نہیں بلکہ اُن سب کے لیے اور بھی زیادہ تھی جو اُس کے اِرد گِرد تھے۔
اور اُن ہی میں سے ایک وہ بھی تھی۔ روز وہ یہی سوچتی رہتی کہ اگر اُس کی جگہ میں ہوتی تو، اگر مجھے اِن شدید جسمانی تکالیف سے گزرنا پڑتا، مجھے کیموتھراپی کے اثرات برداشت کرنے پڑتے تو،
میں کس طرح یہ سب جھیل پاتی۔؟
کہ میں اب خوبصورت نہیں لگ پاؤں گی، اپنے بال نہیں بنا سکوں گی،یہاں تک کہ قے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ سے ڈسٹ بن بھی قریب نہیں کر پاؤں گی۔
بہت لمبے عرصے تک اپنی پسند کا کھانا بھی نہیں کھا سکوں گی کیونکہ مجھے زبان پر ذائقہ محسوس نہیں ہوگا. اپنے بچوں کی دیکھ بھال خود نہیں کر سکوں گی، اُن کی پڑھائی اور سرگرمیوں پر توجہ نہیں دے سکوں گی، اُن کے ہنسی مذاق میں شامل نہیں ہو سکوں گی۔ خدانخواستہ اگر میں اس کی جگہ ہوئی تو اپنے گھر کا انتظام کیسے چلاؤں گی۔؟ جبکہ میں خود ایسے حال میں پڑی ہوں گی کہ کوئی میرا دھیان رکھ رہا ہوگا۔
اور پھر ایک خیال بم کی طرح اس کے سر پر پھٹا کہ پھر تو مجھے اپنا سر بھی ڈھانپنا ہوگا کیونکہ کیموتھراپی کے بعد تو سَر پر ایک بھی بال نہیں بچے گا ۔۔۔
نہیں! نہیں! یہ میں نہیں ہوں۔
ہاں، ابھی نہیں ہوں تو کیا کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔؟؟؟
یہ سوال بہت طویل عرصے تک اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنا رہا۔
لیکن اس سوال نے اس بنت حوا کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جس پر چل کر اس نے وہ سب سیکھا جو وہ نہیں جانتی تھی اور اس کو زندگی پر لاگو کرنے کی سوچ پیدا ہوئی، جو عزم بن کر اُبھری۔
سیکھنے کے بعد اس کا پہلا قدم سَر ڈھانپنا ہی تھا اور یقیناً بہت کٹھن تھا۔ یہاں تک کہ اتنے سال گزرنے کے بعد آج بھی ہے کیونکہ اُس لمحے کی وہ آگہی صرف چند افراد کے لیے تھی سب کے لیے نہیں۔
بے شک ہدایت صرف ان کو ملتی ہے جو سچے دل سے اس کی طلب کرتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت کے راستے پر چلنے کی کوشش میں ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے رہتے ہیں، کتنی بار بھی گریں ہمت نہیں ہارتے بلکہ ہر بار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
اے ابنِ آدم! ہے کوئی؟ جو اپنے گھر کے گوہر و نایاب اور موتیوں کو سیپ میں رہنے کی نصیحت کرے۔ اِس سے پہلے کہ یہ اُن کی مجبوری بن جائے اور کوئی دوسرا راستہ نہ بچے ۔۔۔
اے بنت حوا! ہے کوئی؟ جو اپنے سر اور سینے کو اپنی خوشی سے رضائے الٰہی جان کر اجر و ثواب کی نیت و شوق سے ڈھانپ لے۔ قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم پر عمل کروانے کے لیے آپ کو زبردستی اس راہ پر لے آئیں؟ کہ پھر یہ مجبوری بن جائے اور کف افسوس ملنا پڑے ۔۔۔
کف افسوس ملنے سے بھلا اب فائدہ کیا ہے
دل راحت طلب کیوں ہم نہ کہتے تھے یہ دنیا ہے