اُم حیات ہنگورا
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ معراج کو کیسے ٹھیک کروں، اس کی ساری عادتیں ہیجڑوں والی ہیں، میرا مطلب ہے جن جن کے ساتھ رہ رہا تھا ان کے جیسا ہے
چھٹی قسط
’’یہ آپ کا بچہ ہے‘‘ شعیب دروازے پر آپا گلو اور ببلی کے ساتھ بچے کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اس نے فوراً ان کو اندر لے لیا اور آنے والے کی بات سن کر وہ لرز گیا کیوں کہ وہ مخنث نہیں بلکہ لڑکا تھا۔
’’میرا بچہ‘‘ شعیب نے حیرت سے کہا۔
’’ڈاکٹر نے جھوٹ، اتنا بڑا جھوٹ، ایسا دھوکا اور تم تم لوگ‘‘ شعیب بے بسی سے رو پڑا۔
’’ایک منٹ بھائی سارا الزام ہم لوگوں کو تو نہ دو۔ نہ جانے کیوں لوگ اپنے بچوں کو دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے متعلق کیوں نہیں سوچا جاتا۔ ہم کو گناہوں کے غار میں کیوں دھکیلا جاتا ہے۔ ہم کو ہمارے ماں باپ اٹھا کر ان کی گودوں میں ڈال دیتے ہیں۔ جس سے ہماری دنیا ہی نہیں آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے۔ آپ نے بھی تو معراج میرے حوالے کردیا تھا۔ ایک نظر دیکھنے کی کوشش بھی نہ کی۔ صرف ڈاکٹر کی بات کا بھروسا کرلیا‘‘ آپا گلو کی بات سن کر اب شعیب شرمندہ ہوگیا۔
’’اس کا خمیازہ ہی تو بھگت رہا ہوں۔ اس کی ماں نے مجھے اتنا سمجھایا مگر تب سب کچھ میرے ہاتھ سے نکل چکا تھا میں نے نہ معراج کو دیکھنے کی ہمت کی کیوں کہ میں ڈر گیا تھا کہ اس کا معصوم چہرہ مجھے ڈگمگا نہ دے اور نہ ہی تمہارا پتا جاننے کی کوشش کی کہ کبھی تم سے رابطہ کر سکوں‘‘ شعیب نے معراج کو گلے سے لگالیا اور سسکیاں لے کر رونے لگا۔ جو حیرت سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
’’میں ایک منٹ ابھی آیا۔ شعیب معراج کو لے کر اندر چلا گیا‘‘
سنیے معاذ کہہ رہا ہے کہ ہمارے گھر۔۔۔ صائمہ کچن سے نکلتی ہوئی تولیے سے ہاتھ صاف کرتی شعیب کی طرف آئی جو ڈرائنگ روم سے آرہا تھا۔
’’یہ کس کا بچہ ہے؟‘‘ وہ معراج کو دیکھ کر چونک گئی۔ شعیب خاموش کھڑا رہا۔ ’’آپ کچھ کہتے کیوں نہیں یہ بچہ‘‘ صائمہ کی آنکھیں آنسو سے بھر گئیں یہ معراج ہوسکتا ہے۔ مگر ایسا ممکن۔ میں پوچھتی ہوں یہ کون ہے‘‘ اب صائمہ نے شعیب سے التجائیے نظروں سے شعیب کی طرف دیکھا۔
’’یہ تمہارا معراج ہی ہے‘‘ یہ سنتے ہی صائمہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔
٭٭٭٭
’’امی جان دیکھیں یہ کیا کررہا ہے‘‘ معاذ نے آواز لگائی تو صائمہ دوڑتی ہوئی آئی، معراج سر سے عورتوں کی طرح لیکھیں کھینچنے میں مصروف تھا۔ مومنہ پیٹ پر ہاتھ رکھے ہنس ہنس کر دوہری ہوگئی تھی۔
’’یہ کیابدتمیزی ہے‘‘ صائمہ غصے سے بولی۔
’’آپ کے لاڈلے کو دیکھ کر ہنسی ہی آئے گی‘‘ اب معاذ بھی مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’تم لوگوں کو چھوٹے بھائی کا خیال کرنا ہے یا اس کا مذاق اڑانا ہے‘‘ صائمہ نے غصے سے کہا۔
’’اوہ سوری! لاؤ میں نکال دوں معراج‘‘ مومنہ نے ہنسے ہوئے معرج سے کہا۔ تو معراج فوراً سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ ’’اوئی ماں میں مر گیا‘‘ معراج چلایا کیوں کہ مومنہ نے معراج کے بال مذاق میں سختی سے کھینچے تھے۔ صائمہ نے غصے سے دونوں کو دیکھا اور معراج کو گود میں اٹھا کر چلی گئی۔
٭٭٭٭
’’آپ کو اندازہ ہے بہت کچھ غلط ہوتا چلا گیا ہے‘‘ صائمہ نے شعیب سے کہا تو شعیب مسکرایا اور جواباً مصرعہ پڑھا۔
’’مشکلیں اتنی پڑی مجھ پہ کہ آسان ہوگئیں‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ معراج کو کیسے ٹھیک کروں، اس کی ساری عادتیں ہیجڑوں والی ہیں، میرا مطلب ہے جن جن کے ساتھ رہ رہا تھا ان کے جیسا ہے۔ کل وہ پتا ہے کیا گا رہا تھا‘‘ ’’دیکھو صائمہ ہمیں اس پر بہت محنت کرنا ہوگی‘‘ ’’چھوٹا سراج، مومنہ، معاذ اور یہ اُف‘‘ معاذ اور مومنہ تو ماشاء اللہ سے بڑے ہوچکے ہیں بارہ سال کی مومنہ دس سال کا معاذ‘‘ ’’ہاں مگر ہیں تو بچے ناں وہ لوگ جس طرح سے معراج کا مذاق اڑاتے ہیں وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا‘‘ صائمہ روہانسی ہوگئی۔’’اچھا میں سمجھاؤں گا دونوں کو بس‘‘ شعیب نے کہا تو صائمہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭٭٭٭
شعیب بھائی آپ بہت بڑی ذمہ داری اٹھا رہے ہیں ہم جیسوں کو کون پوچھتا ہے۔ آپا گلو(گل خان) اور ببلی (بابر) نے شعیب سے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے مجھے کیا کرنا ہے تم لوگوں نے اب اصل کام کرنا ہے‘‘ شعیب حتمی لہجے میں بولا۔
میں سندھ کے ایک گاؤں کی ہوں شعیب بھائی! آٹھ دس سال کی تھی جب مجھے احساس ہوا کہ میرے والدین کا رویّہ مجھ سے عجیب کیوں ہے، نہ مجھے گڑیوں سے کھیلنے دیتے نہ باہر گلی میں جانے دیتے، لوگ عجیب عجیب جملے کہتے جو میرے کان میں پڑتے اور میری سمجھ میں نہ آتے اور پھر میرے گاؤں کے چودھری کے گھر شادی تھی اور پھر۔
٭٭٭٭
’’ہائے ہائے چودھری صاحب صرف اتنے سے، اسے خود ہی رکھ لو‘‘ آپا گلو نے سارے پیسے ہوا میں اڑا دیے آج (ببلی) اپنی ماں سے چھپ کر اس طرف آگئی تھی اور اتفاق سے اس نے پہلی دفعہ ان کو دیکھا تو اسے آپا گلو بہت اچھی لگی۔ کافی دیر جھگڑا کرنے کے بعد چودھری صاحب نے اس کو اور پیسے تھمائے تو آپا گلو اپنے ساتھ کے ٹولے کو لے لے کر گاؤں میں جہاں پر وہ لوگ ٹھہراکرتے ہیں وہاں پہنچی تو ببلی بھی ان کے پیچھے پیچھے جا پہنچی۔ ’’اے لڑکی اس طرف کیا کرتی ہے؟‘‘ ایک مخنث نے ببلی کو اس طرف آتے دیکھا تو پوچھا کچھ نہیں تم لوگ کون ہو؟ ’’آپا گلو نے ببلی کو دیکھتے ہی اندازہ لگالیا کہ ببلی نہ لڑکی ہے نہ لڑکا۔ ’’ادھر آ تیرا نام کیا ہے‘‘ آپا گلو نے ببلی کو اپنی طرف بلایا۔ ’’میرا نام پتا نہیں، تم لوگ یہاں کب تک ہو‘‘ ببلی ان کے سامان کو دیکھ کر بولی۔ ’’تم سے مطلب‘‘ آپا گلو کے ساتھ جو دوسری تھی چڑ کر بولی۔ ’’لڑکی ادھر آ‘‘ آپا گلو نے ببلی کو ہاتھ سے اشارہ کیا تو ببلی آپا گلو کے قریب ہوگئی۔ ’’ہم پرسوں صبح نکل جائیں گے چلنا ہے‘‘ تو ببلی نے نفی میں سرہلایا اور اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔
(جاری ہے)