گلوبل اسٹیٹمنٹ آف دی پریوینس آف ڈایابیٹس کے مطابق پاکستان میں 67 فی صد کی شرح سے ذیابیطس پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو 2030 تک پاکستان چوتھے نمبر پر آ جائے گا

عبدالصبور شاکر فاروقی ٹوبہ ٹیک سنگھ

 کہتے ہیں چھپ کر وار کرنے والا دشمن سامنے آ کر حملہ کرنے والے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، بھلے یہ چپکے سے وار کرنے والا کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بندے کو دفاع کا موقع ہی نہیں ملتا اور جان چلی جاتی ہے۔ کچھ یہی صورت حال ذیابیطس کی بھی ہے۔ جسے شوگر یا Diabetes بھی کہا جاتا ہے۔

نیشنل ذیابیطس سروے آف پاکستان NDSP کی رپورٹ کے مطابق شوگر سے متاثرہ ہر چھبیس افراد میں سے سات فی صد کو اپنے مرض کا علم ہی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ پرہیز و علاج اور ڈاکٹر کو دکھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے تقریباً 4 کروڑ، جب کہ دنیا بھر میں 34 کروڑ لوگ شوگر سے متاثر ہیں۔ اس لحاظ سے وطن عزیز دنیا میں ساتویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ یہاں ہر شخص روزانہ 72 گرام کے قریب چینی، گڑ یا شکر استعمال کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ری فائنڈ آٹا، فاسٹ فوڈ، بیکری مصنوعات اور ہائی گلائس مک انڈیکس والی چیزیں بھی بے دریغ کھائی اور پی جاتی ہیں۔ جس کی بنا پر تیزی سے ذیابیطس کا مرض  پھیل رہا ہے۔ گلوبل اسٹیٹمنٹ آف دی پریوینس آف ڈایابیٹس کے مطابق پاکستان میں 67 فی صد کی شرح سے ذیابیطس پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو 2030 تک پاکستان چوتھے نمبر پر آ جائے گا۔ 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق شوگر سے مرنے والوں کی تعداد ملیریا، تپ دق اور ایڈز سے مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ ہر گزرتے 6 سیکنڈ میں ایک شخص شوگر کی وجہ سے دنیا سے جا رہا ہے۔

 

سوال یہ ہے کہ ذیابیطس یا شوگر ہے کیا؟ ماہر ذیابیطس جناب ڈاکٹر منیب نواز اور ماہر غذائیات ڈاکٹر لالہ رخ ملک کا کہنا ہے: ''بنیادی طور پر شوگر غیر صحت مند و غیر متحرک زندگی کا نام ہے۔ جب آپ اپنی خوراک، طرز زندگی اور ورزش پر توجہ نہیں دیتے تو فطری نظام آپ سے بدلہ لیتا ہے۔ نتیجتاً خون میں انسولين نامی ہارمون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ جس سے مختلف عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً بلاوجہ تھکاوٹ، نظر کی کمزوری، بار بار پیشاب آنا، بھوک و پیاس کی زیادتی، ہاتھ پاؤں سن ہونا، پسینہ آنا اور پیروں میں جلن کا شدت سے احساس ہونا وغیرہ۔ جس کا نتیجہ بہت خطرناک صورت میں نکلتا ہے۔ جن میں اندھا پن، گردے فیل ہونا، گینگرین، ہاتھ پاؤں کا کٹ جانا، مردانہ کمزوری اور فالج وغیرہ سرفہرست ہیں۔''

 

 جناب اشرف چودھری  جو نہ صرف ماہر ٹرینر اور اسکالر ہیں، آن لائن ڈائبیٹک کلب بھی چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''شوگر کی مثال سانپ کی سی ہے۔ اگر آپ کو گھر کے دروازے پر اس کے انڈے پڑے ملیں تو سمجھ لیں کہ مصیبت نے آپ کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ اگر آپ فوراً اس کا تدارک نہیں کریں گے تو کل کو یہ انڈے چھوٹے چھوٹے سنپولیوں میں بدل جائیں گے اور پرسوں کسی بڑے اژدہے میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو اپنے مرض کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا اور جنہیں پتا چل جائے تو انہیں کافی عرصہ تک اس کا یقین ہی نہیں آتا۔ جب تک یقین ہونے لگتا ہے، یہ سنپولیے خطرناک کوبرا سانپ میں بدل چکے ہوتے ہیں۔ اب علاج کی جانب متوجہ ہونے کا خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ مرض اپنے آخری دہانے پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پمز ہسپتال جیسے بڑے شفاخانے جا کر بھی دس فی صد لوگوں کے ہاتھ پاؤں کٹ جاتے ہیں۔ شوگر صرف جسمانی ہی نہیں، ذہنی، سماجی، معاشی اور معاشرتی غرض ہر لحاظ سے انسان پر اثرانداز ہوتی ہے۔''

 

عوام کو آگاہی دینے کے لیے 1991 سے ہر سال چودہ نومبر کو یوم ذیابیطس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن مصنوعی انسولین کے موجد ڈاکٹر سر فریڈرک جی بانٹنگ کی تاریخ پیدائش کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے دوستوں چارلس ایچ بیسٹ اور جے جے آرمیکلوڈ نے 1921 میں مل کر بنایا۔ میرے خیال میں عامۃ الناس کو اس سے متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹروں کی پروفیشنل تربیت کرنی چاہیے جو ہر ضلع میں قائم شوگر سینٹر میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔ اشرف ڈائبیٹک کلب کے ماہرین کے بقول ہر چھ ماہ میں ہمیں شوگر سے متعلق ٹیسٹ کروانے چاہئیں جن میں Hba1c خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح ہر روز کی بنیاد پر گھر میں اپنی شوگر کا چیک اپ کرنا چاہیے۔ (شوگر چیک کرنے والا آلہ گلوکومیٹر کہلاتا ہے جو بہت زیادہ قیمتی نہیں ہوتا اور اسے استعمال کرنا بھی انتہائی آسان ہے۔) خاص طور پر جن کی عمر 40 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ ان کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔ شوگر کی ابتدائی دو اقسام ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو میں فرق پتا ہونا چاہیے۔ عموماً بچوں میں ٹائپ ون پائی جاتی ہے اور بڑی عمر کے لوگوں میں ٹائپ ٹو پائی جاتی ہے۔ ماہر نیوٹریشن ڈاکٹر لالہ رخ ملک کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنی خوراک میں روزانہ کی بنیاد پر پھل، سبزیاں، بیج، خشک میوہ جات، اناج اور اومیگا تھری شامل کر لیں۔ محض گندم کے آٹے کی بجائے جو، جوار، دالوں، چنے اور دیگر چیزوں کے آٹے کو شامل کر لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مصنوعی اور پراسیس شدہ غذاؤں سے پرہیز کریں تو شوگر سے نہ صرف ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی، بلکہ بغیر کسی دوا اور میڈیسن کے، ہاتھ پاؤں کٹوا کر جینے کی بجائے ایک خوب صورت اور صحت مند زندگی گزارنے کا شان دار موقع بھی مل جائے گا۔