حکیم شمیم احمد

پہلی قسط

کسی گھرمیں جہاں نوجوانی میں قدم رکھنے والے بچے موجود ہوں، چند کتابیں لا کر رکھ دیجیے اور بچوں کو انہیں پڑھنے کا مشورہ دیجیے مگر ایک کتاب کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیجیے کہ دیکھو اس کتاب کو  ہاتھ نہ لگانا۔ یہ تمہارے پڑھنے کی نہیں ہے اور اس کے بارے میں ہم سے کبھی کوئی سوال بھی مت کرنا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کی اس روک ٹوک کے نتیجے میں بچے کبھی بھی اس کتاب کو کھول کر نہیں دیکھیں گے؟ میرے خیال میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس  پابندی اور روک ٹوک نے اس کتاب کو بچوں کے لیے پراسرار بنا دیا ہوگا اور ان کے ذہنوں میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا تجسس پیدا کر دیا ہوگا۔

یہ ضرور اس ٹوہ میں رہیں گے کہ آخر اس کتاب کو  دیکھا تو جائے جس کے بارے میں اتنی راز داری برتی جارہی ہے وہ اس کے بارے میں ایک دوسرے سے معلومات حاصل کرنا چاہیں گے۔ قیاس آرائیاں شروع ہوجائیں گیں اور ہر بچہ اس کے بارے میں اپنی خفیہ رائے قائم کر لے گا۔

اگر بچے والدین سے اس کتاب کے بارے میں پوچھنا چاہیں گے تو ڈانٹ پڑ جائے گی۔ یا ٹال مٹول اور بہانہ سازی سے کام لیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں کسی نہ کسی دن بچے اس کتاب تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور وہ اسے چوری چھپے ضرور پڑھیں گے۔ پڑھنے کے بعد اسے اپنی فہم کے مطابق سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ ہوسکتا ہے انہیں اس کی عبارت غیر معمولی نظر آئے اور اگر ایسا نہیں بھی ہوا تب بھی ان کا ذہن انہیں ملامت ضرور کرتا رہے گا کہ انہوں نے والدین کا کہنا نہیں مانا، چوری کی، اخلاق سے گری ہوئی فحش اور گناہ آلودہ حرکت کی۔ یہ ندامت اور احساس گناہ ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر منفی سوچ پیدا کردے گا۔

کیا جنس اور جنسی معاملات کے بارے میں ہمارا رویہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسی ہی پراسرار خفیہ کتاب کی طرح نہیں ہے۔؟ ہم اپنے بچوں کو انسانی جسم کے متعلق تمام دیگر اعضاء کے بارے میں تمام پوری پوری معلومات فراہم کرتے ہیں اور انہیں پورا پورا اختیار دیتے ہیں کہ وہ ان کے بارے میں ہم سے ہر طرح کے سوالات کریں مگر جسم کے اس ایک نظام کے بارے میں نہ ہم انہیں خود سے کوئی معلومات فراہم کرتے ہیں نہ انہیں اس کے بارے میں سوالات کرنے دیتے ہیں بلکہ اگر کوئی بچہ نا سمجھی میں ایسا سوال بھی کرلے تو ڈانٹ دیا جاتا ہے یا اس کی توجہ کی دوسری طرف مبذول کرادی جاتی ہے اور اپنے رویے سے بچے پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس نے اخلاق اور تہذیب سے گرا ہوا کوئی سوال کر ڈالا ہے اور آئندہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے اس غیر ضروری راز داری اور بے جا احتیاط سے بچوں کے ذہنوں کا تجسس بڑھ کر اس معاملے کی کھوج لگانے کے لیے بے چین ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف عمر کے ساتھ بچوں کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں اور جنسی جذبات کا احساس انہیں مزید فکر مند و پریشان کر دیتا ہے، جنسی قوتوں کو بیدار کرنے اور ایک دوسرے کے لیے جنسی کشش پیدا کرنے کے لوازمات اور ماحول ہماری سوسائٹی خوب فراہم کرتی ہے۔ ادب، شاعری، مصوری، فلمیں، ٹی وی، اشتہارات، مخلوط ماحول یہ سب مرد و زن کے جنسی تعلق کے ایک لطیف پیرائے میں بظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جسے ہم اپنے بچوں کو علم کی شکل میں منتقل کرنے سے کتراتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ بند ڈبہ کھلنے نہ پائے۔

جنسی اعضاء میں تبدیلی اور احساسات کی جولانی اگر صحیح جنسی معلومات کے حصول کے بعد ہو تو بلوغت شاید نوجوانوں کے لیے کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہ ہو اور وہ اس طوفان سے مقابلے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہوں مگر ترقی پذیر ملکوں کے ماحول کی ستم ظریفی یہی ہے کہ جنس کو بطور تعلیم بچوں کے سامنے پیش کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ نہ یہ رواج گھروں میں ہے اور نہ اسکولوں میں اور دیگر جو معلوماتی ذرائع ہیں وہ بھی اس ذیل میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں جہاں بات جنسی علم اور تعلیم کی آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کسی انتہائی مخرب الاخلاق چیز کا  نام لے دیا گیا ہو اور فوراً یہ عذر پیش کر دیا جاتا ہے کہ صاحب یہ رسالہ تو گھر کے سب لوگ پڑھتے ہیں یا ٹی وی پروگرام تو گھر کی لڑکیاں، بچے بڑے سب مل کر دیکھتے ہیں اس لیے اس طرح کی معلومات پیش کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ جنسی تعلیم سے غفلت نہ صرف عام اسکولوں اور کالجوں میں برتی جاتی ہے بلکہ طبی درس گاہوں تک میں بھی ان سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں طبیہ کالجوں کے نصابِ تعلیم میں چند سال پہلے مردوں کے جنسی امراض شامل نہیں تھے اور جب بھی اس بارے میں متعلقہ افراد سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہی عذر پیش کیا کہ لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں چنانچہ اس موضوع پرکس طرح آگاہی دی جائے ۔

اگر جنس واقعی اس قدر گندی چیز ہوتی تو کلام پاک میں اس کا جا بجا ذکر کیوں آتا؟ قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر زن و شوہر کے تعلقات کے ساتھ ساتھ نطفے کے بننے اور اس کے بڑھنے کے مدارج کو بھی نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ زمانہ حمل کی اور دودھ پلانے کی مدت متعین کی گئی ہے نیز یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ کس طرح جنسی ملاپ جائز ہے بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور کن طریقوں سے اس کا ارتکاب غلط ہے اور گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔

دراصل انسانی سوچ اور اس کی ذہنی تربیت کی بات ہے کہ وہ کس طرح بات کو کس انداز میں لے رہا ہے ورنہ جنسی عمل عبادت ہے ۔ جنسی عمل ایک علم ہے اور اس پر آگاہی ضروری ہے جس پر حکماء علماء فلاسفر اور سائنس دانوں نے کام کیا ہے اور اس کے بارے میں معلومات کو آگے بڑھایا ہے۔ جنسی عمل ایک ضرورت ہے، ایک ایسی ضرورت جس کے تحت دنیا قائم ہے اور بلا شبہ حرام طریقے سے جنسی عمل ایک فحاشی، ایک گالی اور ایک گناہ ہے مگر اس عبادت اور گناہ کے درمیان حد فاصل ہم اسی وقت کھینچ سکیں گے اور دونوں کو علیحدہ علیحدہ واضح کر پائیں گے جب ہم اپنے بچوں کو بلوغت کی عمر کے قریب پہنچنے پر ان سے بات چیت کریں ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیں۔ جنس کی اہمیت اور اس کے فوائد سے انہیں آگاہ کریں۔ قدرت کے اس انتہائی ضرور اور مفید نظام کی بابت انہیں سمجھائیں اس کے استعمال کے اوقات کو جائز طریقوں سے باخبر کریں۔ ساتھ ہی اس کے غلط یا قبل از وقت استعمال سے پیدا ہونے والے نتائج سے انہیں مطلع کیا جائے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے اور غیر ضروری احتیاط و رازداری سے کام لیں گے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ بچوں کا تجسس تو بیدار رہے گا ہوسکتا ہے وہ اپنے بے تکلف دوستوں سے سوالات کریں یا ملازمین سے پوچھیں یا گھٹیا اشتہاری لٹریچر ان کے ہاتھ لگ کر ان کی معلومات کا ذریعہ بنے۔ ان میں سے ایک طریقہ بھی درست نہیں ہے چونکہ جن لوگوں سے وہ معلومات حاصل کر رہے ہیں انہیں خود بھی صحیح علم نہیں ہوتا اور سینہ بہ سینہ سرگوشیوں میں منتقل ہونے والا یہ علم بجائے نفع کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔

اکثر معا لجین کے پاس نوجوان لڑکے آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ رات خواب میں ان کے کپڑے خراب ہوگئے۔ اس صورت حال سے وہ خوفزدہ اور پریشان ہوئے ہوں گے تبھی تو انہوں نے کسی مطب کا رخ کیا اور ان کی معلومات کا ذریعہ دیواروں پر لکھے ہوئے جنسی اشتہارات ہی بنے  ہوں گے جن میں احتلام کو خطرناک مرض بیان کیا گیا ہے اب ان نوجوانوں کی قسمت ہے کہ وہ علاج کے لیے کس کے پاس گئے ہیں اگر کسی پڑھے لگھے معقول معالج سے ان کا واسطہ پڑا ہے۔ تو وہ سمجھا بجھا کر ان کے ذہن کا بوجھ ہلکا کرکے انہیں رخصت کر دے گا۔ کہ اگر ایک ماہ میں تین چار بار ایسی صورت حال پیدا ہورہی ہے تو یہ کوئی مرض نہیں ہے اگر اس سے زیادہ ہو تب بھی کوئی بہت سنگین مسئلہ نہیں ہے تھوڑی بہت احتیاط اور علاج سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہی نوجوان کسی اشتہاری عطائی جنسی معالج یا ستر سالہ سنیاسی باوا کے چنگل میں پھنس گیا تو آپ سمجھ لیجیے کہ مالی نقصان تو ہوگا سو ہوگا، وہ ہمیشہ کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر جنسی مریض بنا دیا جائے گا۔ کیونکہ عطائیوں کا طریقہ کار ہی یہی ہے کہ مریض کو مایوس و خوفزدہ کیا جائے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے پر تیار ہوجائے۔ اگر بچپن میں لا علمی کے باعث اس سے کوئی نا سمجھی ہوگئی ہے تو اس کے ذہن میں یہ تصور مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے کہ اب وہ شادی کے قابل نہیں رہ گیا یا اس میں ایک مرد کی قوت و صلاحیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔(جاری ہے)